صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر وسیم احمد کی تحقیق معروف بین الاقوامی سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوئی

39,783

علی گڑھ : شمال بعید میں گرم ترین خطوں کے مقابلے زیادہ جاندار رہتے ہیں اور قطب شمالی کی سردترین آب و ہوا ان کی زندگی کے لئے مہلک نہیں ثابت ہوتی۔ یہ انکشاف اس طرح کی پہلی بین الاقوامی مشترکہ سائنسی تحقیق میں ہوا ہے ۔

یہ تحقیق برطانیہ کے معروف سائنسی جریدے ’’نیچر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے ۔ بین الاقوامی محققین کی اس ٹیم میں ہندوستان سے واحد سائنسداں ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبۂ علم الحیوانات کے سربراہ پروفیسر وسیم احمد شامل تھے ۔

اس تحقیق سے کرّۂ ارض پر زندگی کے بارے میں انسانی فہم میں ایک نیا اضافہ ہوا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے جانداروں کی سب سے بڑی آبادی قطب شمالی سے نیچے کی جانب کی مٹیوں میں پائی جاتی ہے۔

بین الاقوامی تحقیقی پروجیکٹ کے تحت امریکہ ، برطانیہ ، جرمنی ، سوئزرلینڈ ، ہالینڈ ، اسپین ، ڈنمارک ، سویڈن ، اٹلی ، بلجیئم ، فرانس ، برازیل ، روس ، جنوبی افریقہ ، آسٹریلیا ، چین ، پرتگال ، تائیوان ، سنگاپوراور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے 50؍ سے زائد سائنسدانوں نے مٹی میں رہنے والے اِستوانی کیڑوں (نِمیٹوڈ) پر تحقیق کی جو تغذیہ کے سلسلہ ، پودوں کے نمو اور آب و ہوا میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں ۔

اس تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ایک انسان کے مقابلے مٹی میں رہنے والے  57 بلین نمیٹوڈ ہیں اور 34.7 فیصد جاندار سرد ترین قطب شمالی کے خطے میں رہتے ہیں جب کہ 24.5 فیصد معتدل آب و ہوا والے خطہ میں اور 20.5 فیصد جاندار گرم ترین استوائی خطے میں رہتے ہیں ۔

اس تحقیق کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر وسیم احمد نے بتایا کہ ان نئی دریافتوں سے زمین پر زندگی کے سلسلہ میں ہمارے نظریات میں بڑی تبدیلی آئی ہے ۔

انھوں نے کہاکہ یہ تحقیق آب و ہوا کی تبدیلی کے سلسلہ میں پیشین گوئی کرنے میں بھی مددگار ہوگی جس کے لئے نہ صرف ہمارے کرّہ ارض کے علم کیمیا اور طبیعیات کی ضرورت ہے بلکہ گلوبل کاربن ، تغذیہ کے سلسلہ اور حیاتیاتی نظام کا خاطر خواہ علم بھی ہونا چاہئے۔ انھوں نے کہاکہ نِمیٹوڈ زیادہ درجۂ حرارت میں زیادہ سرگرم رہتے ہیں، چنانچہ قطب شمالی کا خطہ نمیٹوڈ کی زیادہ آبادی کے سبب حدّت کے تئیں زیادہ حساس ہوجاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ان علاقوں میں مٹی کے کاربن کا بڑا ذخیرہ ہے اور مٹی کی تہہ میں جانداروں کی سرگرم حرکت کے نتیجہ میں زیادہ کاربن کا اخراج ہوسکتا ہے ۔

پروفیسر وسیم احمد نے کہاکہ ہماری تحقیق سے سائنسدانوں کو کاربن سائکلنگ کے سلسلہ میں بہتر پیشین گوئی کرنے میں مدد ملے گی ۔ اس کے ساتھ ہی زمین کا بندوبست رکھنے والے افراد حیاتیاتی تنوع کے خاتمہ کو روکنے کے لئے صحیح فیصلے لے سکیں گے اور مٹی کو صحت مند رکھ سکیں گے۔ انھوں نے کہاکہ پالیسیاں بنانے والوں کو زمین کی تہہ میں پائی جانے والی زندگی پر تحقیق پر زیادہ زور دینا ہوگا کیونکہ آب و ہوا کی تبدیلی میں اس کا اہم رول ہے ۔

پروفیسر وسیم احمد نے بتایا کہ مٹی میں پائے جانے والے نِمیٹوڈ پر یہ تحقیق مٹی کے 6759؍نمونوں پر کی گئی ۔ سبھی برّ اعظموں اور ہر طرح کی آب و ہوا والے علاقے سے نمونے جمع کئے گئے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ کس طرح کے خطہ میں کتنی کثرت سے نمیٹوڈ پائے جاتے ہیں ۔

پروفیسر وسیم احمد ایک درجن سے زائد ملکوں میں مٹی میں رہنے والے نمیٹوڈ پر تحقیق کا چار دہائی کا تجربہ رکھتے ہیں ۔ انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں اور سائنسی جرائد میں ان کے تقریباً 200؍تحقیقی مقالے شائع ہوئے ہیں ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.