قاسم سید
آزادہندوستان کی تاریخ کے بعض واقعات ایسے ہیں جنہوں نے ملک کی سیکولر شبیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے بدقسمتی سے اس رجحان کی سیاسی طور پر سرپرستی کی گئی اب یہ جن بوتل سے باہر آگیا ہے کہ اس کو پالنے پوسنے والے بھی اپنے وجود کی بقا کے لئے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں مگر لگتا یہی ہے کہ جو کچھ بویا گیا ہے وہ فصل تو کاٹنی پڑے گی ،جو ملک بابائے قوم کے سفاکانہ قتل سے سبق نہیں لے سکا اس کے یہ نتائج تو بھگتنا ہی پڑیں گے یہ پہلی کیل تھی جو سیکولرزم کے تابوت میں ٹھونکی گئی اور عدم تشدد کے فلسفلہ کی تضحیک ہوئی ۔1987میں ہاشم پورہ قتل عام سرکار کی سرپرستی میں امن وقانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں اقلیتی طبقہ کے نوجوانوں کو ٹرک میںبھر کر لائن میں کھڑا کرکےمار دیا گیا پھر قاتلوں کو تحفظ دیا گیا ۔1984میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کی منظم نسل کشی اور 1992میں غنڈوں کو کارسیکوں کا نام دے کر ہزاروں کی بھیڑ کو ایودھیا میں جمع ہونے کا موقع دیا گیا ۔صبح گیارہ بجے سے شام پانچ بجے تک 500سال پرانی بابری مسجد کو شہید کرکے وہاں عارضی مندر قائم کرنے کی اجازت مرکزی وریاستی حکومتوں کی بالواسطہ اوربراہ راست حمایت کے ساتھ انصاف ، امن و قانون اور عدلیہ کو کفن پہنا دیا گیا ۔ گرچہ گجرات فساد بھی اسی قبیل کا تھا مگر گجرات فساد میں جو ٹرینڈ دیکھنے کو ملا اس سے قبل ممبئی فساد ، مرادآباد،بھاگلپور وغیرہ میں اسی تکنیک کا استعمال کیاگیاتھا ، بد قسمتی سے ظلم کرنے والوں کا تعلق اکثریتی فرقہ سے تھا اور جن پر تشدد کیا گیا وہ تمام مظلومین مسلمان ہوں یا سکھ وہ اقلیتی فرقہ سے تھے ۔ یعنی وقفہ وقفہ سے ہونے والے واقعات کے تسلسل پر غور کیا جائے تو دو باتیں واضح طور پر ابھر کرسامنے آتی ہیں ۔آزادی کے بعد ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی اورسرکاری سرپرستی کی گئی جو ہیڈگوار اور گرو گولوالکر کے نظریہ سیاست سے اتفاق رکھتے ہیں ۔ آئین کی جگہ منو سمرتی کے حامی اور اقلیتوں کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھتے ہیں، ان کو بنیادی حقوق دینے کے لئے ہرگز تیار نہیں ،دوسرے یہ تمام واقعات یعنی گاندھی جی کے قتل سے لے کر بابری مسجد کےانہدام تک کانگریس کے مختلف دور حکومت میں ہوئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ گولوالکر پرستوں اور سیکولرزم پرستوں کے درمیان کہیں نہ کہیں خفیہ اتحاد رہا ہے ورنہ طویل ترین عرصہ تک کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کے مختصر ادوار کے باوجود تنگ ذہنیت والوں کی سیاسی طاقت کیونکر بڑھتی گئی کہ وہ آج ملک پر قابض ہیں۔ اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ۔ مسلمانوں کو دیوار سے لگا کر ان کی سیاسی حیثیت زیرو کردی گئی، ہندو -ہندو کا گیم پوری قوت کے ساتھ کھیلا جارہا ہے ایسا لگتا ہے کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کشتی ہورہی ہے اقلیتیں محض تماشائی بن گئی ہیں ۔ سیکولر منافقوں کےٹولہ نے بڑی عیاری کے ساتھ سب کچھ دیش بھکتوں کے حوالہ کردیا ۔
جہاں تک ہاشم پورہ اورملیانہ کا تعلق ہے اسےذہن کی دیوار سے کھرچنا مشکل ہے۔ اس وقت غازی آباد کے ایس پی رہے سینئر آئی پی ایس وبھوتی نارائن رائے نے ’اترپردیش پولیس کے اتہاس کا ایک کالا ادھیائے ‘کے نام سے لکھی تحریر میں دل کو کپکپانے والی واردات کی تفصیل بیان کی ہے ہماری نئی نسل اس دہشت وبربریت سے واقف ہی نہیں ان کے مطابق ’’زندگی کے کچھ تجربات ایسے ہوتے ہیں جو زندگی بھر آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتے ایک ڈراونے خواب کی طرح ہمیشہ آپ کے ساتھ چلتے ہیں، کئی مرتبہ قرض کی طرح آپ کے ذہن پر سوار رہتے ہیں ہاشم پورہ بھی میرے لئے ایسا ہی تجربہ ہے ۔23-22مئی 1987کی آدھی رات دہلی -غازی آباد سرحد پر مکن پور گاؤں سےگزرنے والی نہر کی پٹری اور کنارے اگے سرکنڈوں کےدرمیان ٹارچ کی کمزور روشنی میں خون سے لت پت دھرتی پر مردوں کے درمیان کسی زندہ کو تلاش کرنا سب کچھ ذہنی یادداشت پر کسی ہارر فلم کی طرح نقش ہے ‘‘۔
موجودہ وقت میں پیٹھ کے پیچھے دونوں ہاتھ بندھے ایک قطار میں گھٹنوں کے بل کھڑے روہنگیائی مسلم نوجوانوں کی تصویر یں جنہیں بندوق سے لیس فوجیوں نے ایک ساتھ مار دیا ،1995میں بوسینا کے سبرانیسکا میں ایسی ہی نسل کشی کے واقعات اور میرٹھ کےہاشم پورہ کا قتل ہمارا اپنا المیہ ہے ۔
ان چشم دید گواہوں اور مقدمہ کو مقامی عدالت سے دہلی ہائی کورٹ تک لڑنے والے گمنام سپاہیوں کی ہمت و استقلال کو خراج تحسین پیش کرنے کو دل چاہتا ہے جو حوصلہ شکن درد بھرے بھیانک 31سالوں کی مسافات میں آبلہ پا ہونے کے باوجود ڈٹے رہے اور بے رحم سسٹم کے آگے سرنگوں ہونے سے انکار کردیا ۔نہ شہرت نہ پبلسٹی نہ لوگوں کا ساتھ ،گھروں کے چولہے بجھے رہے لیکن حوصلوں کے چراغ ٹمٹماتے رہے اندھیروں کا سینہ چاک کرکے انصاف کی روشنی تک پہنچنے کی جرأت مستانہ مثال پیش کی کہ بغیر ڈھنڈورا پیٹے ،نقارہ بجائے اور شور وشرابہ کے بھی منزل مل سکتی ہے ۔ حالانکہ انصاف ابھی ادھورا ہے ۔پہلے تو سسٹم نے پی اے سی کے قصوروار جوانوں کو بچانے کی کوشش کی،سرکاریں آئیں اور گئیں بی جے پی کی سرکار بھی آئی لیکن ’آبروئے ملت‘ملائم سنگھ ،بہن مایاوتی جی اور اکھلیش یادو جی کی سرکاریں جن کو مسلمانوں کاہمدرد سمجھا اورسمجھایا گیا ہے ان کے دور میں بھی مظلوموں کی حوصلہ شکنی کی گئی کسی نے سر پرہاتھ نہیں رکھا ،دادرسی نہیں کی ،کسی مسلم تنظیم نے ان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا ،یہ بات خود قتل عام کے اکلوتے چشم دید گواہ ذوالفقار علی ناصر نے کہی ۔حتی کہ عدلیہ کارویہ بھی سرد مہری کارہا ،تفتیش کاروں نے ایسے سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی زحمت نہیںکی جو معمولی ذہن رکھنے والوں کے پیدا ہوتے ہیں ۔مثلا 42لوگوں کے قتل کی وجہ بنی تھری نائٹ تھری رائفل گولیوں کےبہی کھاتے کا کیا ہوا ۔ہاشم پورہ محلہ میں چلائے گئے سرچ آپریشن کے دوران وہاں آرمی کیا کررہی تھی ۔پی اے سی کا رول الم نشرح تھا ۔مگر اس قتل عام کو انجام دینے کاحکم دینے والے کون تھے یا کون تھا ،ذمہ داری کس کی بنتی ہے ۔اس پر کیوں پردہ ڈالاگیا ۔آخر ایجنسیوں کی سامنے کیا مجبوریاں تھیں جو وہ حقائق سامنے نہیں لائیں ۔مقامی عدالت نے کس بنیاد پر بری کردیاتھا آخر ان 42لوگوں کا کوئی تو قاتل ہوگا ،دنیا میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ کیس ڈائری غائب کردی گئی ہو جس ٹرک میں لےکر جایا گیا اس کااتہ پتہ نہ ہو جو ڈیوٹی پر تھے ان کے بارے میں کسی کو معلوم نہ ہو سب معصوم و بے گناہ ہوں ،اگر سرکاری ایجنسیوں نے اپنا کام ٹھیک سے کیاہوتا تو ذمہ داری کا سوال اب تک طے ہو گیا ہوتا ،ریاستی حکومت ،ریاستی انتظامیہ ،ریاستی پولیس ،استغاثہ،جیوڈیشری کسی نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی یہ پوے سسٹم کی ناکامی تھی ۔
ایک اور سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ کیا 42لوگوں کے قتل کی سزا صرف عمر قید ہے جبکہ تنہا واردات پر پھانسی پر چڑھانے کے احکامات کی درجنوں مثالیں ہیں اور جب منظم منصوبہ بندی کے تحت بے قصور لوگوں پر سرکاری ڈیوٹی کرنے والے امن وقانون کے محافظ ٹرک میں بھرکر ہنڈن ندی کےپاس لے جاکر قطاربند ایک ایک کو گولیاں مار کر پھینک دیں اور پھر بندوق کی نال صاف کرکے اپنے مقام پر لوٹ آئیں جن کی مصروفیات کا ہرمنٹ ڈائری میں نوٹ ہو ۔جن کی نقل وحرکت کامکمل سرکاری اندراج ہو ۔جب پولیس والا تھانے سے ڈیوٹی پر کہیں جاتا ہے تو اس کا اندراج ہوتا ہے پھر بھی یہ لوگ اکتیس سال تک قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے ۔ہماری ہمدرد سرکاریں ان کو بچاتی رہیں انصاف کا گلا گھونٹا جاتا رہا اور سب بے بس تماشہ دیکھتے رہے ،عدالت نے نچلی عدالت کی سنگین غلطی کو سدھارا ہے ۔لیکن کیا اجتماعی قتل کی سزا صرف عمر قید ہے ،کیا ان کو پھانسی پرنہیں لٹکانا چاہئے ۔قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتےہیں ،بھلے ہی تاخیر ہو لیکن گنہگاروں کی گردن تک پہنچ جاتے ہیں یہ فیصلہ اس کاثبوت ہے ۔
دراصل ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں فسادات کے قصورواروں کو سزا دینے کا رواج نہیں ہے ۔سکھ مخالف فسادات کے مقدمات اب تک زیر سماعت ہیں ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات کے ملزمین دندناتے پھرتے ہیں ان کا کچھ نہیں بگڑتا کیونکہ وہ سسٹم کا حصہ ہیں انہیں استعمال کرنے والے ہاتھ تو بدل جاتے ہیں ،فسادات و نسل کشی کی منصوبہ بندی کرنے والے چہرے عام انتخابات کے نتیجہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن سرکار کو چلانے والے جو سسٹم اسٹیبلشمنٹ کے تحت کام کرتے ہیں ان کا کھیل بلا روک ٹوک جاری ہے یہی وجہ ہے کہ نادیدہ ہاتھ انہیں بچالیتے ہیں ۔سرکاریں انکوائری کمیشن بٹھاتی ہیں ان کی سفارشات ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جاتی ہیں ان پر آج تک عمل نہیں ہوا ۔گیان پرکاش کمیٹی یا سری کرشنا کمیشن سب نے اپنے لحاظ سے موثر رپورٹ پیش کیں ۔ چونکہ کمیشن ،کمیٹیاں وقت ٹالنے کے لئے ہوتی ہیں اور یہ جمہوریت کابہت بڑا فریب ہے اس لئے پرنالہ وہیں بہہ رہا ہے۔ ہاشم پورہ سانحہ سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ کہ اگرہمت و استقلال سے کام لیا جائے تو رکاوٹوں آزمائشوں ،دھمکیوںاور وسائل کی کمیابی کے باوجود عزم کے ساتھ ہدف کی طرف بڑھا جائے تو انصاف کو ناانصافی کے جبڑوں سےنکالا جاسکتا ہے ۔ہمیں انصاف و عدل کی لڑائی لڑنے والے ان عظیم سپاہیوں کا ممنون احسان ہونا چاہئے جنہوں نےاس لڑائی میں مصروف دوسرے لوگوں کو عزم وہمت کی روشنی عطا کی ہے ۔سلام ہے ان کی عظمتوں کو ۔