صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

کشمیر میں شہری حقوق سلب کرلئے گئے اور اظہار رائے کی آزادی پر مکمل طور سے پابندی عائد ہے

ایمرجنسی جیسے حالات ملک کے لئے ٹھیک نہیں ، عوام اس کی مخالفت نہیں کریں گے تو ان کے حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالا جائے گا

27,035

لکھنو : ۱۱ اور ۱۶ اگست ۲۰۱۹ کو ایڈووکیٹ محمد شعیب ، سندیپ پانڈے و دیگر کئی سماجی کارکنان کو کشمیر کے لوگوں کی حمایت میں ایک گھنٹہ کے خاموش کینڈل مارچ کو روکنے کے لئے گھروں میں ہی نظر بند کرنے و کل ۱۷ اگست ۲۰۱۹ کو ایودھیا میں ہونے والے دوروزہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیمپ میں شمولیت کیلئے ممبئی سے آئے پروفیسر رام پنیانی ، سندیپ پانڈے ، راجیو یادو ، حفیظ قدوائی سمیت دیگر کئی سماجی کارکنان کو لکھنو ایودھیا شاہراہ پر روناہی میں ہی روک لینے نیز ایودھیا کے کیمپ کے منتظم یوگل کششاستری کو بھی گرفتار کر’روناہی‘ لے آنے و ملک بھر سے آئے ہوئے افراد کو دھمکی دے کر اور دبائو ڈال کر پروگرام میں رخنہ ڈالنے کی ہم پرزور مخالفت کرتے ہیں ۔

پروفیسر پرتاپ بھانو مہتہ کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نے حال میں جموں کشمیر کو پوری طرح بھارت میں شامل کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ کشمیر کو بھارتی بنانے کی بجائے بھارت کو کشمیری بنادے گا ۔ کشمیر میں لوگوں کے شہری حقوق کو سلب کرلیا گیا ہے اور اظہار رائے کی آزادی پر مکمل طور سے پابندی عائد ہے ۔ شری نگر میں تو میڈیا پر بھی پابندی عائد ہے اور اخبارات شائع نہیں ہو پارہے ہیں ۔ جس سے بیرون ریاست کے لوگ کشمیر کی حقیقت نہیں ، جان پائیں ۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جموں کشمیر کے باہر بھی بھارت کے دیگر خطوں میں کشمیر کے سوال پر اگر کوئی حکومت سے الگ رائے رکھتا ہے تو اسے نہیں بولنے دیا جائے گا اور نا ہی کوئی پروگرام کرنے دیا جائے گا ۔ صرف کشمیر کے سوال پر ہی نہیں ایودھیا میں دو دن کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیمپ پر بھی روک لگانے سے تو ایسا لگتا ہے کہ دیگر عنوان پر بھی جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی یا آر ایس ایس کی رائے سے الگ رائے رکھی جانے والی ہو پر بھی روک لگا دی گئی ہے ۔ یہ تو ایمرجنسی جیسی حالت معلوم ہوتی ہے ۔ ملک کے لئے یہ ٹھیک نہیں ہے اور اگر عوام اس کی مخالفت نہیں کریں گے تو ان کے حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالا جائے گا ۔

آج جموں کشمیر کے لوگوں پر ان کی خواہش کے خلاف بغیر ان کی رائے لئے جمہوریت کے بنیادی تصور کو مسترد کرتے ہوئے ایک فیصلہ تھوپ دیا گیا ہے اس سے لوگ بھرم میں ہیں ۔ فیصلہ صحیح بھی ٹھہرایا جائے تو اس کے لینے کا طریقہ تو غلط ہے ہی ۔ کل یہ حکومت اس طرح کے فیصلے دیگر ریاستوں کیلئے بھی لے سکتی ہے ۔ حکومت کی اس تانا شاہی کی مخالفت کیا جانا ضروری ہے ۔

بھلے ہی نریندر مودی حکومت نے واضح اکثریت سے دوسری مرتبہ حکومت بنائی ہے لیکن جمہوریت میں بڑے فیصلے جو لوگوں کی زندگی کو متاثر کرنے والے ہوں جیسے کرنسی کی منسوخی جیسے فیصلے منمانے طریقہ سے نہیں لئے جاسکتے ۔ ان پر بحث اور عام رائے ضروری ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسے ملک بھر کے سبھی لوگوں میں سے صرف ۳۷اعشاریہ ۴ فیصد رائے دہندگان کی ہی حمایت حاصل ہے ۔ وہ یہ مان کر نہیں چل سکتی کہ ملک کے سبھی لوگ اس کے سبھی فیصلوں کے ساتھ ہیں ۔ بلکہ اکثریت اس کے ساتھ نہیں ہے ۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعہ خود سے الگ رائے رکھےنے والوں کو نظر انداز کرکے آر ایس ایس کے ایجنڈے کو پورے ملک پر تھوپنا پوری طرح سے غیر جمہوری طریقہ ہے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کی آوازوں کو دبانا تو اور بھی غلط ہے ۔ ہم اس ملک میں جمہوریت کو زندہ رکھنے کیلئے پابند عہد ہیں اور بی جے پی حکومت کے غیر ضمہوری طریقوں کیخلاف جد و جہد جاری رکھیں گے ۔

 

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.