صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

مجرم خون کے پیاسے تھے، سپریم کورٹ میں مجرموں کی معافی کو چیلنج کرنے والی عرضی پر سماعت

64,718

گزشتہ سال گجرات حکومت نے بلقیس بانو کیس کے تمام 11 مجرموں کی سزا کو معاف کرنے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس پر پیر کو سماعت ہوئی۔ بلقیس بانو کی طرف سے پیش ہونے والی ایڈوکیٹ شوبھا گپتا نے کہا کہ سی بی آئی نے مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے معاشرے میں بڑے پیمانے پر ایک غلط پیغام جائے گا کیونکہ جرم اس نوعیت کا ہے کہ اسے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ سماعت منگل کو بھی جاری رہے گی۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کیس کے تمام 11 قصورواروں کو گزشتہ سال دی گئی معافی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر حتمی سماعت کے آغاز کے لیے 7 اگست کی تاریخ مقرر کی تھی۔ جس کی وجہ سے پیر کو اس کیس کی سماعت ہوئی۔ معافی کو چیلنج کرنے والی عرضی پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بلقیس بانو کی طرف سے پیش ہونے والی ایڈوکیٹ شوبھا گپتا نے کہا کہ اس کے حاملہ ہونے کے باوجود اس کے ساتھ وحشیانہ اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی اور اس کے پہلے بچے کو پتھر سے کچل کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ اس دوران وہ التجا کرتی رہی کہ وہ ان کے لیے ایک بہن کی طرح ہے کیونکہ وہ ان سب کو جانتی تھی اور وہ تمام ان کے علاقے کے آس پاس کے ہی رہائشی تھے۔

ایڈوکیٹ شوبھا گپتا نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس اور اس کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے مجرم بلقیس بانو کا خون کے پیاسے انداز میں پیچھا کر رہے تھے اور اس دوران وہ نعرے بھی لگا رہے تھے کہ یہ مسلمان ہیں، انہیں مار دو۔ شوبھا گپتا نے جسٹس بی وی ناگرتھنا اور اجل بھویان کی بنچ کو بتایا کہ ہائی کورٹ نے اس بات کا بھی نوٹس لیا ہے کہ ان کے ذریعہ کیا گیا جرم نایاب اور غیر معمولی قسم کا ہے۔ اس جرم کو فرقہ وارانہ نفرت کی وجہ سے انجام دیا گیا۔

وکیل نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ 15 اگست 2022 کو مجرموں کی سزا معاف کرکے رہا کر دیا اور بلقیس کو اس کا علم اس وقت ہوا جب انھیں جیل کے باہر جشن مناتے دیکھا۔ مجرموں کو دی گئی معافی کی مخالفت کرتے ہوئے گپتا نے کہا کہ سی بی آئی نے مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے معاشرے میں بڑے پیمانے پر ایک غلط پیغام جائے گا کیونکہ جرم اس نوعیت کا ہے کہ اسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔ اس کیس کی سماعت منگل کو بھی جاری رہے گی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل عدالت عظمیٰ نے 2 مئی کو اس کیس کی سماعت ملتوی کر دی تھی کیونکہ قصورواروں کے کچھ وکیلوں نے انہیں دی گئی معافی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر نوٹس جاری نہ کرنے پر اعتراض اٹھایا تھا۔ سپریم کورٹ نے 18 اپریل کو گجرات حکومت سے 11 قصورواروں کو دی گئی معافی پر سوال کیا تھا اور کہا تھا کہ معافی دینے سے پہلے جرم کی سنگینی پر غور کیا جانا چاہیے تھا۔ مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی وجوہات پوچھتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے ان کی قید کے دوران انہیں بار بار دی جانے والی پیرول پر بھی سوال اٹھایا تھا۔ بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے کنبہ کے سات افراد کے قتل کو ایک خوفناک فعل قرار دیتے ہوئے، عدالت عظمیٰ نے 27 مارچ کو گجرات حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا مجرموں کو معافی دیتے ہوئے قتل کے دیگر معاملات میں ایسا ہی یکساں معیارات کا اطلاق کیا گیا تھا۔

بلقیس بانو کی درخواست کے علاوہ، سی پی آئی (ایم) لیڈر سبھاشنی علی، آزاد صحافی ریوتی لاول، لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر روپ ریکھا ورما سمیت کئی دیگر نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرکے معافی کو چیلنج کیا تھا۔ ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) ایم پی مہوا موئترا نے بھی معافی کے خلاف ایک پی آئی ایل دائر کی تھی۔ بلقیس بانو پر جب یہ ظلم کیا گیا تھا تو اس وقت ان کی عمر 21 سال تھی اور وہ پانچ ماہ کی حاملہ بھی تھی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.