صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

کورونا کے بعد کی دنیا عالمی مفکرین کیا کہتے ہیں؟

38,505

کورونا کی عالمی وبا نے انسانی حیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔کاروبارِ زندگی تباہ کردیا ہے۔حکومتوں کی نااہلی تشت از بام ہوگئی ہے۔ اس وائرس نے سیاسی اور معاشی طاقتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جن کے اثرات مستقبل قریب میں دیکھے جاسکیں گے۔

امریکی دوماہی جریدے فارن پالیسی (Foreign Policy) نے اِن بارہ معروف عالمی مفکرین سے دنیا میں کورونا کے بعد کی صورت حال پر اظہارِ خیال کا موقع دیا ہے۔ جس کو قارئین کے استفادے کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔

اسٹیفن ایم والٹ(Stephen M Walt)

یہ عالمی وبا ریاست کے ادارے اور نیشنل اِزم کے نظریے کو مضبوط کرے گی۔تما م اقسام کی حکومتوں کو اس وبا کے نتیجے میں سامنے آنے والی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے ایمرجنسی کا نفاذکرنا پڑے گا۔ جلد یا بدیر ان مشکلات کے دور ہوجانے کے بعد، حکومتیں اُن نئے اختیارات سے دست بردار ہونے پر رضامند نہ ہوں گی جواختیارات انھیں ا س وبا کی بدولت میسر آئے ہیں۔

کووِڈ ۱۹ دنیا میں طاقت کے توازن کو بھی تبدیل کردے گا یعنی طاقت اب مغرب سے مشرق کی جانب منتقل ہوجائے گی۔اس وبا سے نبٹنے کے لیے جنوبی کوریا اور سنگاپور نے بہترین حکمتِ عملی اختیار کی ۔ چین نے ابتدائی کچھ غلطیوں کے بعد اس وبا کا زیادہ مناسب انداز سے مقابلہ کیا ۔مغربی ممالک اور امریکا کی جانب سے اس وبا کے خلاف ردعمل نہ صرف سست رہا بلکہ مذکورہ ملکوں کے مقابلے میں بے سمتی کا شکار بھی نظر آتا ہے۔ان حالات نے مغرب پر دیگر دنیا کے اعتبار کو ٹھیس پہنچائی ۔

جو چیز تبدیل نہ ہوگی، وہ عالمی سیاست میں موجود محاذ آرائی کا عنصر ہے۔ماضی میں طاعون اور ۱۹۱۸۔۱۹۱۹ میں زکام کی وبا جیسے امراض بھی بڑی طاقتوں کے درمیا ن اختلافات کونہ ختم کرسکے بلکہ عالمی تعاون(global cooperation) کے لیے ایک نئی فضابھی ہم وار نہ کرسکے۔ کووِڈ۱۹ کی وبا بھی ایساکچھ نہیں کرسکے گی۔ہم عالم گیریت کے نظریے کی مزید پسپائی دیکھیں گے۔ افراداپنی حفاظت کی غرض سے قومی حکومتوں کی جانب دیکھیں گے۔ ریاستیں اور دیگر ادارے خود کو خطراتِ آئندہ(future vulnerabilities) سے محفوظ کرنے کی کوشش کریں گے۔

مختصر یہ ہے کہ کووِڈ ۱۹ ایک ایسی دنیا پیدا کردے گا جو کم کشادہ(less open)، کم خوشحال (less prosperous) اور کم آزاد(less free) ہوگی۔ دنیامیں تبدیلی صرف اس مہلک وائرس کی مرہون ِ منت نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے فقدان اورنااہل قیادتوں نے انسانیت کو ایک مشکل راستے پرڈال دیا ہے۔

رابن نِبلیٹ(Robin Niblett)

کورونا وائرس کی وبا معاشی عالم گیریت(economic globalization) کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔چین کے معاشی اور عسکری شعبہ جات کی ترقی نے پہلے ہی امریکا کوباور کرا دیا ہے کہ امریکا، چین کو امریکی ہائی ٹیکنالوجی اور دانش ورانہ املاک(intellecutual property) سے علیحدہ کردے ۔ چین نے مزید یہ کوشش بھی کی ہے کہ امریکا اپنے اتحادیوں کو بھی ان چیزوں سے آزاد کرے۔ماحول میں کاربن کی کمی کے اہداف حاصل کرنے کے بارے میں عوام اور سیاسی افراد کی جانب سے دباؤ کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے کیوں کہ آج بھی متعد د کمپنیاں ایسی ہیں جن کا انحصار ان ملکوں پر ہے، جو طویل فاصلوں پر موجود ہیں۔اب کووڈ ۱۹، حکومتوں، کمپنیوں اور معاشروں کوپابند بنارہا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتیں مزید بہتر بنائیں تاکہ طویل مدتی معاشی خود تنہائی(economic self-isolation) کامقابلہ کرسکیں۔

اکیسویں صدی کے آغاز میں جس باہمی مفادات کی ضامن عالم گیریت کا خواب دیکھا گیا تھا ، ان حالات میں یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔عالمی معیشت کے ادغام کی صورت میں باہمی مفادات کو اگر تحفظ حاصل نہ ہوسکا تو وہ عالمی معاشی حاکمیت (global economic governance) کا تصورجسے بیسویں صدی میں قائم کیا گیا تھا ، بہت تیزی سے ختم ہوجائے گا۔ایسی صورت میں سیاسی راہ نما عالمی تعاون پر انحصار کریں گے اور جغرافیائی سیاسی مسابقت(geopolitical competition) سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

کشور محبوبانی(Kishore Mahbubani)

کووڈ ۱۹ عالمی معیشت پر مکمل طور پر اثر انداز نہیں ہوسکے گا۔ یہ وبا صرف تبدیلی کے اُس عمل میں اضافہ کرے گی جو پہلے ہی شروع ہوچکا ہے۔تبدیلی کے اس عمل کا تعلق امریکی مفادات کی ضامن عالم گیریت سے ہے یعنی اب معیشت کا رُخ چین کے مفادات کی حامل عالم گیریت کی جانب ہو جائے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہوگا؟ امریکی آبادی کا بڑا حصہ وہ ہے جو عالم گیریت اور عالمی تجارت پر اپنا اعتماد کھوچکا ہے۔ امریکا یا اس کے آزاد تجارت کے معاہدے (free trade agreements) (اس سے مرادتجارت کے ایسے معاہدے ہیں، جن میں اشیا یا خدمات کی فراہمی اس طرح عمل میں لائی جاتی ہے جس میں حکومتوں کا عمل دخل کم سے کم ہوتا ہے)ہر طرح سے دنیا کے لیے نقصان دہ ہیں۔

اس کے برعکس چین آج بھی آزاد تجارت کے معاہدوں پر اعتماد رکھتاہے۔ا ن وجوہات میں تاریخی عوامل کو دیکھا جاسکتاہے۔چین کے راہ نما یہ جانتے ہیں کہ چین کو ۱۸۴۲ سے۱۹۴۹ تک جس ذلت کا سامنا کرنا پڑا ، اس میں اُن کی اپنی کمزوریاں بھی تھیں یعنی ان کی قیادت نے خود کو دنیا سے اس عرصے میں جانتے بوجھتے علاحدہ کیے رکھا۔گزشتہ کچھ عشروں میں چین کی جانب سے معاشی فعالیت (economic resurgence) کو دیکھا جاسکتا ہے۔چین کے افراد نے اپنے کلچر پر بھروسا کرنا بھی سیکھا ہے۔ آج انھیں یقین ہے کہ وہ دنیامیں کسی بھی جگہ مقابلے کی فضا کا سامنا کرسکتے ہیں۔

میں نے اپنی نئی کتابHas China Won(کیا چین کامیاب ہو چکا ہے؟) میں لکھا ہے کہ امریکا کہ پاس اب صرف دو راستے ہیں۔اگر امریکا کا بنیادی مقصد عالمی برتری (global primacy) حاصل کرنا ہے تو اسے سیاسی اور معاشی طور پرچین کے ساتھ متوازن یعنی جمع صفر کا کھیل (zero-sum game) کی حکمت عملی اختیار کرنی پڑے گی۔اگر امریکا کو اپنے افراد کی خراب حالت کو بہتر بنانا ہے تو اسے چین کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ اس صورت حال میں دانش مندی یہی ہے کہ چین کے ساتھ تعاون ہی درست فیصلہ ہے۔اس کے برعکس امریکا کی جانب سے چین کے لیے عدم تعاون کا رویہ کسی طور پر بھی زیادہ دیر تک نہیں چل سکے گا۔

جی جان اِکن بری(G John Ikenberry)

کچھ دیر کے لیے اس بحرانی صورت حال کی وجہ سے مغربی ممالک کے تمام دھڑوں میں عالمی حکمتِ عملی کی بحث چھڑ جائے گی۔ قومیت پرست(nationalists)، مخالفین ِعالم گیریت(anti-globalists)،چین کے حامیانِ جنگ(China hawks) اور یہاں تک کہ لبرل بھی جلد بازی میں اپنے اپنے موقف کی تائید میں شواہد پیش کریں گے۔معاشی بدحالی اور سماجی ابتری کے بعد شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جو قومیت پرستی کی تائید نہ کرے۔۱۹۳۰ کے عشرے میں جب عالمی معیشت کو شدید نقصان پہنچا تھا ،اس وقت جدید معاشروں کو کس قدر خطرہ تھا ۔اس کا انداز ہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ نے اسے ایک وَبا(contagion) سے تعبیر کیا تھا۔اس وقت دیگر ملکوں کی نسبت امریکا کو کم خطرہ لا حق تھا۔اس وقت روز ویلٹ اور دیگر عالمی راہ نماؤں نے اندازہ لگایا تھا کہ مستقبل میں جنگ ہوگی اور ایک ایسا نیا نظام سامنے آئے گا جو نہ صرف زیادہ محفوظ ہوگا بلکہ اس میں ایک دوسرے پر انحصار بھی کرنا پڑے گا۔اس صورت حال میں امریکا بہ آسانی اپنی سرحدیں بند کرسکتا تھا لیکن امریکا نے ایک ایسا کھلا ماحول فراہم کیا جو عالمی حالات کے لیے ضروری تھا۔

امریکا اور دیگر مغربی جمہوری حکوتیں شاید اس قسم کے رد عمل کا سامنا کریں ۔ اس بارے میں جو فوری جواب سامنے آئے گا وہ قومیت پرستی پر مشتمل ہوگا لیکن جیسے جیسے وقت گزرے گا جمہوریت ، عالمی حالات کے لیے منا سب اور محفوظ حل پیش کرے گی۔

شینن کے اونیل(Shannon K O’Neil)

کووِڈ۱۹ عالمی صنعتوں سے وابستہ افراد کی اہمیت کو کم کررہا ہے۔صنعتی ادارے آج از سرِ نو یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ اپنی بین الاقوامی فروخت کو کس طرح کم کریں۔چین میں مزدوری پر اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ،ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی،روبوٹ ٹیکنالوجی ، تھری ڈی پرنٹنگ اورملازمتوں کے لیے خطرات کی وجہ سے اشیا کی عالمی سطح پر فراہمی(global supply chains)کو پہلے ہی سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔متاثرہ علاقوں میں فیکٹریوں ، اسپتالوں، ادویات کی دکانیں ، سپر مارکیٹس اور اشیاے خورو نوش کی دکانیں بند ہونے کی وجہ سے اشیا کی قلت ہے۔

اس صورت حال میں حکومتیں حالات کو بہتر بنانے کے لیے سامنے آئیں گی اور مقامی سطح پر منصوبے ترتیب دیں گی۔ منافع میں کمی ہوگی لیکن اشیاکی فراہمی میں استحکام آئے گا۔

شِو شنکر مینن(Shivshankar Menon)

کورونا کے تعلق سے یہ ابھی ابتدائی ایام ہیں ۔ اس کے باوجود تین چیزیں آج بھی واضح ہیں۔ اول یہ کہ کورونا وائرس ہماری سیاست کو تبدیل کردے گا۔ سیاست کی یہ تبدیلی ریاستوں کے مابین اور اندرونی سطح دونوں پر دیکھی جاسکے گی۔ معاشرتی سطح پراور فرد کی آزادی کو کم کرنے میں حکومتیں اپنی طاقت استعمال کریں گی۔حکومتوں کی جانب سے اس وبا پر قابو پانے میں جزوی کامیابی اور اس کے وجہ سے معاشی اور سکیورٹی کے مسائل مزید پیدا ہوں گے۔دونوں طرح سے ریاست کا ادارہ مستحکم ہوگا۔ تجربات بتاتے ہیں کہ آمریت پسند (authoritarians) اور شہرت پسند طبقہ (populist) اس وبا سے نبٹنے میں ناکام رہا ہے۔ کوریا اور تائی وان جیسے جمہوری ممالک جواس وبا کوابتدائی سطح پر روکنے میں کامیاب رہے ، ان ممالک میں نہ تو آمریت پسند حکمران ہیں اور نہ شہرت پسند ۔

دوم یہ کہ اس وبا کے بعد اس مربوط دنیا (interconnected world) کا اختتام نہیں ہوجائے گا۔ یہ وبا ویسے بھی ہمارے درمیان باہمی ربط کی دلیل ہے۔ علم سیاست کا مقصد اپنی قسمت پر اختیار حاصل کرنا ہے۔اس کے باوجود ہم ایک غریب (poor)،خود غرض(mean) اور محدود(small) دنیا کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

مختصر یہ کہ امیدافزا حالات آج بھی موجود ہیں۔اس وبا کے خلاف بھارت نے جنوبی ایشیا کے حکمرانوں پر مشتمل آئن لائن کانفرنس کے ذریعے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے، جس کے ذریعے مقامی حکمرانوں کے تاثرات معلوم کیے جائیں۔ اگر اس وباسے ہمارے اصل عالمی مسائل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے تو یہ اس کانفرنس کا ایک اہم مقصد ہوگا۔

جوزف ایس نائی، جونیئر(Joseph S. Nye, Jr.)

۲۰۱۷ء میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نئی نیشنل سکیورٹی اسٹریٹجی (national security strategy) کا اعلان کیا، جس میں بڑی قوتوں کے درمیان رقابتوں (great-power competition) کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ کووِڈ ۱۹ ظاہر کرتا ہے کہ مذکورہ حکمت ِ عملی غیر تسلی بخش تھی۔اگر امریکا ایک بڑی طاقت کے طورپر خود کو منوانا چاہتا ہے تو اسے لازمی طور پر یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ اپنی حفاظت تنہا نہیں کرسکتا ۔

جیسا کہ رچرڈ ڈینزنگ نے ۲۰۱۸ء میں اس کی تشریح کی تھی کہ ـ’اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی نہ صرف عالمی ہے بلکہ وہ اپنی فراہمی میں بھی دنیابھر کا احاطہ کرتی ہے اور جہاں تک اس سے پیدا ہونے والے خطرات کاتعلق ہے تو یہ ٹیکنالوجی عالمی سطح پر پُر خطر بھی ہے وائرس، بیکٹیریا،مختلف نظام اور ایسی دیگر چیزوں کو خطرے کے طورپر دیکھا جائے گا‘۔

اس صورت ِ حال میں جو چیز سیکھنے کی ہے وہ یہ کہ مختلف ممالک نے اپنے قومی مفادات(national interest) کو کس قدر تنگ دلی کے ساتھ یا کس قدر وسعت قلبی کے ساتھ ترتیب دیاہے۔کووِڈ ۱۹ نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ ہم اس نئی دنیا کے تقاضوں پر پورا اترنے میں ناکام ہوئے ہیں۔

جان ایلن(John Allen)

جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ تاریخ ہمیشہ فاتحین کے قلم سے لکھی جاتی ہے۔ایسا ہی کووِڈ ۱۹ کے بارے میں کہا جاسکتا ہے۔ اس وبا کی وجہ سے ہر قوم اور ہر فرد کومعاشرتی دباؤ(societal strain) کا سامنا ہے۔آخر کار وہ قومیں جو منفرد سیاسی اور معاشی نظام کی حامل ہیں اور ان کے پاس صحت کا نظام بھی قابل تعریف ہے انھیں اس وبا سے نبٹنے میں کامیابی میسر آسکتی ہے۔کچھ جمہوری ممالک ایسے ہوں گے جو اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور کچھ آمریت پسند ممالک بھی ایسے ہوں گے جن کے لیے یہ وبائی حالات فائدے لے کر آئیں گے۔

یہ حالات طاقت کی عالمی ساخت (international power structure) کواس طرح تبدیل کردیں گے، جس کا ہم شاید تصور ہی کرسکتے ہیں۔کووِڈ۱۹ کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں مسلسل دباؤ کا شکار رہیں گی، جس کی وجہ سے مختلف ممالک کے درمیان تناؤ بھی سامنے آئے گا۔ طویل مدت کے لیے یہ وباعالمی سطح پر معاشی سرگرمیوں کو کم کردے گی، جس کے بعد یہ امکان ہے کہ کاروبار بند ہوسکتے ہیں اور مزدور بے روزگار ۔ ترقی پذیر ممالک اور کمزور مالی حالات کے حامل مزدوروں میں نقل مکانی کا خدشہ بڑھ جائے گا، جس کے بعد عالمی نظام (international system) دباؤ کا شکار ہو جائے گا۔ مختلف ممالک میں عدم استحکام اور تنازعات پیدا ہوں گے۔

لوری گیریٹ(Laurie Garrett)

دنیا کے مالیاتی اور معاشی نظام کو جو سب سے بڑا دھچکا لگا ہے وہ یہ ہے کہ اشیا کی فراہمی میں زبرد ست رکاوٹ دیکھی جارہی ہے۔ جس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی معیشت پر دیرپا اثرات مرتب ہوں گے، جس کے باعث بنیادی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔

ماضی میں عالم گیریت کی وجہ سے مصنوعات کی تیاری کاکام دنیا کے کسی بھی خطے میں کرایا جاسکتا تھا اور ان اشیا کی فراہمی کو فوری طور پر مارکیٹ میں بھی پہنچایا جاسکتا تھا۔ اس پورے عمل میں گودام (warehouse) پر اٹھنے والے اخراجات سے محفوظ رہا جاتا تھا۔ ایسی مصنوعات جن کی مارکیٹ میں نکاسی میں تاخیر ہوجاتی تھی، اس تاخیر کی وجہ سے کمپنی کو ناکام تصور کیا جاتا تھا۔کووِڈ ۱۹ نے نہ صر ف افراد کو نقصان پہنچایا بلکہ اشیا کی فوری فراہمی کے نظام (just-in-time system) کو بھی نقصان پہنچایا۔

فروری کے بعد سے مالیاتی مارکیٹ نے جو نقصان اٹھایا ہے، اس کے نتیجے میں ایک ایسے نئے عالم گیرنظام کے لیے سطح ہموار ہورہی ہے، جس میں سپلائی چین کے نظام کو مقامی صنعتوں سے قریب لایا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں کسی بھی خطرے سے نبٹا جاسکے۔اس وجہ سے کمپنیاں اپنے آسان منافع سے دور تو ہوسکتی ہیں لیکن یہ نظام مشکلات سے نبٹنے کے لیے زیادہ طاقت ورہوگا۔

رچرڈ نیتھن ہاس(Richard Nethan Haass)

مجھے لفظ مستقل پسند نہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ کچھ برسوں کے لیے کورونا وائرس کی وبا اکثر حکومتوں کواپنے اندرونی اور بیرونی معاملات کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردے گی۔ اکثر حکومتیں چاہیں گی کہ وہ کسی نہ کسی حد تک خود مختار ی کو اختیار کریں اور خود کو اشیا کی عالمی فراہمی کے نظام سے علاحدہ کرلیں۔بڑی سطح پر امیگریشن قوانین کی مخالفت کی جائے گی ، علاقائی اور عالمی مسائل کے بارے میں دل چسپی کم ہوجائے گی یہاں تک کہ عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی پر بھی توجہ نہ دی جائے گی،مقامی سطح پر اشیا کی تیاری پر توجہ دی جائے تاکہ اس وبا کی صورت میں آنے والی معاشی مشکلات سے نبٹا جاسکے۔ میرا اندازہ ہے کہ اکثر ممالک مسائل سے نکلنے میں مشکلات کا شکار ہوں گے، ریاستیں کمزور ہوں گی اور ناکام ریاستیں (failed states) دنیا میں کثرت سے سامنے آئیں گی۔ ان مسائل کی وجہ سے چین اور امریکا کے تعلقات مزید خراب ہوں گے اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات بھی کمزور ہوں گے۔اس وبا کا ایک مثبت رُخ یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر صحت کے عوامی ادارے کچھ مضبوط بھی ہوں گے۔مجموعی سطح پر عالم گیریت کو نقصان پہنچے گا۔

کوری شیک(Kori Schake)

اب وہ وقت دور نہیں جب امریکا کو دنیا میں ایک مضبوط راہ نما کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔اس کی بڑی وجوہات میں امریکا کے محدود قومی مفادات اور متعدد معاملات میں اس کی نااہلی تسلیم شدہ ہے۔ عالمی تنظیموں کو چاہیے تھا کہ وہ حکومتوں کو اس وبا کے بارے میں زیادہ درست اور جلد معلومات فراہم کرتیں تاکہ مختلف ممالک کی حکومتیں ان مواقعوں پر زیادہ اچھے فیصلے کرتیں۔ اس تعلق سے امریکا کواپنی محدود قومی فکر سے آگے بڑھ کر عالمی تنظیموں کو اس کام کے لیے متحرک کرنا چاہیے تھا۔واشنگٹن اپنے اس امتحان میں ناکام ہوا ہے، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر حالات خراب ہورہے ہیں۔

نیکولَس برنز(Nicholas Burns)

کورونا کی عالمی وبا اس صدی کا سب سے بڑا بحران ہے۔ یہ بحران نہ صرف اپنی نوعیت میں گہرا ہے بلکہ اس کے اثرات بھی دور رَس ہیں۔دنیا کی کل آبادی یعنی پونے آٹھ ارب افراد کی صحت کو اس وبا کی وجہ سے مہلک خطرات کا سامنا ہے۔ اس وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والا مالیاتی اور معاشی بحران ۰۹۔۲۰۰۸ء کے مالی بحران سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ ہر بڑا بحران نہ صرف عالمی نظام کو تبدیل کردیتا ہے بلکہ طاقت کے توازن کو بدل دیتا ہے۔

آج تک اس وبا کے خلاف عالمی سطح پرملکوں کے مابین جس اتحاد کی ضرورت تھی وہ تاحال ترتیب نہیں دیا جاسکا ہے۔دنیا کے دو طاقت ور ممالک امریکا اور چین اس بحران کے ذمے دار ہیں ۔ان دونوں ملکوں کو الفاظ کی جنگ فوری ختم کرکے زیادہ پُرا ثرا نداز میں دیگر ملکوں کی راہ نمائی کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کا اعتبار بھی کم ہوا ہے۔اگر یورپین یونین اپنے پانچ سو ملین افراد کو مدد فراہم نہیں کرسکتی تومستقبل میں وہاں کی قومی حکومتیں برسلز(Brussels) سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے پر مجبور ہوسکتی ہیں۔امریکا کی وفاقی حکومت کو پہلے ہی اپنی صلاحیتوں پرزیادہ اعتبار نہیں رہا ہے کہ وہ اس وبا سے بچاؤ کے لیے اہم اقدامات کرسکتی ہے۔

ہر ملک میں ڈاکٹر ،نرسِس،سیاسی راہ نما اور عوام عزم کی دولت کے بل بوتے پر اس وبا کے خلاف صف آرا ہوسکتے ہیں، جوان غیر معمولی عالمی حالات سے نبٹنے کے خلاف ایک امید ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.