صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

ایم جے اکبر صاحب آپ پھنس چکے ہیں؟

6,623

 

 

لگ بھگ ایک برس پہلے امریکی اداکارہ ایلسا میلانو نے ٹوئٹر پر ’می ٹو‘ (MeToo#) یعنی ’میں بھی‘ کے عنوان سے ایک ٹرینڈ کا آغاز کیاتھا اوراپنی مہم شروع کرتے ہوئے اداکارہ نے تمام خواتین سے درخواست کی تھی کہ ’اگر آپ کو بھی کبھی کسی نے جنسی طور پر ہراساں کیاہو، یا آپ پر تشدد کیا گیاہے تو اپنے اسٹیٹس میں ‘’’می ٹو‘‘ لکھیں، اس سے ہم لوگوں کو اس بات کا اندازہ دلا سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ کتنا بڑا ہے۔اس کے بعد یہ مہم دنیا بھر پھیل گئی ، البتہ اس مہم نے ہندوستان کی ناتواں خواتین کو بھی ہمت وحوصلہ سے سر فراز کیا اور اپنے اوپر روا رکھے گئے جنسی زیادتی کیخلاف میدان میں اتر گئیں۔ خلاصۂ خلام یہ کہ اس کے بعد سے ملک بھرمیں ’’می ٹو‘‘ یعنی ’مجھے بھی ‘نام سے ٹیوٹر پر چلنے والا ٹرینڈ سوشل میڈیا کے علاوہ عوام کی زبان پر بھی ہر طرف سننے کو مل رہا ہے۔جب سے ’’می ٹو ٹرینڈ‘‘ کے تحت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جنسی تشدد کی شکار ہونے والی خواتین نے سامنے آکر اپنی سرگزشت سنانی شروع کی ہے ،تب سے ہی پورے ہندوستان میں محشر کا سماں قائم ہوگیا ہے ۔سماجی ، سیاسی ، صحافتی اور حقوق انسانی کے دفاع کا راگ الاپنے والوں کے چہروں سے جب نقاب اتراہے، ان کااصلی روپ دنیا کے سامنے آیا ہے تو ہرسمت سناٹا طاری ہوگیاہے ۔انصاف کا تقاضہ تو یہی تھا کہ اگر کوئی فرد مضبوط اور بے داغ کردارکا مالک ہے تو اسے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کیلئے پوری قوت کے ساتھ میدان میں اتر جانا چاہئے، مگر نہ جانے کیا وجہ ہے کہ گزشتہ دودنوں سے جن سیاست اورفلمی شخصیات پر یہ الزامات خواتین کے ذریعہ لگائے گئے ہیں ، اس کی مدلل تردیدنہیں کی جارہی ہے۔ خیال رہے کہ چار اکتوبر کو ٹوئٹر پر سب سے پہلے کامیڈین اُتسو چکرورتی پر کئی خواتین نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔بعد ازاں 33 سالہ اُتسو پر کئی خواتین نے برہنہ تصاویر طلب کرنے اور اپنی برہنہ تصویریں بھیجنے کا الزام عائد کیا۔حالانکہ پر انٹر ٹینمنٹ کی دنیا کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں اس قسم کے سانحات کا رونما ہونا عام بات ہے ، لہذا اس دنیا میں مردو خواتین کے درمیان جنسی اٹھاپٹک کو برائی نہیں سمجھا جاتا، اس کے باوجود اتسو نے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنا موقف رکھا اورمتاثرہ خواتین سے معافی مانگ لی۔اس الزام اور معافی کے درمیان ہی ’’ ‘می ٹو‘‘ کے تحت کئی کامیڈینز، صحافیوں، مدیروں، مصنفوں، اداکاروں اور فلم سازوں کے خلاف الزامات سامنے آئے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنے میسیجز کے سکرین شاٹ شیئر کیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسی نوعیت کی جنسی زیادتی کا الزام ایک خاتوں صحافی نے معروف صحافی اور مرکزی وزیر ایم جے اکبر پر لگایا ہے ۔اطلاعات کے مطابق’’می ٹو‘‘ کے تحت وزیر خارجہ اور ٹیلی گراف کے بانی ایڈیٹر ایم جے اکبر اور اداکار آلوک ناتھ پر کئی خواتین نے ان کے ساتھ نازیبا رویہ اور جنسی ہراسانی کا الزام عائد کی ہیں۔ آن لائن مہم کے دوران تقریباً تمام ہی آن لائن اکاؤنٹس میں ایک ہی رجحان اور طریقہ کار دیکھا گیا۔ ایم جے اکبر پر خاتون صحافی سے ہوٹل کے کمروں میں انٹرویو لینے اور انٹرویو کے دوران انھیں بستر پر بیٹھنے کے لئے کہے جانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔اکبر کے خلاف سب سے پہلے الزام لگانے والوں میں شامل ایک خاتون جرنلسٹ پریہ رامنی بھی شامل ہے، جس نے ایک سال پہلے ’ایک مرد ایڈیٹر‘ کے بارے میں آن لائن الزامات پوسٹ کی تھی۔ پریہ کا کہنا تھا کہ یہ ایڈیٹر ان کے ساتھ نازیبا اور نامناسب سلوک کیا کرتے تھے، تاہم اُنھوں نے اس ایڈیٹر کے نام کا انکشاف نہیں کیا تھا، لیکن پریہ نے پیر کو ٹوئٹر پر انکشاف کیاکہ وہ دراصل اکتوبر۲۰۱۷ ء کے پوسٹ میں ایم جے اکبر کا حوالہ دے رہی تھیں، جنہوں نے ممبئی کے ایک عالیشان ہوٹل میں انٹرویو لیا تھا۔ دوران انٹرویو شراب کی پیشکش کی تھی اور بستر پر اپنے بازومیں بیٹھنے کے لئے کہا تھا جس سے پریہ نے انکار کردیا تھا۔ پریہ نے یہ الزام بھی عائد کیاکہ انٹرویوکے دوران اس سے موسیقی اور گیتوں کے شوق کے بارے میں سوال کرتے ہوئے اکبر نے ایک رومانی نغمہ بھی گایا تھا۔ پریہ نے کہاہےکہ اس کے باوجود اس نے کئی سال تک ایم جے اکبر کے ساتھ کام کیا ہے، لیکن اس نے کسی سے کچھ نہ کہنے کی قسم کھائی تھی۔
بہر حال شرافت کا تقاضہ یہی تھا کہ ایم جے اکبر خود سامنے آتے ، ان کی پارٹی بلا چون وچرا ان پر عائد کئے گئے الزامات کی جانچ کا اعلان کرتی اور اپنے لیڈر کے بے گناہ ہونے کا ثبوت پیش کرکے مخالفین کے زبان پر ہمیشہ کیلئے تالے ڈال دیتی،لیکن کئی روز گزرنے کے باوجود نہ صرف ایم جے اکبر خاموش ہیں ، بلکہ مرکز کی بی جے پی سرکار نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی ہے ۔ کل ایک پروگرام کے بعد متعددخواتین صحافیوں نے مرکزی وزیر برائے امور داخلہ محترمہ سشما سوراج کے سامنے اس موضوع پر سوال کرنے کی کوشش کی ، مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور بات کو گھماکر پھراکر ٹال گئیں۔ می ٹو مہم میں مرکزی وزیر ایم جے اکبر پر الزامات لگنے پر کانگریس نے بدھ کو مطالبہ کیا کہ اکبر صفائی پیش کریں یا پھر اپنے عہدہ سے استعفی دیں ۔ پارٹی کے سینئر ترجمان ایس جے پال ریڈی نے نامہ نگاروں سے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ ایم جے اکبر کو اطمینان بخش صفائی پیش کرنی چاہئے یا پھر استعفی دیدینا چاہئے ۔ اب ان کےساتھ کام کرچکی سینئر جرنلسٹوں نے الزام لگایا ہے تو پھر وہ عہدہ پر کیسے برقرار رہ سکتے ہیں ۔مگر یہ سارے سوالا ت وہاں معنی رکھتے جہاں اخلاقی قدروں کی اہمیت ہو اور کردار کی بلندی و شفافیت کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز باور کیا جاتا ہو۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.