صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

جشن یوم جمہوریہ کے موقع پرشعبہ اردو کے زیر اہتمام  مشاعرہ کا انعقاد

1,684

علی گڑھ : (ڈاکٹر فرقان سنبھلی)علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینٹرآف ایڈوانسڈ  اسٹڈی  ،شعبہ اردوکی دیرینہ روایت کے مطابق جشن  یوم جمہوریہ کے موقع پر مشاعرہ کاانعقاد اسمبلی  ہال ،یونیورسٹی بوائز پولی ٹیکنک میں کیا گیاجس میں مل کے نامور شعراء نے اپنا کلام پیش کرکے سامعین کو محظوظ کیا۔مشاعرہ کے  آغاز پرچیرمین شعبہ اردو پروفیسر طارق چھتاری نے اس مشاعرہ کی روایت اور جنگ آزادی میں اردو زبان و ادب کی خدمات پر روشنی ڈالی۔انھوں نے کہا کہ جنگ آزادی میں اردو شاعری نے نمایاں کردار ادا کیاتھا۔اس زبان میں لکھے گئے نغموں ننے عوام میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی۔انھوں نے کہا کہ اردو کے حب الوطنی پر مبنی نغمے ہندوستانیوں کے دلوں میں اخوت اور اتحاد کے ساتھ قومی جذبہ بیدار کرتے رہے ہیں ۔ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے صدارتی خظبہ میں کہا کہ ا ردو  دنیا کی خوبصورت زبان ہے اور اردو زبان کا فروغ ہندوستانیوں  کے لئے ایک چلینج ہے ۔

انھوں نے یہودیوں کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی تہذیب اور زبان کی بقا کے لئے ان سے تحریک لینے کی ضرورت ہے جنھوں نے اپنی مادری زبان عبرانی اور اپنے کلچر کو طویل عرصے تک محفوظ رکھا ہے۔انھوں نے کہا کہ مشاعرے اردو کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ مشاعرے میںپرو وائس چانسلر پروفیسر محمد حنیف بیگ،ڈین فیکلٹی  آف آرٹس پروفیسر مسعود انور علوی وغیرہ کے ساتھ ساتھ دیگر معزز مہمانان کثیر تعداد میں  موجود رہے۔شکریہ کی رسم پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے ادا کی۔سنجیدہ سامعین کی داد و تحسین کے درمیان  اڈیٹوریم میں ملک کے مشہور و معروف شعرا نے روایتی موضوعات کے ساتھ ساتھ ملک کے حالات  اور  جشن جمہوریہ کے موضوعات کواپنے کلام میں پیش کیانیز سماجی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔پروفیسر سراج اجملی کی نظامت میں منعقدہ مشاعرہ میں پیش کیے گئے شعراء کے کلام کو قارئین کے لیے یہاں پیش کیاجارہا ہے ۔

 

ہوا اجالا تو ہم ان کے نام بھول گئے

جو بجھ گئے ہیں چراغوں کی لو بڑھاتے ہوئے

(اظہر عنایتی،رامپور )

تمھارے جبر کی میعاد کتنے روز کی ہے

کہ یہ خلافت بغداد کتنے روز کی ہے

(ضیاء فاروقی،بھوپال)

لفظ اس کے ہیں مگر ان میں روانی میری

قصہ گو کوئی سہی ،ہے تو کہانی میری

(پروفیسرمہتاب حیدر نقوی)

ابھی تھا پانی پہ سر اٹھائے مگر وہ اب بلبلا کہاں ہے

اسی طرح ہے زمیں پہ انساں مگر کوئی سوچتا کہاں ہے

(فاروق جائسی،کانپور)

جب تک کھلی نہیں تھی اسرار لگ رہی تھی

یہ زندگی ہمیں بھی دشوار لگ رہی تھی

(عالم خورشید ، پٹنہ)

کوئی زندگی سے گلہ نہیں کہ یہ دل کسی سے ملا نہیں

وہ ملا نہیں تو صلہ نہیں پھر اٹھا بھی دست دعا نہیں

(خورشید اکبر،پٹنہ)

زمین ہند تجھ کو آسماں اک دن بنائیں گے

تیری عظمت کے نغمے چاند تارے گنگنائیں گے

(معظم علی خاں ،علی گڑھ)

عقل ودانش کی کمی کا رنج ہے سب کو مگر

غم زدہ  میں ہوں کہ میرے گھر سے نادانی گئی

(غضنفر،دہلی)

تعجب سے تعلق یاد رکھنا اور پھر آرام سے سونا

اگر اس کو بھلا پائے نہیں اب تک سویرا کیسے کرتے ہو

(پروفیسر سراج اجملی،اے ایم یو)

عجیب خوف کا عالم ہے  ساری بستی میں

ہر ایک شخص  تیرے نام  ہی سے ڈرتا ہے

(پروفیسر شہاب الدین ثاقب،اے ایم یو)

کوئی نہ آگے بڑھا دیکھتے رہے سب لوگ

میرے خلاف زمانہ تھا میں اکیلا تھا

(ڈاکٹر راشد انور راشد،اے ایم یو)

ابلیس تو پسند نہیں ہے ہمیں مگر

تیری سوال کرنے کی جرات پسند ہے

(امیر امام،سنبھل)

مذہب عشق کا کعبہ ہے در جاناناں

ہم نے کھولا نہیں باندھا تھا  جو اہرام اب تک

(نسیم صدیقی)

قیام امن کا ذمہ ہے جس کے ہاتھوں  میں

لہو لہان  اسی ہاتھ میں پرندہ ہے

(ڈاکٹر سرور ساجد)

اپنی ذات سے آگے جانا ہے جس کو

اس کو برف سے پانی ہونا پڑتا ہے

(معید رشیدی)          

ایک چیخ تھی جو گھٹ کے کہیں دل میں رہ گئی

ایک خواب تھا جو آنکھ کے دریا میں بہہ گیا

(سراج محمد خان بھوپال)

مشاعرہ میں راحت حسن ،شہزاد برہانی،خیر الدین اعظم،ظہیر حسن ظہیر، وغیرہ نے بھی کلام پیش کیا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.