صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

جماعت اسلامی ہند ناگپور کی جانب سے مسجد کا تعارفی پروگرام

52,714

ناگپور کی جعفر نگر جامع مسجد کے تعارف نے بہت سی الجھنوں کو ختم کر دیا : غیر مسلموں کے تاثرات

 ناگپور : ( ڈاکٹر محمد عبدالرشید) مسجد میں آنے کے بعد ہم بہت پرجوش ہیں اور بہت سکون محسوس کر رہے ہیں، ہماری بہت سی الجھنیں غلط فہمیاں ، ڈر و خوف دور ہو گئے ہیں۔ ہم کبھی بھی مسجد کا ٹھنڈا پانی پی کر اپنی پیاس بجھا سکتے ہیں، یہ دعویٰ کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی جاسکتی۔ نفرت کے ماحول میں یہ ایک بہترین کوشش ہے۔ اس سے بھائی چارہ، ہم آہنگی اور خیر سگالی بڑھے گی۔  ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہاں سے ملک میں بھائی چارے، امن و امان اور ترقی کے لیے اللہ سے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ اس طرح کے پروگرام اسکول انتظامیہ کے ساتھ اعلی درجات کے بچوں کو لیکر مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر ہونے چاہیے۔ اذان، نماز امر اپاسنا (لافانی عبادت ہے) ہے۔  ان خیالات کا اظہار مختلف مذاہب کے بھائیوں نے مسجد تعارفی پروگرام کے اختتام پر کئے ۔

  یہ پروگرام جماعت اسلامی ہند ناگپور نے جعفر نگر مسجد کمیٹی کے ساتھ مل کر جعفر نگر کی جامع مسجد میں منعقد کیا تھا۔

   مسجد کے تعارفی پروگرام کا آغاز مسجد کے تعارف سے ہوا، اس کے بعد مسجد کے مؤذن خواجہ رفیع الدین سہیل نے اذان دی۔ مولانا سعد ندوی اور شعبہ دعوت کے سکریٹری ڈاکٹر نورالامین نے نماز سے متعلق اذان، وضو، نماز اور دعا کے معنی بتائے اور حاضرین کو مسجد کے مختلف مقامات دکھائے۔

   اس دوران بتایا گیا کہ اذان ہر نماز کے لیے ضروری ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کیا جا رہا ہے اور لاؤڈ اسپیکر پر صبح کی اذان نہیں دی جا رہی۔  نماز "قبلہ” کی طرف منہ کر کے ادا کی جاتی ہے۔  اسے خانہ کعبہ کی سمت کہا جاتا ہے جو پوری دنیا کا مرکز اور بلند سطح ہے۔ نماز کے دوران کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں ہوتی ۔ ویسے بھی اسلام میں اونچ نیچ جیسی کوئی تفریق نہیں ہے۔

 مسجد میں "منبر” کے حوالے سے بتایا گیا کہ امام جمعہ کی نماز میں یہاں کھڑے ہوکر مذہبی بنیاد اور پیغمبر اسلام کی زندگی پر مبنی مقدس زندگی گزارنے کے طور طریقے بتاتے ہیں۔

 سوال و جواب کے دوران نماز کے لیے اذان، مسجد میں خواتین کا داخلہ، نماز کے لیے لباس کیسا ہونا چاہئے وغیرہ سوالات کے معقول اور تسلی بخش جوابات دیے گئے۔  ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ "تبلیغی جماعت” کے ارکان چار پانچ کی تعداد میں نکل کر وہ مقامی اور باہر علاقوں میں جاکر گمراہ مسلمانوں کو نماز کی اہمیت بتاتے ہیں اور انہیں مسجد میں آنے کا کہتے ہیں۔ انہیں خرید و فروخت، ناپ تول میں کمی اور چوری، جھوٹ، دھوکہ دہی، شراب نہ پینے جیسی چیزوں کے بارے میں بتایا اور سمجھایا جاتا ہے۔

   اس موقع پر ملند جوڑے، وجے پوہنکر، لکشمن ٹھومرے، راجو انگولے، نریش انگولے، صاحب راؤ کشیساگر، چنمیا مکھرجی، رنکو، سنجے پرجاپتی، آنند ڈیکاٹے، آلوک پرکاش چوبے، سنیل کھوبراگڑے، راجکمار رائوت، ولاس شیوگاؤں، شو شنکر تاکتوڈے، شیلش پانڈے، سنیل کرانہ کے ڈائریکٹر اور گٹی کھدان پولس اسٹیشن کے ماروتی اور انل کیندرے سمیت دیگر برادران وطن بڑی تعداد میں موجود تھے ۔ ان سب کا استقبال گلاب کے پھولوں سے کیا گیا۔ 

مسجد کے متولی میر احمد حسین نے بتایا کہ ہمارے والد محی الدین احمد نے 1962 میں دادا جان مرحوم میر جعفر حسین کے نام پر 2600 مربع فٹ کے 6 (15600) پلاٹ خریدے تھے۔ اس کی پہلی عارضی تعمیر 1968 میں ہوئی تھی۔ یہ 1976 میں اسکا پکا کنسٹرکشن ہوا تھا۔ 2005 میی مسجد کی تعمیر نو کی گئی۔  1982 میں چیریٹیبل کمشنر کے پاس رجسٹرڈ ہوئی اور مجھے پہلا متولی بنایا گیا۔ مسجد میں سبھی طرح کی سہولیات موجود ہیں۔ مسجد میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ مکتب ہیں جن میں انہیں عربی، اردو اور مذہبی اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں۔ شادی شدہ خواتین کے کائونسلنگ کی سہولیات بھی ہیں۔ جماعت کے ٹھہرنے اور کھانا پکانے کے لیے ایک باورچی خانہ ہے۔  مسافر کو صرف اسی صورت میں رہنے کی اجازت ہے جب اس کے پاس آدھار کارڈ اور دیگر معلومات ہوں۔ سی سی ٹی وی سے مسجد کی نگرانی رکھی جاتی ہے۔ مسجد میں حافظ رحمت اللہ، حافظ اشفاق صاحب دو امام ہیں، غلام رسول دوسے موذن ہیں۔  

Leave A Reply

Your email address will not be published.