ترکی کے قبل از وقت انتخابات
ہمارے یہاں یعنی بر صغیر میں سیاستداں ایک بار جس کرسی پر ’چڑھ ‘جائیں اس سے اترنا کسی صورت پسند نہیں کرتے۔دعائیں مانگتے ہیں دوا بھی کرتے ہیں کہ الیکشن ہی نہ ہو اور اگر ہو ہی جائے تو ’بائی ہوک اینڈ بائی کرُوک‘ وہ ہی انتخاب جیتیں اور دوبارہ وہی یا اس سے بہتر کرسی حاصل ہو ۔اس معاملے میں ہندوستان کی سب سے بڑی سیاستداں جسے آر ایس ایس نے درگا کا خطاب دیا تھا اس کا حال بھی دوسروں سے مختلف نہ تھا اس نے الہٰ باد ہائی کورٹ کی پھٹکار کے بعد کرسی چھوڑنے کی بجائے وطن عزیزکی تاریخ میں پہلی بار ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔مگر ترکی کے سیاستداں ایسے نہیں ہیں۔وہ ذرا ذرا سی بات پر میدان انتخاب میں اتر جاتے ہیں۔
قریب دو دہائی قبل رجب طیب اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ترکی میں بر سر اقتدار آئی ہے۔پہلے الیکشن کے وقت رجب طیب اردگان جیل میں تھے ۔ترکی کے سیکولرسٹ عجائب گھر کی زینت بننے کے لائق لوگ ہیں ۔انھوں نے ایک نظم پڑھنے کے جرم میں اردگان کو جیل میں ڈال دیا تھا جبکہ ان کے معنوی آقانے ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ‘لکھنے اور مشاعرے میں پڑھنے کے باوجود بسمل عظیم آبادی کو چھوڑے رکھا تھا ۔یہ الگ بات ہے کہ خود بسمل چھپے چھپے پھرتے تھے۔اردگان کے جیل میں ہونے کی بنا پر عبداللہ گل کو وزیر اعظم بنایا گیا۔جب اردگان جیل سے باہر آکر وزیر اعظم بنے تو عبداللہ گل کو صدارتی امیدوار بنایا گیا۔مگر ان کی اہلیہ اسکارف باندھنے والی خاتون تھیں ۔اسلئے سیکولر اپوزیشن نے بڑا ہنگامہ مچایا ۔اس بات پر دوبارہ عام انتخابات ہوئے کہ عوام اسکارف باندھنے والی خاتون اول کوپسند کرتی ہے یا نہیں۔عوام نے دوبارہ اے کے پارٹی کے حق میں فیصلہ دیا۔یعنی اے کے پی عام انتخاب بھی جیتی اور صدارتی انتخاب بھی ۔اے کے پی کئی بار استصواب رائے بھی حاصل کر چکی ہے۔جب بھی اپوزیشن یاسیکولرزم کے سرپرست ٹانگ اڑاتے ہیں وہ عوام سے رائے لینا پسند کرتے ہیں۔اب ایک بار پھر جسٹس ایند ڈیولپمنٹ پارٹی متعینہ وقت سے ڈیڑھ سال پہلے انتخاب کروا رہی ہے۔الیکشن شیڈول ٹائم کے حساب سے نومبر ۱۹ میں ہونا تھے مگر رجب طیب اردگان اور اپوزیشن پارٹی ایم ایچ پی ) جو اب اے کے پی کی اتحادی بن چکی ہے)کے چیف دولت بہسیلی سے رابطہ کرکے ۲۴ جون کی تاریخ کا اعلان کر چکے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں سب سے پہلے دولت بہسیلی نے ہی یہ بات رکھی کہ صدارتی اورعام انتخابات ڈیڑھ سال کے کی بجائے ابھی چند ماہ میں ہوجانا چاہئے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مین اپوزیشن پارٹی سی ایچ پی کو تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ،ہاں امریکہ اور مغرب کے پیٹ میں ضرور مروڑ اٹھ رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ قریب دو سال سے ترکی میں ایمرجنسی نافذ ہے اور اس حالت میں انتخابات نہیں ہو سکتے ۔دوغلے یہ بھول جاتے ہیں کہ بالکل انہی حالات میں فرانس میں دو بار الیکشن ہو چکے ہیں۔دوغلا پن مغرب کے خمیر میں شامل ہے۔ترکی کی راہیں کھوٹی کرنا مغرب اور امریکہ کااصل مقصد ہے اس لئے پڑوسی ملک آسٹریا نے ترک سیاستدانوں کو اپنے یہاں کے ترکوں میں الیکشن کیمپین کے لئے منع کردیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اپنے ڈیڑھ سالہ اقتدار کو داؤں پر لگاکر اے کے پی الیکشن میں کیوں جا رہی ہے۔وجہ بہت ٹھوس ہے۔فی الوقت ترکی میں دو بادشاہ ہیں۔(۱) صدر رجب طیب اردگان(۲) وزیراعظم بن علی یلدرم۔قارئین یہ تو جانتے ہونگے کہ اب ترکی پارلیمانی طرز حکومت سے صدارتی طرز حکومت کی طرف مراجعت کر رہا ہے ۔طرز حکومت کا یوں بدلنا ایسا نہیں ہوتا کہ بٹن دبائین اور مشین شروع۔جب اردگان اگست ۱۴ میں پہلی بار صدر بنے وہ تب سے بلکہ اس سے بہت پہلے سے صدارتی طرز حکومت کے لئے اصرار کرتے آرہے ہیں صدر بننے کے بعد انھوں نے ۱۶۔اپریل ۱۷ کو صدارتی طرز حکومت کے لئے عوام سے رائے طلب کی جس میں انھیں کامیابی ملی۔اب یہ طے ہو گیا کہ دھیرے دھیرے حکومت صدارتی سسٹم کی طرف جائے گی ۔اس وقت چونکہ انھیں اندازہ نہیں تھاکہ دوران انتقال اقتدار انھیں کن مسائل سے جوجھناپڑے گا اسلئے اس تعلق سے کوئی جلدی بھی نہیں تھی ۔اسلئے یہ طے کیا گیا تھا کہ آئندہ عام انتخابات یعنی نومبر ۱۹ کے بعد تمام اختیارات صدر کے ہاتھوں میں مرتکزہو جائیں گے ۔حالانکہ اس دوران ۱۵ جولائی ۱۶ کو ایک ناکام فوجی بغاوت کے ذریعے یہ کوشش کی گئی کہ انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ترکی کی سیاست سے کیا دنیا سے ہی سبکدوش کر دیاجائے۔ یہ بغاوت کرانے والوں کے حق میں تو بری طرح ناکام رہی مگر خود اردگان کے حق میں بہت مفید ثابت ہوئی۔غالباً دنیا میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ۲۵۰ کے قریب عوام نے اسلئے اپنی جانیں قربان کردیں کہ ان کا حکمراں اور اس کی حکمرانی سلامت رہے۔خیر!نومبر۱۹ کے انتخابات والی شرط ترکی کے حق میں مضر ثابت ہوئی۔فی الوقت ترکی یوروپ کی سب سے تیزی سے ابھرتی معیشت ہے۔مگر اس کی راہ میں خود انتقال اقتدار ایک روڑہ ثابت ہو رہا ہے۔اردگان اور یلدرم دونوں دوست ہیں مگر جانے انجانے کچھ بیانات کچھ احکامات ایک دوسرے سے ٹکرا ہی جاتے ہیں۔دو سربراہ مملکت ہونے کی وجہ سے حکومت کی قوت فیصلہ بھی متاثر ہو رہی ہے ۔اس صورتحال کا فائدہ بیوروکریسی سب سے زیادہ اٹھا رہی ہے ۔حکومت اور سیاسی مبصرین سب سے زیادہ بیوروکریسی کے شاکی ہیں۔مضبوط معیشت ہونے کے باوجود ڈالر کے مقابل ترکی کا لیرہ ہر روز گر رہا ہے ۔دوسری طرف ایک مرکز اقتدار نہ ہونے کیوجہ سے ترکی پر اقتصادی حملے بڑھ رہے ہیں جوسرمایہ کاروں کے سامنے مشکلات کھڑی کررہے ہیں اور ان میں بد دلی پیدا ہو رہی ہے۔پھر ترکی کو ۳۰ لاکھ مہاجرین کا سامنا ہے ۔انھیں بسانا ،کھلاناپلانا،روزگار مہیا کرناان کی تعلیم کا انتظام کرنا ،یہ تمام کام ایک مضبوط اور تیز لیڈر شپ اور فیصلوں کا تقاضہ کرتے ہیں۔جبکہ دو سربراہ مملکت میں بنٹنے کی بنا پر دو ملاؤں کی طرح مرغی حرام ہو رہی ہے۔اتنا ہی نہیں ،شام کے حالات کی بنا پر ترکی کو آنکھیں اور ہاتھ ہی نہیں جیب بھی کھلی رکھنی پڑ رہی ہے امریکہ کیا بہت سارے مغربی ممالک کی بھی شدید خواہش ہے کہ ترکی کا سیاسی استحکام ختم ہو جائے اسلئے امریکہ نہ صرف کردوں کو بھڑکاتا رہتا ہے بلکہ ان کی عسکری مدد بھی کرتا ہے ۔اس طرح کرد اندرون ملک بھی ترکی کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف ترکی کی دو نمبر کی اپوزیشن پارٹی ایم ایچ پی کے چیف دولت بہسیلی سے گذشتہ ۲۲ ماہ سے الائنس کی بات چل رہی تھی جو ابھی چند ہفتہ پہلے ہی بار آور ہوئی ۔اب یہ طے ہوچکا ہے کہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی حمایت سے آئندہ الیکشن لڑیں گی۔اس لئے خود دولت بہسیلی نے پارلیمنٹ میں عام اور صدارتی انتخابات کے لئے ۲۶؍اگست کی تاریخ کی استدعا کی تھی ۔مگر رجب طیب اردگان سے ملاقات کے بعد متفقہ تاریخ ۲۴ ؍جون طے کی گئی تاکہ جلد سے جلد صدارتی طرزحکومت کا مقصد حاصل کیا جا سکے۔پھر دونوں کی یہ خواہش بھی ہے کہ اتحاد کا فائدہ بھی جلد سے جلد حاصل کیا جا سکے۔سب سے بڑی قوت عوام کی ہوتی ہے۔اگر وہ توپوں اور ٹینکوں کے منہ پھیر سکتی ہے تو لیڈروں کو بھی گھٹنوں پہ بٹھا سکتی ہے۔وہ لوگ جنھوں نے رجب طیب اردگان کے استصواب رائے کے حق میں ووٹ دیا تھا اب وہ بھی بہت بے چین ہیں وہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ صدارتی طرز حکومت ان کے حق میں کتنی مفید ثابت ہوتی ہے ۔وہ رجب طیب اردگان پر آنکھ بند کرکے اعتماد کرتے ہیں۔انھیں امید ہے کہ اگر اردگان کو مکمل صدارتی اختیارات برتنے کا موقع ملا تو انھیں ضرور کچھ نہ کچھ فائدہ ہوگا-
ممتاز میر