تہذیبی و لسانی انجمن ’اردو مرکز‘ کی جانب سے قادر خان کیلئے تعزیتی نشست
قادر خان مرحوم ایک ہمدرد ، خلیق و ملنسار انسان تھے ، وہ دوبارہ پیشہ معلمی میں لوٹ آنے کی خواہش رکھتے تھے
ممبئی : عام طور پر کسی کی یوم پیدائش یا نئے سال پر مبارکباد کے پیغام کی روایت ہے ۔ لوگ ایک دوسرے کو اس سلسلے میں مبارکباد دیتے ہیں ۔ مرحوم قادر خان کی کسی فلم میں ایک مکالمہ جس میں کوئی انہیں یا کسی کے تعلق سے یوم پیدائش پر مبارکباد دیتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ کس بات کی مبارکباد عمر کا ایک سال کم ہو گیا پھر بھی مبارکباد ! یکم جنوری ۲۰۱۹ کے دن وہی قادر خان جنہیں عام طور پر لوگ فلموں کے ذریعہ سے پہچانتے ہیں انتقال کرگئے ۔ ان کی تعزیت کیلئے ممبئی کی بیس سالہ قدیم تہذیبی اور لسانی انجمن ’اردو مرکز‘ میں ۵؍ جنوری کو ایک تعزیتی میٹنگ میں شہر کی چنندہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیتیں جیسے اردو مرکز کے ڈائریکٹر زبیر اعظمی ، انیس جاوید ، آفتاب حسنین ، سعید حمید ، فواد پٹکا ، عبد الرحمن قریشی ، سرفراز آرزو ، ارشاد الحسن ، ایڈووکیٹ عاصم خان ، نہال صغیر ، ایم ایچ ناظم ، رفیق شیخ ، آصف پلاسٹک والا ، منور آزاد ، غزالہ آزاد ، انصاری وسیم ، شریف حمید ، سعید خان ، محفوظ الرحمن انصاری ، دائود خان ، پروفیسر منور رضوی ، سمیع موسیٰ ، یاسمین سُروے ، تاج قریشی وغیرہ ۔
میٹنگ میں مختلف افراد نے قادر خان کے مختلف کردار پر روشنی ڈالی ۔ پوری دنیا انہیں صرف فلموں کے ذریعہ جانتی ہے لیکن معلوم ہوا کہ فلموں اور تھیٹروں سے الگ وہ ایک ہمدرد اور غمگسار انسان تھے ۔ ممبئی کے کچھ لوگ تو یہ جانتے ہیں کہ وہ ممبئی کے معروف ٹیکنیکل کالج صابو صدیق میں معلم تھے ۔ لیکن عام طور پر دنیا اس سے ناواقف ہے ۔ میٹنگ سے قبل ہی قادر خان مرحوم کے ایک قریبی عبدالرحمن قریشی جو انکے شاگرد بھی رہ چکے ہیں نے بتایا کہ وہ ایک ہمدرد ، خلیق و ملنسار انسان تھے ۔ وہ ایک نابغہ روزگار معلم تھے ، انہیں اپنے شاگردوں سے ازحد انسیت تھی اور وہ ان کی تعلیمی رہنمائی کیلئے کسی بھی وقت تیار رہتے تھے ۔
میٹنگ میں مختلف لوگوں نے اپنے تاثرات پیش کئے ۔ شرکا میں سے ایک نے کہا کہ ایک بار صابو صدیق اسکول کے بچوں نے ان سے ریاضی پڑھانے کیلئے کہا ۔ بچے کئی درجن تھے اور ان کے دسویں کا امتحان سر پر تھا قادر خان مرحوم نے بچوں سے وعدہ کیا کہ وہ فلم کی شوٹنگ سے فارغ ہوتے ہی صابو صدیق میں آتے ہیں بچوں نے انتظار کیا رات کے بارہ بجے کے قریب وہ آئے اور انہوں نے تھکاوٹ کے باوجود بچوں کو میتھ کے سبق فجر کی اذان تک پڑھائے ۔ کئی لوگوں نے کہا کہ وہ سارے بچے اس سال کامیاب رہے ۔ حالانکہ میتھ ان کا سبجیکٹ نہیں تھا لیکن وہ ریاضی بہت اچھی طرح جانتے تھے اور انہیں پڑھانے کا سلیقہ بھی خوب آتا تھا ۔
صحافی سعید حمید نے کہا کہ عام طور پر قادر خان کو کامیڈین یا فلم کے ذریعہ سے پہچانا جاتا ہے لیکن ان کی شخصیت میں ایک کمال خوبی یہ تھی کہ انہوں نے معلمی سے اپنے پیشہ کی شروعات کی تو آخر تک وہ معلم ہی رہے ۔ سعید حمید نے بتایا کہ وہ فلمی دنیا میں جاکر بھی فلمی دنیا کے گلیمر میں نہیں کھوئے انہوں نے خود کو اس دنیا سے پوری طرح علیحدہ رکھا ۔ اسی طرح وہ ممبئی کی بدنام بستی میں رہنے کے باوجود اپنی شخصیت کے ارتقا میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دیا ۔ سعید حمید بتاتے ہیں کہ کسی وقت طالب علمی کے دور میں انہوں نے غربت سے تنگ آکر کباڑ چن کر اس سے کچھ کمانے کی کوشش کی تو ان کی ماں نے کہا کہ اگر تم آج دو روپئے کی لالچ میں آگئے تو زندگی میں کچھ نہیں کرسکتے ۔
میٹنگ میں ایک شریک ساتھی نے کہا کہ ان کے ساتھ فلم انڈسٹریز میں نا انصافی ہوئی اور گذشتہ بیس سال سے انہیں کوئی کام نہیں دے رہا تھا ۔ لیکن راقم کی رائے ہے کہ اس سے اچھا یہ ہوا کہ وہ دین کی جانب زیادہ راغب ہوئے اور انہوں نے عربی سیکھی اور پھر خود بھی قرآنی عربی کی کلاس مفت میں لیتے تھے ۔ ان کے احباب میں سے ایک نے بتایا کہ وہ ہالینڈ میں اسلامک یونیورسٹی بنانے کے خاکہ پر کام کررہے تھے لیکن وہ ہنوز تشنہ تعبیر ہے ۔ قادر خان کے ایک دیگر ساتھی مشتاق مرچنٹ کے بارے میں بھی کہا گیا کہ وہ بھی اسلام کی جانب مڑ گئے ہیں اور اب دنیا سے بالکل کنارہ کش ہو گئے ہیں لیکن قادر خان اور ان میں فرق یہ ہے کہ قادر خان دین کی جانب آئے تو اس کے مبلغ بن گئے وہ تبلیغ دین میں متحرک ہو گئے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ میں دین کے شعور کو جگانے کیلئے کام کرنے لگے ۔ جس کا اندازہ ان کے بعض ویڈیو سے ہوتا ہے ۔
بہر حال جنوبی ممبئی کی مسلم بستی جسے تاریخی حیثیت حاصل ہے وہاں سے انگنت ایسی شخصیات نکلی ہیں جنہوں نے دنیا کو ممبئی کو وہ شناخت دی تھی جو تاریخ کا حصہ ہے ۔ آج بھلے ہی ناگپاڑہ اور محمد علی روڈ یا مدنپورہ وغیرہ کو ایک الگ نظر سے دیکھا جاتا ہو لیکن ایک سنہرا دور وہ تھا جب یہاں کی سرزمین نے اپنی گلیوں میں ادیب شاعر آرٹسٹ اور قوم کے ہمدردوں کی میزبانی کی ہے ۔ ان کو سائبان دیا ہے ؟ لیکن اب جہاں اردو پڑھنے پڑھانے کا رواج ختم ہو چکا ہے ۔ جن بستیوں کی پہچان اردو سے تھی وہاں اردو اسکول اور کالج بند ہو رہے ہیں ۔ قادر خان کو سچا خراج عقیدت تو اسی وقت دیا جاسکتا ہے جب اپنی تہذیبی زبان اردو کو بوجھ نہیں بلکہ اپنی نسلوں میں اسے منتقل کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھا جائے ۔