ہندوتوا کی برتری کی جنگ کے درمیان کسانوں کا نعرہ ’ہمیں مندر نہیں ، روزگار چاہئے‘
نہال صغیر
اس بات کو اب اور کتنی بار دوہرائی جائے کہ کانگریس بھی بی جے پی کی طرح ہندوتوا کے ایجنڈے پر چل پڑی ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ شروع سے ہی ہندوتوا کے ایجنڈے پر ہے بس ہمیں اب احساس ہوا ہے ۔۲۰۱۴ میں مودی کے عروج کے بعد تو جیسے کانگریس پر ہندوتوا کا بھوت ہی سوار ہو گیا ہے ۔ اب وہ کوئی موقعہ نہیں جانے دیتی جہاں ثابت کرنا ہو کہ وہ ایک ہندوپارٹی ہے اور ہندوئوں کی فلاح و بہبود کیلئے ہی کام کررہی ہے ۔حالیہ جاری انتخابی ہنگاموں میںراہل گاندھی خود کو مودی سے بڑا ہندو ثابت کرنے کی فکر میں یہ تک کہہ گئے کہ مودی خود کو ہندو کہتے ہیں لیکن وہ ہندوتوا کی بنیاد سے ہی واقف نہیں ہیں ۔
حالانکہ راہل گاندھی نے اہم عوامی مسائل اور اس سے مودی حکومت کی چشم پوشی یا اس میں ناکامی کو بھی عوام کے سامنے رکھا لیکن میڈیا اور عوامی حلقوں میں ہندوتوا والی باتیں ہی موضوع بحث ہیں ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ راہل گاندھی کو خود کو ہندو نہیں کہنا چاہئے لیکن اس کے لئے جو جگہ اور موقع منتخب کیا ہے وہ غلط ہے ۔ بھلا وہ انتخابی اجلاس اور مہم کے دوران اس طرح کی باتیں کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟ کل ہی کی بات ہے ہمارے فوجی سربراہ نے پاکستان کو سیکولر ملک بننے کی سیاسی صلاح دے ڈالی ۔ میرے خیال میں جنرل راوت کو یہ مشورہ ہماری ان دونوں قومی پارٹیوں کو دینے کی ضرورت ہے ۔ جو ایک دوسرے سے اس بات کیلئے بنرد آزما ہیں کہ کون زیادہ سچا ہندو ہے ۔
یہ ایک نجی معاملہ ہے اور اسے اپنی ذات تک ہی محدود رکھنا چاہئے ۔ اسے عوامی سطح پر لانا یہ ثابت کرتا ہے کہ بی جے پی اور مودی کی طرح راہل گاندھی بھی عوام کو ان کے بنیادی مسائل کی جانب لوٹنے نہیں دینا چاہتےہیں ۔ راہل گاندھی کو ذرا پیچھے کی جانب مڑ کر اپنے پرناناپنڈت نہرو کی جانب بھی دیکھ لینا چاہئے کہ جب سومناتھ مندر کے افتتاح میں راجندر پرساد نے جانے کا ارادہ ظاہر کیاتو نہرو نے اس کی مخالفت کی حالانکہ پہلے صدر جمہوریہ راجندر پرساد مندر کے افتتاح میں شامل ہوئےلیکن جواہر لال نہرو نے خود کو اس سے علیحدہ رکھا ۔
آج حالت یہ ہے کہ راہل اور مودی دونوں میں اس سلسلے میں برتری کی جنگ جاری ہے کہ کون عوام کو کتنا زیادہ احمق بنا سکتا ہے ۔ جیسا کہ پچھلے ساڑھے چار سال میں موجودہ حکومت نے بنایاہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر مودی جی کو بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو کم از کم راہل گاندھی کو بحیثیت کانگریس سربراہ کے یہ جاننا ضروری ہے کہ دہلی میں کسانوں نے اپنی احتجاجی ریلی میں واضح کیا ہے کہ ’ہمیں مندر نہیں ، روزگار چاہئے‘ ۔ کیا اتنی سی بات راہل گاندھی یا کانگریس کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ عوام مندر کی سیاست اور ہندوتوا کے کھوکھلے نعروں سے اوب چکے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ ہندوتوا بریگیڈ کا ایودھیا شو بری طرح فلاپ ہوا لیکن کانگریس اس عوامی مزاج کو سمجھ کر انتخابی مہم چلنے کی بجائے مودی کے سر میں سر ملانے میں جٹی ہے ۔