صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

بر صغیر ہند کی سب سے منظم اسلامی جماعت کا یوم تاسیس

4,136
 محمد طاھر مدنی 
آج جماعت اسلامی کا 77 واں یوم تاسیس ہے. 26 اگست 1941 کو اس جماعت کا قیام عمل میں آیا. مولانا سید ابو الاعلی مودودی رح کی دعوت پر متحدہ ہندوستان کے کونے کونے سے 75 افراد لاہور میں اکٹھا ہوئے اور کافی غور و فکر کے بعد تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی، جس کا ے امیر اتفاق رائے سے مولانا سید ابو الاعلی مودودی رح کو منتخب کیا گیا. آج 77 برس کا عرصہ گزر گیا اور یہ جماعت نہ صرف پورے برصغیر میں سرگرم عمل ہے بلکہ پوری دنیا میں اس کے اثرات پائے جاتے ہیں.
قیام کا پس منظر؛  جماعت اسلامی کے قیام کے پس منظر کو سمجھنے کیلئے اس وقت کے حالات اور داعی اول کی سرگرمیوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے. مولانا سید ابو الاعلی مودودی رح کی پیدائش 1903 میں حیدر آباد دکن کے شہر اورنگ آباد میں ایک دینی خانوادے میں ہوئی، ان کے والد جناب سید احمد حسن رح ایک انتہائی دیندار شخص تھے، ان کی وکالت اس لیے نہ چل سکی کہ وہ بہت چھان پھٹک کے بعد صرف سچا مقدمہ ہی لیتے تھے. اپنے بیٹے کی تربیت اتنی احتیاط سے کی کہ نو برس کی عمر میں سید مودودی رح نے ایک ملازم کے بیٹے کو ایک طمانچہ مار دیا، والد کو معلوم ہوا تو سخت ناراض ہوئے اور اس سے کہا کہ تم بھی اسے ایک طمانچہ رسید کرو، چنانچہ اس کا اثر یہ ہوا کہ سید صاحب نے بعد میں کسی ماتحت پر ہاتھ نہیں اٹھایا. سید صاحب کی عمر ابھی 14، 15 ہی سال تھی کہ والد محترم کا سایہ سر سے آٹھ گیا. اب معاشی مشکلات نے آگھیرا اور سید صاحب کو صحافتی زندگی کا آغاز کرنا پڑا، اللہ نے بڑی صلاحیتوں سے نوازا تھا اور قلم بہت زور دار تھا. 1918 میں اپنے بڑے بھائی جناب ابو الخیر مودودی رح کے ساتھ؛ مدینہ؛ اخبار جو بجنور سے نکلتا تھا، اس میں کام کیا. 1920 میں جبل پور سے؛ تاج؛ اخبار نکلا تو اس کے مدیر مقرر ہوئے، 1922 میں جمعیت علماء کی سرپرستی میں؛ مسلم؛ اخبار نکلا تو اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے، 1923 میں یہ اخبار بند ہوگیا. اس کے ڈیڑھ برس تک بھوپال میں یکسوئی کے ساتھ مطالعہ میں مصروف رہے. فروری 1925 میں جمعیت علماء نے الجمیعت اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا تو سید صاحب ہی ایڈیٹر مقرر ہوئے. 1928 میں الجمیعت سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا. اس دوران؛ مرتد کی سزا؛،؛ اسلام کا سرچشمہ قوت؛ اور؛ الجہاد فی الاسلام؛ جیسی معرکة الآراء؛ کتابیں لکھی. خاص طور پر آخر الذکر کتاب کی تصنیف کے دوران ان کا نقطہ نظر تبدیل ہوا اور اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کی حیثیت سے بالتفصیل سمجھنے کا موقع ملا اور مسلمانوں کی اصل ذمہ داری یعنی بلا کم کاست دین کی دعوت اور اس کی اقامت کی کوشش مبرہن شکل میں آشکار ہوئی، چنانچہ انہوں نے الجمیعت سے علیحدگی اختیار کی اور آزادانہ طور سے کام کرنے کا فیصلہ کیا. دسمبر 1928 میں حیدرآباد منتقل ہوگئے اور 1933 تک پوری یکسوئی کے ساتھ مطالعہ و تحقیق میں لگے رہے. اب ضرورت اس بات کی تھی کہ اپنی دعوت اور پیغام کو عام کرنے کیلئے کوئی آرگن اور پلیٹ فارم ہو، چنانچہ مارچ 1933 میں ماہنامہ ترجمان القرآن کی ادارت سنبھال لی، یہ رسالہ 6 ماہ قبل جناب ابو مصلح صاحب نے دعوت قرآنی کو عام کرنے کیلئے شروع کیا تھا. انہوں نے یہ اعلان کردیا کہ اب یہ رسالہ زیادہ بہتر اور اھل ہاتھ میں جارہا ہے اور قرآنی دعوت زیادہ موثر انداز سے ان شاءاللہ عام ہوگی.
ماہنامہ ترجمان القرآن کا تاریخی کردار…..  1933 سے بذریعہ ترجمان القرآن سید صاحب نے اپنی دعوت منظم انداز میں پیش کرنے کا آغاز کردیا. قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنا، مغربی تہذیب کا جائزہ لینا، مسلمانوں کو ان اصل ذمہ داری یاد دلانا اور حالات کی نزاکت سے لوگوں کو آگاہ کرنا، رسالے کا مقصد تھا، دھیرے دھیرے حلقہ وسیع ہوتا گیا اور ترجمان القرآن کے ذریعے ہم خیال افراد کی ٹیم تیار ہونے لگی، اس زمانے میں وہ سلسلہ مضامین شائع ہوا جو؛ تفہیمات؛ اور؛ تنقیحات؛ نامی مجموعوں کا حصہ ہے. اسی دوران کانگریس نے رابطہ عوام کی مہم شروع کردی اور متحدہ قومیت کی بنیاد پر مسلمانوں کو اپنے اندر ضم کرنے کا کام کرنے لگی، یہ تہذیبی ارتداد کا ایک بہت بھیانک خطرہ تھا چنانچہ سید مودودی رح نے مسلمانانِ ہند اور موجودہ سیاسی کشمکش کے نام سے مضامین کا سلسلہ شروع کیا اور کانگریس کے منصوبے کی خطرناکی واضح کی.اس طرح ایک بہت بڑے فتنہ سے مسلمانوں کو بچایا. کانگریس کی متعصبانہ پالیسیوں کی وجہ سے مسلم لیگ جوابی سیاست کے رخ پر چلی گئی اور مسلم قوم پرستی کی بنیاد پر آگے بڑھنے لگی، چنانچہ سید مودودی رح نے اس سیاست کی خطرناکی بھی واضح کی اور سلسلہ مضامین لکھا جو؛ مسلمانانِ ہند اور موجودہ سیاسی کشمکش؛ حصہ سوم کا حصہ ہے. مولانا نے یہ بھی واضح کیا کہ اسلامی حکومت کے خد و خال کیا ہیں اور وہ کس طرح قائم ہوتی ہے.
ان حالات میں جبکہ دوسری عالمی جنگ شروع ہوچکی تھی اور ہندوستان کے حالات بھی تیزی سے بدل رہے تھے، کانگریس اور مسلم لیگ کی پالیسیوں پر بھر پور تنقید سید مودودی رح نے کی تھی، یہ ضروری ہوگیا تھا کہ صحیح طریقہ کار واضح کیا جائے اور اسے اختیار کرنے کی دعوت دی جائے چنانچہ اسلامی دعوت کا طریقہ کار، مسلمانوں کی اصل ذمہ داری اور اسلامی تحریک کی خصوصیات کی وضاحت پر مشتمل مضامیں کا سلسلہ شائع ہوا جو بعد میں؛ اسلامی سیاست؛ کے نام سے طبع ہوا.
ایک نئی جماعت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟؟؟
قرآن و سنت کی روشنی میں مسلمانوں کی اصل ذمہ داری اور اسلامی تحریک کے طریقہ کار کی وضاحت کے بعد سید مودودی رح نے انتظار کیا کہ ہوسکتا ہے کہ موجودہ جماعتوں میں سے کوئی جماعت اسے اختیار کرلے تو ہم سب اس کا حصہ بن جائیں، لیکن جب مایوسی ہاتھ لگی اور کسی نے اس پر توجہ نہ دی تو اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ ہم خیال افراد کو اکٹھا کیا جائے اور باقاعدہ ایک جماعت کی شکل میں کام آگے بڑھایا جائے، چنانچہ؛ حی علی الفلاح؛ کی منادی کردی گئی. ترجمان القرآن میں اجتماع کا اعلان کردیا گیا اور 25 اگست 1941 کو لاہور میں ترجمان القرآن کے دفتر میں تشریف لانے کی درخواست کردی گئی.
جماعت اسلامی کی تشکیل؛ مقررہ تاریخ سے ایک دو روز قبل ہی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور 25 اگست کو باہمی ملاقات، غیر رسمی تبادلہ خیال، اور مجوزہ دستور پر صلاح و مشورہ ہوتا رہا. 26 اگست 1941 کو باقاعدہ اجتماع کی کاروائی کا آغاز ہوا، مولانا سید ابو الاعلی مودودی رح نے افتتاحی تقریر کی اور اسلامی تحریک کی تاریخ، خصوصیات اور موجودہ حالات پر روشنی ڈالی. اس کے بعد مجوزہ دستور کی ایک ایک دفعہ پڑھی گئی جس کی کاپی پہلے ہی فراہم کردی گئی تھی. بحث و گفتگو کے بعد دستور کچھ ترامیم کے ساتھ منظور ہوگیا اور جماعت اسلامی کی تشکیل کا فیصلہ ہوگیا. اس تاریخی اجتماع میں 75 افراد شریک تھے. سب سے پہلے مولانا سید ابو الاعلی مودودی رح کھڑے ہوئے اور تجدید شہادت کی اور پورے شعور کے ساتھ کلمہ شہادت کے تقاضوں کی تکمیل کا عہد کیا اور جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا، اس کے بعد مولانا منظور احمد نعمانی رح نے تجدید شہادت کی اور ایک ایک کرکے تمام لوگ اس مرحلے سے گزرے. بہت رقت آمیز منظر تھا، احساس ذمہ داری سے سب لوگ کانپ رہے تھے، کتنی بڑی ذمہ داری ہم اٹھا رہے ہیں، اس کا شعور تھا، آنکھوں سے آنسو جاری تھے، لبوں پر تھر تھراہٹ تھی، اس کے بعد گریہ و زاری کے ساتھ دعا ہوئی اور اللہ سے توفیق اور مدد مانگی گئی. پوری تفصیل روداد جماعت اسلامی حصہ اول میں دیکھی جاسکتی ہے.
انتخاب امیر کا مرحلہ؛ جماعت اسلامی کی تشکیل کے بعد داعی اجتماع مولانا سید ابو الاعلی مودودی رح نے اعلان کیا کہ میرا کام اکٹھا کرنے کا تھا، سو میں نے کیا، اب آزادانہ طور سے آپ لوگ کسی فرد کو اپنا امیر منتخب کرلیں. انتخاب امیر کے تعلق سے کئی تجاویز آئیں، چنانچہ ایک کمیٹی بنادی گئی جس نے غور و فکر کے بعد ایک تجویز مرتب کی جو سب کے سامنے پیش ہوئی اور پسند کی گئی چنانچہ اسے دستور جماعت کا حصہ بنا دیا گیا. اس کی روشنی میں انتخاب امیر کا مرحلہ طے ہوا اور مولانا سید ابو الاعلی مودودی رح کو اتفاق رائے سے امیر جماعت منتخب کیا گیا. مولانا نے مختصر تقریر کی اور بتایا کہ جو ذمہ داری آپ حضرات نے میرے ناتواں کندھے پر ڈالی ہے، اسے ایمانداری سے ادا کرنے کی کوشش کروں گا، دعا کریں کہ اللہ میری مدد کرے اور یہ وضاحت بھی کردی کہ اہل تر آدمی کے حق میں دست بردار ہونے کیلئے میں ہمہ آن تیار رہوں گا. یہ بھی وضاحت کردی کہ فقہ و کلام کے سلسلے میں میرا اپنا موقف اور رائے ہے جس کی پابندی افراد جماعت کیلئے ضروری نہیں ہے.
امیر جماعت نے شوری کی بھی تشکیل کی اور اس کے مشورے سے جماعت کے کام کا خاکہ مرتب ہوا اور اپنے اپنے مقام پر کام منظم کرنے کی ہدایت دی گئی. اس طرح آج سے 77 برس پہلے لاہور کی سرزمین پر 75 افراد کے اجتماع میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا اور اس وقت سے یہ جماعت واضح لائحہ عمل، مرتب پالیسی اورمتعین پروگرام کے تحت سرگرم عمل ہے. 1947 میں جب ملک آزاد ہوا اور تقسیم کا سانحہ پیش آیا تو فطری طور سے نظم جماعت بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا. جماعت اسلامی پاکستان اور جماعت اسلامی ہند کے نام سے آزادانہ طور پر دونوں جماعتیں اپنے اپنے ملک میں کام کرنے لگیں، 1971 میں جب بنگلہ دیش بنا تو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نام سے وہاں افراد جماعت سرگرم عمل ہوگئے.
جماعت اسلامی کی خصوصیات؛ جماعت کی امتیازی خصوصیات بہت ساری ہیں، چند کا ذکر کیا جا رہا ہے؛
1…  جماعت دین کا جامع تصور رکھتی ہے اور پوری زندگی میں اللہ کی بندگی کی دعوت دیتی ہے.
2 . جماعت قرآن و سنت کے تمسک کی دعوت دیتی ہے.
3 … جماعت کا طریقہ کار پرامن اور آئینی ہے اور وہ تخریب و فساد فی الارض کی اجازت کبھی نہیں دیتی.
4 …  گروہی، لسانی، علاقائی اور فقہی تعصبات سے اوپر اٹھ کر اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے.
5 ..  جماعت اپنی دعوت کا مخاطب پوری انسانیت کو بناتی ہے اور سب کی فلاح و بہبود چاہتی ہے.
6  … اسلام کو ایک متبادل نظام زندگی کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور اسے تمام انسانی مسائل کا حل سمجھتی ہے.
7 …  عدل اور انصاف کے قیام اور مظلوموں کی داد رسی کیلئے سب کے ساتھ تعاون کرتی ہے.
8 . سماج کے تمام طبقات پر توجہ دیتی ہے، تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ، بوڑھے، جوان اور بچے، مرد و خواتین سب پر توجہ دیتی ہے.
9 … جماعت فرد کا ارتقاء، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرنے کی علمبردار ہے.
10 .. جماعت کا پورا نظام شورائیت کی بنیاد پر ہے اور تمام اہم فیصلے مشورے سے انجام پاتے ہیں.
11  …  احتساب کا مضبوط سسٹم ہے اور امیر جماعت بھی اس سے مستثنٰی نہیں ہے.
12 ..  میقاتی بنیاد پر انتخاب اور پالیسی و پروگرام کی ترتیب ہوتی ہے اور نئی میقات پر از سر نو تمام امور انجام پاتے ہیں.
13…  ملی، ملکی اور عالمی مسائل سے دلچسپی لیتی ہے.
14…  وابستگان کی تربیت اور تزکیہ پر خاص توجہ دیتی ہے.
15  … علمی و فکری ارتقاء کا خیال رکھتی ہے.
16 .. نوجوانوں اور خواتین کی صلاحیتوں کو بھی اللہ کے دین کی دعوت کیلئے استعمال کرتی ہے.
17 .. مالیات کا ایک شفاف نظام ہے اور مقامی بیت المال سے لے کر مرکزی بیت المال تک حساب کتاب بہت باقاعدہ رکھا جاتا ہے.
18… اپنی ذات اور اپنے گھر سے کام کی شروعات پر زور دیتی ہے.
19 … راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات کا سامنا صبر و استقامت کے ساتھ کرتی ہے.
20 …  اللہ کی نصرت و تائید پر مکمل بھروسہ رکھتی ہے اور رضائے الٰہی ہی کو اپنا مقصود بناتی ہے.
نصب العین…….  جماعت اسلامی کا نصب العین اقامت دین ہے جو ایک قرآنی اصطلاح ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ؛
1 .. دین کا صحیح علم و فہم قرآن و سنت کی روشنی میں حاصل کیا جائے.
2…  دین پر مخلصانہ عمل کیا جائے.
3.. اپنے خاندان کی تشکیل اسلام کے عائلی نظام کی بنیاد پر کی جائے.
4…  اسلامی معاشرے کے قیام کی کوشش ہو اور مسلم سماج کی خرابیوں کو دور کیا جائے.
5…  غیر مسلم بھائیوں تک دین کی دعوت حکمت و موعظت کے ساتھ پہونچائی جائے.
6… اسلامی نظام حیات کا تعارف کرایا جائے اور اس کے قیام کی جدوجہد کی جائے.
جماعت کے میادین عمل….
1 …   اسلامی معاشرہ… جماعت کوشش کرتی ہے کہ مسلم معاشرہ ایمان و یقین، عبادت و تعلق باللہ، اخلاق و معاملات، تعلیم و تعلم اور نظم و ضبط کے لحاظ سے مثالی ہو.
2.. .  دعوت اسلامی… جماعت تمام بندگان خدا تک اسلامی دعوت دلنشیں اور موثر انداز سے پیش کرتی ہے اور اس کیلئے تمام معروف ذرائع و وسائل استعمال کرتی ہے.
3 …  تربیت و تزکیہ…  جماعت اپنے وابستگان کی ہمہ جہتی تربیت اور تزکیہ پر خصوصی دھیان دیتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ تعلق باللہ کے لحاظ سے وہ ممتاز ہوں.
4  …  خدمت خلق..  جماعت بلا تفریق مذہب و ملت انسانوں کی خدمت کو عبادت سمجھتی ہے اور اس میدان میں لائق تحسین خدمات انجام دیتی ہے.
5  …  تنظیم و تحریک…  جماعت کا شعبہ تنظیم داخلی نظم کو چست درست رکھنے کیلئے برابر سرگرم رہتا ہے.
6…  شعبہ خواتین….  عورتوں کی طاقت اور اثر کو کوئی تحریک نظر انداز نہیں کرسکتی، جماعت خواتین اسلام کی صلاحیتوں کو اسلام کے فروغ کیلئے استعمال کرتی ہے.
7… نوجوانوں کی طاقت غیر معمولی ہوتی ہے، اس لیے جماعت ان کی تربیت پر توجہ دیتے ہے اور ان کی صلاحیت کو تعمیری رخ دینے کی کوشش کرتی ہے.
8…  سیاست… آج کی دنیا میں سیاست کے اثرات غیر معمولی ہیں، زندگی کا کوئی گوشہ سیاست کے اثرات سے خالی نہیں ہے، اس لیے جماعت اصولی سیاست کرتی ہے، اور مبنی بر اقدار سیاست کو پروان چڑھانے کیلئے کوشش کرتی ہے.
9…  ذرائع ابلاغ… آج میڈیا کا دور ہے اور اس کے اثرات غیر معمولی ہیں، اس لیے جماعت اپنے وسائل کے لحاظ سے اس پر توجہ دیتی ہے.
10…  ملی ادارے… ملت کے اندر تعاون و اشتراک کی فضا ہو، یہ جماعت کی مسلسل کوشش رہتی ہے، ملی اداروں میں جماعت کی سرگرم شرکت ہوتی ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور مسلم مجلس مشاورت جیسے اداروں کے قیام و استحکام میں جماعت کا کردار مسلم ہے.
خدمات….  جماعت کی خدمات کا سلسلہ بہت طویل ہے. تقسیم کے بعد نازک حالات میں مسلمانوں کو حوصلہ دینا وقت کی اہم ضرورت تھی، جسے جماعت نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر انجام دیا، اسلام کا صحیح فہم عام کیا، ایک وقیع لٹریچر تیار کیا، جس کی مدد سے ہزاروں تعلیم یافتہ لوگ الحاد اور کمیونزم کی گود میں جانے سے بچ گئے، تعلیمی اداروں کا مضبوط نیٹ ورک قائم کیا، برادران وطن میں دعوتی کام کی قابل قدر خدمات انجام دی، حادثات اور فسادات کے موقع پر قابل ستائش ریلیف ورک انجام دیا، شعبہ خدمت خلق کے ذریعے مسلسل اہم کام انجام پاتا ہے، جدید اور قدیم طبقے کو ایک دوسرے سے قریب کیا، نصاب تعلیم کی بہترین سیریز تیار کی، ہندو مسلم تعلقات کو استوار کرنے اور فرقہ واریت کی خطرناکی سے اہل وطن کو آگاہ کرنے کا کام کیا. جماعت کا کام پورے ملک میں آسام سے گجرات تک اور جنوبی ھند سے شمالی ہند تک پھیلا ہوا ہے، انتہائی منظم انداز سے جماعت اپنی متنوع سرگرمیوں کو انجام دے رہی ہے اور بطور خاص اس لیے بھی اس کا کام قابل قدر ہے اس دوران اپنوں اور بیگانوں کے تیر کا نشانہ بھی برابر بنی رہی، الزامات اور تہمتوں کی سوغات ملتی رہی اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھی کاٹتی رہی.
جماعت انسانیت کا قیمتی اثاثہ…..  جماعت اسلامی صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ ساری انسانیت کیلئے کام کرتی ہے، ساری انسانیت کا بھلا چاہتی ہے، ظلم کا خاتمہ اور انصاف کا قیام چاہتی ہے، انسانیت کو عذاب جہنم سے بچانا چاہتی ہے، دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتی ہے. خدائی ہدایات کی بنیاد پر عادلانہ نظام کا قیام چاہتی ہے. ایسی جماعت پوری انسانیت کیلئے ایک قیمتی اور بیش بہا اثاثہ ہے، اس کی حفاظت، صیانت، معاونت اور نصرت سب کا فرض ہے.
آج یوم تاسیس کے موقع پر ہماری دعائیں ساتھ ہیں، اللہ اس قافلہ سخت جاں کی حفاظت کرے، استقامت بخشے اور اپنے دین کا کام اس سے لیتا رہے. آمین

Leave A Reply

Your email address will not be published.