صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

متوازی پائپ لائن پروجیکٹ معاملہ میں میونسپل کمشنر نے حکومت کو رپورٹ پیش کی

 ٹینڈر طلب کرنے کی اجازت اور ۳۰۰ کروڑ کی امداد کا مطالبہ ، ایس پی ایم ایل کمپنی کو کارپوریشن کی شرط منظو رنہیں۱۳۵؍کروڑ ہرجانہ طلب کیا

1,299

اورنگ آباد : (جمیل شیخ)۱۰؍ سال ہوئے متوازی پائپ لائن کو منظور ہوئے جس پر ۵ سال قبل باضابطگی کے ساتھ کام شروع کیاگیا ۔ لیکن آج تک یہ پروجیکٹ پورا ہونے کے بجائے میونسپل کارپوریشن سے عدالت اور منترالیہ سے میونسپل کارپوریشن کے درمیان ہچکولے کھارہا ہے ۔ متعلقہ کمپنی نے کام پورا کرنے کے بجائے کام نہ کرنے کے لئے پیسے طلب کئے ہیں اور میونسپل کارپوریشن کی شرائط کو یکسر مسترد کردیا ۔ اس ضمن میں تفصیلی رپورٹ میونسپل کمشنر ڈاکٹر نپون ونائک نے حکومت کو پیش کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق اورنگ آباد شہر سے پانی کی قلت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے مقصد سے ۲۰۰۶ میں اسٹینڈنگ کمیٹی نے تقریباً ۳۰۰ کروڑ کے پروجیکٹ کو منظوری دی تھی ۔ آج اس پروجیکٹ کو متوازی پائپ لائن پروجیکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

جائیکواڑی ڈیم سے پھارولہ پمپ ہائوس تک ایک نئی پائپ لائن بچھانے تک یہ پروجیکٹ تیار کئے جانے کے بعد اس کا ٹینڈر جاری کیاگیا تھا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس پروجیکٹ کی تکمیل کے لئے سبھاش پروجیکٹ مارکیٹنگ لمیٹیڈ گڑگائوں کی کمپنی نے ٹینڈر داخل کیا تھا جسے کارپوریشن نے منظور بھی کیا لیکن معاہدہ اس کمپنی سے کرنے کے بجائے۲۰۱۱ میں قائم کی گئی اورنگ آباد سٹی واٹر یوٹلٹی کمپنی سے کیا گیا ۔ اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن کے منتخب عوامی نمائندے اور ٹینڈرسسٹم کی جانکاری رکھنے والے آج تک یہ سمجھ نہیں پائے کہ ٹینڈر داخل کرنے والی کمپنی کے بجائے ٹینڈر کے عمل سے لاتعلق کمپنی کے ساتھ میونسپل کارپوریشن نے آخر کیوں اور کس بناء پر معاہدہ کیا ۔ دوسری اہم بات یہ کہ اس کمپنی سے معاہدہ کرتے وقت اس کی مالی حالت کا بھی جائزہ نہیں لیاگیا ۔

عدالت میں دائر ایک معاملے میں تو یہاں تک کہہ دیا گیا کہ جس وقت اورنگ آباد سٹی واٹر یوٹلٹی سے میونسپل کارپوریشن انتظامیہ نے معاہدہ کیا تھا اس وقت کمپنی کے بنک اکائونٹ میں صرف ۵ لاکھ روپئے تھے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پانچ لاکھ روپئے بنک میں جمع رکھنے والی کمپنی کو تقریباً ۳۰۰ کروڑ کا پروجیکٹ پورا کرنے کا کام کس بنیاد پر دیا گیا تھا ۔ یکم ستمبر ۲۰۱۴ کو سابق میونسپل کمشنر ہرشدیپ کامبڑے نے اپنی جان چھڑانے کے لئے متوازی پائپ لائن پروجیکٹ اورنگ آباد سٹی واٹر یوٹلٹی کے سر مڑھ دیا کمپنی نے کام شروع بھی کیا لیکن ایسے کاموں کو فوقیت دی گئی جس میں کمپنی کو فائدہ تھا ۔ معاہدہ کے مطابق کمپنی کو ۱۲؍ مائل اسٹون کے تحت ہیڈ ورک کرنا لازمی تھا لیکن ہیڈ ورک کو نظر انداز کرتے ہوئے کمپنی نے شہر کی گلی کوچوں میں پائپ لائن درست کرکے آبرسانی بل وصولی کا کام شروع کردیا ۔

تقریباً ایک سال تک کمپنی نل کنکشن ہولڈرس کے گردن پر ناخن دے کر آبرسانی بل وصول کرتی رہی ۔ کمپنی نے لوگوں سے کتنا پیسہ وصول کیا اس کا حساب کمپنی نے کارپوریشن کو دیا اور نہ ہی میونسپل انتظامیہ نے یہ جاننے کی زحمت گوارہ کی ۔ ۲۰۱۵ میں میونسپل کارپوریشن کے عام انتخابات کے بعد مجلس اتحاد المسلمین کے ۲۵؍اراکین نے اس گھوٹالے کی تہہ تک پہنچنا شروع کیا ۔ یہ اراکین معاملہ کی جتنی گہرائی میں گئے ان کے ہاتھ اتنی ہی گندگی لگی ۔ گندگی سے بھرے ہاتھ انہوں نے اپنے رکن اسمبلی امتیاز جلیل کو دکھائے اور امتیاز جلیل نے اس مسئلہ کو اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن سے لے کر ریاست کی اسمبلی تک نہ صرف پہنچایا بلکہ اس پر جم کر بحث بھی کی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میونسپل کارپوریشن کے عارضی کمشنر سنیل کیندریکر کومجبوراً پروجیکٹ کی گہرائی تک جانا پڑا اور جب انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ پروجیکٹ شہر کے عوام اور میونسپل کارپوریشن کے مفاد میں نہیں تو انہوں نے سفارش کردی کہ اس پروجیکٹ کو شروع کرنے سے پہلے ہی روک دیا جانا چاہئے ۔

اس پروجیکٹ کی تکمیل کے لئے کمپنی کے ساتھ جو معاہدہ کیاگیا ہے اسے فوری رد کردیا جانا چاہئے۔ ایک ایماندار فرض شناس آئی ایس آفیسر کی کاوشوں سے پروجیکٹ میں موجود کالی کرتوت منکشف ہونے لگی برسرکار شیوسینا بی جے پی اتحادوں کے پائوں تلے زمین کھسک گئی اور شہر میں بدنامی سے بچنے اور اپنی ایماندار چھوی کوبرقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے۔ پروجیکٹ کی مخالفین میں سر میں سر ملائے اور جنرل باڈی میٹنگ میں متوازی پائپ لائن پروجیکٹ کی تکمیل کے لئے گتہ دار کمپنی اور نگ آباد سٹی واٹر یوٹلٹی سے کیا گیا معاہدہ جون ۲۰۱۵ میں رد کردیا گیا۔دریں اثناء عدالت نے بھی اس معاملے پر سنوائی کے بعد گتہ دار کمپنی سے کئے گئے معاہدے کو رد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب ۲۰۱۵ سے یہ مسئلہ التواء میں پڑا ہے اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن میں موجود چند مفاد پرست عوامی نمائندے اور شہر کے چند سفید پوش اب اس کوشش میں لگے ہیں کہ کسی طرح رد کیا گیا معاہدہ زندہ ہوجائے اور ان کی جیبوں کا خیال رکھنے والی واٹر یوٹلٹی کمپنی دوبارہ اورنگ آباد کے شہریوں پر مسلط ہوجائے ۔ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ آربیٹریشن ایکٹ کے تحت آبریٹریٹر اور ریاستی حکومت ان تینوں کے درمیان گیند کی طرح ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.