کسانوں کا دہلی مارچ ایک بار پھر ملتوی
پولیس کے ساتھ جھڑپ میں کئی کسانوں کے زخمی ہونے کے بعدکسان لیڈر سرون سنگھ پنڈھیر کا فیصلہ، مار چ کے تعلق سے آج پھر میٹنگ۔
اپنے مطالبات کیلئے گزشتہ کئی دنوں سےشمبھو بارڈر پر دھرنے پر بیٹھیں کسان تنظیموں نے اتوار کو دہلی کی طرف مارچ کرنے سے روکے جانے اور آنسوگیس کی فائرنگ میں کئی کسانوں کے زخمی ہونے کے بعدمارچ کا فیصلہ ملتوی کردیا ہے۔ ضلع پٹیالہ کے شمبھو بارڈر پرہریانہ پولیس کی جانب سے انہیں آگے نہیں بڑھنے نہیں دیاجا رہا ہے۔ واضح رہےکہ کسانوں نے حکومت کو الٹی میٹم دیا تھا کہ ان کی وزیر زراعت سے بات کرائی جائے ورنہ وہ ا توار سے دوبارہ مارچ کا آغاز کریں گے۔ اس سے قبل ۶؍ دسمبر کو بھی کسانوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس نے آنسو گیس کے گولے داغ کر کسانوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا تھا۔ اتوار کو پھر کسان دہلی کی طرف بڑھے او راس باربھی انہیں روک دیاگیا۔ کسان لیڈرسرون سنگھ پنڈھیر نے اس موقع پرپریس کانفرنس میں بتایا کہ اب پیر کو ہونے والی میٹنگ کے بعد آگے جانے کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔ جس میں یہ طے کیا جائے گا کہ کسانوں کے جتھے کو کب آگے بھیجنا ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کی سرحد سے متصل شمبھو بارڈر پر تقریباً ۴؍ گھنٹے تک پولیس کے ساتھ جھڑپ کے بعد `دہلی کی طرف مارچ کرنے والے کسانوں کے گروپ کو اتوار کی شام واپس بلا لیاگیا۔
کسان مزدور مورچہ کے لیڈر سرون سنگھ پندھر نے میڈیا کو بتایا کہ گروپ کی واپسی کا فیصلہ آج کے لئے ہے اور تحریک جاری رہے گی اور بات چیت کے بعد اگلا قدم طے کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اتوار کو ہریانہ پولیس کے ذریعہ آنسو گیس چھوڑنے کی وجہ سے آٹھ نو کسان زخمی ہوئے ہیں اور ایک شدید زخمی کو پی جی آئی بھیجا گیا ہے۔ بتا دیں کہ اس سے قبل ماحول کو پُرامن بنانے کیلئے ہریانہ پولیس نے کسانوں پر پھول بھی برسائے تھے۔ اس پر کسانوں نے الزام لگایا تھا کہ پھولوں میں کیمیکل ملے ہوئے تھے جس کی وجہ سے ان کی طبیعت بگڑ گئی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہریانہ پولیس کا کسانوں پر پھول برسانا دھوکہ تھا کیونکہ دو منٹ بعد پولیس نے دوبارہ آنسو گیس کے گولے داغے۔ پنڈھیر نے کہا کہ جمعہ کے مقابلے اتوار کو زیادہ آنسو گیس داغی گئی کیونکہ سنیچر کو ہوا اسی سمت چل رہی تھی، اس لیے وہ احتیاط کے ساتھ آنسو گیس چلا رہے تھے، لیکن اتوار کے روز ہوا اسی سمت چل رہی تھی، اس لئے وہ زیادہ آنسو گیس کے گولے داغ رہے تھے۔ قبل ازیں ہریانہ پولیس کے ایک اہلکار نے کہا کہ کسانوں کو بغیر شناخت اور اجازت کے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ جو کسان گروپ میں آئے تھے وہ انہیں دی گئی فہرست میں شامل نہیں تھے۔ کسان لیڈروں نے اس الزام کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کسانوں کو آگے نہیں بڑھنے دے رہی ہے، اس لیے جھوٹ بولا جا رہا ہے اور طرح طرح کے بہانے بنائے جا رہے ہیں۔
صبح سویرے پنجاب پولیس نے میڈیا کے نمائندوں کو شمبھو بارڈر پر احتجاج کے مقام سے دور روکنے کی کوشش کی تھی۔ ہریانہ پولیس نے پنجاب پولیس سے درخواست کی تھی کہ وہ میڈیا نمائندوں کو احتجاج کے مقام سے دور رکھیں کیونکہ ان کی وجہ سے ہریانہ پولیس کو جمعہ کو امن و قانون برقرار رکھنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کسان مزدور مورچہ اور سنیوکت کسان مورچہ (غیر سیاسی) کے کسانوں کا ایک گروپ گزشتہ فروری سے پنجاب-ہریانہ سرحدوں پر کھڑا ہے اور فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت اور دیگر مطالبات کی ضمانت کے قانون کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ہریانہ پردیش ٹریڈ بورڈ کے صوبائی صدر بجرنگ گرگ نے اتوار کو کہا کہ مرکزی حکومت کو کسانوں کے مسائل کا حل ان سے بات چیت کرکے نکالنا چاہئے۔ یہاں جاری ایک بیان میں گرگ نے کہا کہ ہریانہ حکومت کی طرف سے پنجاب سے ہریانہ آنے والے تمام راستوں کو بند کرنے کی وجہ سے ریاست میں کاروبار کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرحدیں ۱۰؍ ماہ سے سیل ہونے کی وجہ سے ضلع امبالہ اور پنجاب سے متصل تمام اضلاع میں تقریباً۵۰؍ فیصد کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ گرگ نے کہا کہ ہریانہ اور پنجاب کی سرحد پر مسلسل تنازع کی وجہ سے تاجروں اور عام لوگوں میں خوف کا ماحول ہے، وہیں کسان ملک کو خوراک فراہم کرنے والا ہے اور تاجر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب مرکزی حکومت بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ کسان کی ہر فصل ایم ایس پی پر خریدی جا رہی ہے اور کسان کی ہر فصل کا ہر دانہ ایم ایس پی پر خریدا جائے گا، تو حکومت کو ایم ایس پی گارنٹی قانون بنانے میں کیا مسئلہ ہے؟ حکومت کو چاہئے کہ وہ کمیشن ایجنٹوں کے ذریعے کسانوں کی ہر فصل ایم ایس پی پر خریدنے کا قانون بنائے تاکہ حکومت اور کسانوں کے درمیان کئی برسوں سے جاری تنازع اور کسانوں کا احتجاج ختم ہو سکے۔