صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

لشکر نہیں تو زبان کیسی !

4,568

 

عمر فراہی 

ٹائمس آف انڈیا کے لسانی شعبہ جات کے ایک سروے کے مطابق ملک میں بولی جانے والی زبان میں ہندی سر فہرست ہے ۔ دوسرے  نمبر پر بنگالی اور تیسرے نمبر پر مراٹھی ہے ۔ اردو چھٹے مقام سے ساتویں مقام پر آچکی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ صنعت و تجارت کے موجودہ سرمایہ دارانہ دور میں جس طرح انٹرنیٹ ٹکنالوجی نے مواصلاتی نظام کو آسان بنا کر انسانوں کو گلوبلائزیشن کے دائرے میں سمیٹ دیا ہے  انگریزی  ترقی اور ٹکنالوجی کی واحد زبان بن چکی ہے ۔ ہندوستان میں ہندی کو قدیم زمانے سے فوقیت حاصل رہی ہے اس لیے مغلوں نے اکثریت سے بولی جانےوالی اس زبان کو فارسی رسم الخط میں تبدیل کرکے اپنے لشکر کی زبان  بنادیا تاکہ مختلف زبان بولنے والے فوجیوں کا  ایک دوسرے سے رابطہ کرنا آسان ہوجائے  ۔بعد میں شعر وادب اور تاریخ نویسی  کے  شوقین مصنفین نے جب اس زبان میں  اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع کیا تو یہ زبان اردو کے نام سے عام بول چال کی زبان اختیار کر  گئی ۔ انگریزی دور حکومت میں انگلش کے عروج کے درمیان اردو کسی حد تک ملک کی مشترکہ زبان تو رہی لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تاریخ میں آواز اور زبان بھی انہیں کی طاقتور ہوتی ہے جو اقتدار میں ہوتے ہیں یا جن کا اپنا لشکر ہوتا ہے ۔ اردو کا تعلق چونکہ  لشکر سے تھا لشکر ہی نہیں رہا تو زبان کیسی ۔
ملک کے موجودہ ماحول میں نہ صرف ہندوستانی فوج کی زبان ہندی ہے ملک کی مختلف ریاستوں میں صنعت و تجارت کا جو فروغ ہوا ہے تجارت کی زبان کا ہندی ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ شکر ہے مسلمانوں کی پسماندگی کا کہ مدارس کو غریب اور پسماندہ علاقوں کے بچے مہیا ہو جارہے ہیں اور  اردو سانس لے رہی ہے ورنہ مسلمان جہاں تھوڑا بھی خوشحال ہوا ہے اپنے بچوں کو مزید خوشحال بنانے کیلئے انگلش ذریعے تعلیم کی طرف موڑ دیتا  ہے ۔
ہمارے ایک مولوی دوست جو کبھی ہمارے پڑوس  کی مسجد کے امام ہوا کرتے  تھے جب انہیں بہار کے ایک مدرسے میں اپنے والد کے مقام پر ملازمت مل گئی تو انہوں نے امامت کے پیشے کو ترک کردیا ۔ اب وہ کئی سالوں سے ہمارے پاس مدرسے کے سفیر کی حیثیت سے زکوٰۃ صولنے آتےہیں ۔ کچھ تین چار سال پہلے تعلیم کے موضوع پر ایک گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے بچے کو مدرسے کے اردو میڈیم اسکول سے نکال کر انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ کروا دیا ہے ۔ میں نے کہا ایسا کیوں کیا تو انہوں نے جواب دیا کیا کریں چھ سات سو کی تنخواہ  میں ہمارے والد  ہم لوگوں کو تو کچھ نہیں بناسکے اور پچھلے کچھہ سالوں تک میری تنخواہ بھی سات آٹھ ہزار ہی تھی اس لیے بچے کو اردو میڈیم میں داخلہ دلوادیا تھا لیکن اب چونکہ مجھے سرکار سے بیس بائیس ہزار تنخواہ آنے لگی ہے  سوچا کہ اگر میں اپنے والدین کی غربت کی وجہ سے کچھ نہیں بن سکا تو  بچے تو کچھ  بن جائیں اور پھر انہوں نے اسی روانی میں مجھ سے بھی پوچھ لیا کہ آپ کے بچے بھی تو انگلش میڈیم سے ہی پڑھتے ہونگے ؟
شاید میرے حالات اور میری تعلیم کے مدنظر انہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ میرے بچے یقیناً انگلش میڈیم سے پڑھ رہے ہونگے ۔ میں نے کہا حضور ہمارے والدین اتنی استطاعت رکھتے تھے کہ ہم لوگوں کو انگلش میڈیم سے پڑھا سکتے تھے اور میں بھی اتنا خود کفیل ہوں کہ اپنے بچوں کو کانونٹ میں داخلہ دلواسکتا تھا لیکن میرے سامنے بچوں کے کچھ بننے سے زیادہ مسلمان بنانا بھی تو لازمی تھا ! انہوں نے کہا الحمداللہ ، اللہ نے تو ہمیں پہلےسے مسلمان پیدا کیا ہے ۔ میں نے کہا محترم یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ  اس نے ہمارے اوپر رحم کیا لیکن آپ کو اپنے اللہ سے اپنے مسلمان ہونےکی تصدیق بھی تو کرنی  ہے ۔ حدیث ہے کہ تم میں سے ہرایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ ہوگی ۔ سوال یہ ہے کہ ہر نماز میں ہم جس صراط  مستقیم کا ورد کرتےہیں کیا بار بار صرف  قرآن کی یہ آیت پڑھ لینے سے آپ اور ہماری نسل اپنے درست راستے کا تعین کرپائے گی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن کی مادری زبان انگلش ہندی مراٹھی بنگالی اور ملیالی وغیرہ ہے وہ اس زبان میں بھی اسلامی تعلیمات سے آشنا ہوسکتے ہیں لیکن جن کی زبان اردو ہے اور تمام اسلامی لیٹریچر بھی اردو میں ہیں مگر وہ اپنے بچو کا رخ  کانونٹ کی طرف موڑ چکے ہیں ان کے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا ؟
آپ کہہ سکتے ہیں کہ انگلش میں بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک بنا جاسکتاہے ۔ بیشک ایسا ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی تو غور طلب بات ہے کہ ذاکر نائیک کے ساتھ  لاکھوں طلبہ انگلش میڈیم سے نکلے صرف ایک  ذاکر نائیک ہی کیوں پیدا ہوئے ؟
اس کے  علاوہ اب تو کروڑوں کی تعداد میں مسلمان بچے انگلش ذریعے تعلیم  سے پڑھ  کر باھر آرہے  ہیں لیکن یہ بچے انگلش اخبارات میں مسلم مسائل کے تعلق سے ایک مراسلہ بھی لکھنے سے قاصر ہیں ۔ کسی نے خوب لکھا ہے کہ جن بچوں کو مسلمانوں نے انگلش ذریعے تعلیم کی طرف موڑا ہے ان کی اکثریت نہ ٹھیک سے انگلش ہی بول سکتی ہے اور نہ اردو ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف کی تصنیفات کو لائبریریوں میں دیمک چاٹ رہےہیں اور صرف ہماری زبان ہی  کیوں  ہماری نئی نسل بھی تہذیبی زوال کی طرف مائل ہے ۔ شاید اس میں ہماری اس سوچ  کا بھی دخل ہے کہ اگر ہم نے بچوں کو انگلش ذریعہ تعلیم سے تعلیم نہیں دلوائی تو وہ دیگر قوموں سے  پیچھے رہ جائیں گے ! حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت جن کے گھروں  میں ٹھیک سے انگلش پڑھی بھی نہیں جاسکتی ان کے یہاں بھی شادی کے کارڈ انگلش میں ہی چھپتے ہیں ! جبکہ مراٹھی اور بنگالی امریکہ لندن کی  یونیورسٹیوں سے پڑھ کر بھی اپنی شادی کے کارڈ اپنی زبان میں ہی چھپواتے ہیں ۔ اتر پردیس جہاں سے اردو زبان کو عروج ملا اس کے کسی شہر سے اب کوئی معتبر اردو اخبار کی اشاعت نہیں ہوتی اور مسلمانوں کی اکثریت ہندی اخبار پڑھتی ہے ۔ مہاراشٹر نے اردو کی لاج بچائی ہوئی ہے لیکن کب تک ؟ اردو میڈیم اسکولوں کا معیار بھی گرتا جارہا ہے اور خود وی ٹی انجمن جہاں کبھی بچوں کو داخلہ مشکل سے ملتا تھا اسے بچوں کے داخلے کیلئے پمفلٹ بانٹنے پڑ رہےہیں ۔ قصور ہم سب کا ہے کیوں کہ ہم خوشحال جو ہوچکےہیں اور اپنی نسل کو مزید  خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں اور اب ہمارا کوئی لال قلعہ اور لشکر بھی تو نہیں !

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.