صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

بابا بنگالی کی منشاء کیا ہے ؟ آسام کے حالات پر علماء کی میٹنگ کی قیادت اور آسام جیسے حالات پیدا کرنے والوں سے یارانا

1,836

 

 

ورلڈ اردو نیوز ڈیسک

ممبئی : ابھی دوروز قبل ہی آسام کے مسئلہ شہریت پر توڑوئے ناگپاڑہ نام نہاد مذہبی ٹھیکیدار جسے مذہبی مافیا کہنا زیادہ درست ہے شری معین اشرف نے علما کے ایک میٹنگ کی قیادت کی تھی جبکہ جانکاروں کا دعویٰ ہے کہ بابا بنگالی کو آسام کے مسئلہ شہریت کا الف بے بھی نہیں معلوم لیکن بلال مسجد کے وضوخانہ والے حوض میں خواتین اور بچوں سمیت لوگوں کے سوئمنگ کرنے والے ویڈیو سے ذلت جھیل رہے بابا بنگالی کو لوگوں کے ذہن کو دوسری جانب پھیرنے کا اس سے بہتر موقعہ اور کیا مل سکتا تھا ۔ وہ آسام کی اے بی سی ڈی نہیں جانتے ہوئے بھی اس میں کود پڑے ۔ حالانکہ پریس کانفرنس کا یہ حربہ بھی فلاپ ثابت ہوا کیونکہ اس میں جرنلسٹ  نہیں  تھے- انڈین ایکسپریس کے  ایک فوٹو گرافر نے بتایا کہ مجھے لگا  کوئی خاص بات ہوگی لیکن وہاں جانے کے بعد  پتا چلا   کہ  میڈیا سے کوئی ہے ہی نہیں  انھیں جیسے ہی  بنگالی گینگ نے دیکھا  تو ایسی  خوشی ظاہر کی جیسے  کہ سوکھے میں بارش  ہونے کے بعد کسان خوش ہوتے ہیں –

بابا بنگالی کا ایک بڑا گہرا یارانا منسے کے بالا نند گاؤنکر سے ہے جنہوں نے اپنے بیان میں راج ٹھاکرے کے حوالے سے کہا ہے کہ ممبئی میں بھی آسام کی طرز پر شہریت کی شناخت کی جائے یہ وہی راج ٹھاکرے جنہونے حال ہی میں اذان کو لیکر ایسا بیان دیا تھا جسسے مسلموں کے مذهبی جذبات مجروح ہوئے لیکن مجال ہے کہ بنگالی نے اس بارے میں منسے کے خلاف کوئی بیان دیا ہو ۔ گاؤنکر کے مطابق ممبئی میں بھی بنگلہ دیشی یہاں کی آبادی میں شامل ہو چکے ہیں جن کی شناخت کرکے نکالا جانا چاہئے ۔ ایک طرف راج ٹھاکرے کے ایک معتمد کا یہ بیان دوسری جانب بابا بنگالی کا ان سے یارانا کیا ثابت کرنا چاہتا ہے ۔ کیا بابا بنگالی نے مسلمانوں کو بالکل ہی احمق سمجھ رکھا ہے کہ وہ یہ نہیں سمجھ پائیں گے کہ آسام کے مسئلہ پر میٹنگ کی قیادت اور اخباری بیان محض چھوٹا سونا پور بلال مسجد کے حوض میں سوئمنگ کرنے والے جو بابا کے بھکت ہیں کی شرمندگی کے سبب مسلمانوں کے درمیان در آئے غصہ کو ٹھنڈا کرنے اور بلال مسجد مسئلہ اور انجمن اسلام کی زمین پر ناجائز قبضہ سے ذہنوں کو دوسری جانب موڑنے کے مقصد سے بابا بنگالی نے آسام والے مسئلہ میں ہاتھ ڈالا ہے ۔ویسے بھی ان کا کام بیان دینا اور اخبارات میں فوٹو چھپوانے سے زیادہ نہیں ہے ۔اب مسلمان اور خصوصی طور پر سنی مسلمان بابا بنگالی سے پوچھیں کہ ایک طرف تو آپ آسام کے مسلمانوں سے ہمدردی کی نوٹنکی کرتے ہیں اور دوسری جانب ان لوگوں سے آپ کا یارانا بھی ہے جو آسام جیسی صورتحال ممبئی اور مہاراشٹر میں پیدا کرنا چاہتے ہیں ؟

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.