صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

بھارت نے جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس میں جنوبی ایشیا کے صرف ایک ملک کو ہی مدعو کیوں کیا؟

67,041

بھارت کی صدارت میں اگلے ماہ نئی دہلی میں ہونے والے جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بطور مہمان مدعو کیے گئے نو ممالک میں سے بنگلہ دیش واحد جنوبی ایشیائی ملک ہے۔ آخر بنگلہ دیش کو دوسرے پڑوسیوں پر اتنی ترجیح کیوں دی جا رہی ہے؟ مزید تفصیلات جاننے کے لیے پڑھیں۔

نئی دہلی: بھارت میں 9 سے 10 ستمبر تک منعقد ہونے والے جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس میں جنوبی ایشیائی ممالک میں سے صرف بنگلہ دیش کو بطور مہمانوں مدعو کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نئی دہلی نے یہ واضح کردیا کہ وہ شمال مشرق کو اپنی ایکٹ ایسٹ پالیسی کے تحت ترجیح دیتا ہے۔ مدعو کیے گئے دیگر آٹھ مہمان ممالک میں مصر، ماریشس، نیدرلینڈز، نائجیریا، عمان، سنگاپور، اسپین اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) شامل ہیں۔

دراصل بھارت اپنی ایکٹ ایسٹ پالیسی اور نیبر ہڈ فرسٹ پالیسی کے تحت شمال مشرق کی کنیکٹیوٹی و ترقی اور خطے میں چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے بنگلہ دیش کو اپنے پڑوس میں ایک اہم ملک کے طور پر دیکھتا ہے۔نئی دہلی کے لیے شمال مشرق خوشحال جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے لیے چشمہ ہے اور ان شمال مشرقی ممالک سے رابطے کے لیے بنگلہ دیش یہاں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جب بنگلہ دیشی ہم منصب شیخ حسینہ اگلے ماہ G20 سربراہی اجلاس کے لیے نئی دہلی کے دورے پر ہوں گی تو اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی ان کے ساتھ تریپورہ-بنگلہ دیش سرحد پر فینی ندی پر میتری سیتو پل کا افتتاح کریں گے۔اور جب یہ پل آمدورفت کے لیے کھل جائے گا تو تریپورہ کے سب سے جنوبی حصے کو بنگلہ دیش کی چٹاگانگ بندرگاہ تک براہ راست رسائی حاصل ہوگی، جو کہ صرف 80 کلومیٹر دور ہے۔ اس سے ہندوستان کے شمال مشرقی خطے میں رابطے بڑھیں گے جو جنوب مشرقی ایشیا کے لیے گیٹ وے کے طور پر کام کرے گا۔ جس کی وجہ سے شمال مشرقی اور باقی بھارت کے درمیان مال کی نقل و حمل کی لاگت میں نمایاں طور پر کمی آئے گی۔

اس کے علاوہ جاپان کی مدد سے بنگلہ دیش میں ماترباری بندرگاہ تیار کیا جارہا ہے۔ جو کہ چٹاگانگ، مونگلا اور پائرا کے بعد بنگلہ دیش کا چوتھا بندرگاہ ہے۔ چونکہ بھارت اور جاپان قریبی دوست ہیں اور کواڈ کا حصہ بھی ہیں جس کواڈ میں امریکہ اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ انڈو پیسیفک خطے میں چین کی بالادستی کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے جو جاپان کے مشرقی ساحل سے لے کر افریقہ کے مشرقی ساحل تک پھیلا ہوا ہے۔

ساؤتھ ایشین یونیورسٹی، نئی دہلی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے ریسرچ اسکالر، شہادت حسین نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ‘بھارت، بنگلہ دیش اور جاپان کے درمیان مفاہمت، اس کے ساتھ ساتھ BIG-B (خلیج بنگال انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بیلٹ) کے تحت اربوں ڈالر کی انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کا اعلان خطے کے لیے گیم چینجر ہے۔ بنگلہ دیش کے رہنے والے حسین نے کہا کہ اس اقدام سے نہ صرف بھارت کے شمال مشرقی علاقے کو فائدہ پہنچے گا بلکہ بنگلہ دیش میں خصوصی اقتصادی زونز میں بھارت کی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش بھارتی سرمایہ کاروں کو بنگلہ دیش کے سب سے بڑے اقتصادی زون مونگلا اور میرسرائے اکنامک زون میں شرکت کے لیے فعال طور پر مدعو کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرسرائے اکنامک زون چٹاگانگ بندرگاہ کے قریب ہے اور بھارت کے شمال مشرقی علاقے کے بہت قریب ہے۔حسین نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں بنگلہ دیش میں چین کی وسیع مداخلت نے بھارت کے مشرقی پڑوسی ملک کے جغرافیائی سیاسی منظرنامے کو نئی شکل دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘چینی ملٹری، انفراسٹرکچر اور کنیکٹیویٹی کے منصوبے اب جیو اسٹریٹجک اقدار کے حامل ہیں اور وہ جو قرض دیتا ہے وہ بھی جیو اکنامک ٹول کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

اس لیے بھارت، چین بنگلہ دیش کے حالیہ تعلقات سے پریشان ہو سکتا ہے۔ حسین نے کہا کہ G20 سربراہی اجلاس کے لیے بنگلہ دیش کو بھارت کی دعوت کو عالمی سطح پر بنگلہ دیش کی موجودگی بڑھانے کے لیے نئی دہلی کے ارادے کے طور پر بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت بنگلہ دیش کے لیے گیٹ وے کے طور پر کام کرنے کا مقصد بھی رکھ سکتا ہے جو بین الاقوامی سطح پر چین کے بجائے متبادل اتحاد کی پیشکش کرتا ہے۔

بھارت کی طرف سے بنگلہ دیش کی دعوت اس لیے بھی اہم ہے کہ دونوں ممالک میں آئندہ چند ماہ میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اور یہ دعوت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب مغربی طاقتوں کی جانب سے بنگلہ دیش کے انتخابی عمل میں مداخلت کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘بنگلہ دیش میں موجودہ جغرافیائی سیاسی منظر نامے کی وجہ سے، آنے والے انتخابات نے بڑی عالمی طاقتوں کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ ڈھاکہ میں حکمران جماعت (عوامی لیگ) کو آئندہ انتخابات میں کچھ تناؤ کا سامنا ہے کیونکہ امریکہ سمیت مغربی ممالک آزادانہ، منصفانہ اور شرکت پر مبنی انتخابات کے لیے زور دے رہے ہیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ وہ بھارت کی طرف سے بنگلہ دیش کو دی گئی اس دعوت کو صرف بنگلہ دیش کی حکمران سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے نہیں دیکھیں گے۔ حسین نے کہا کہ ‘اس میں بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کی صلاحیت ہے اور یہ بنگلہ دیشی رہنماؤں کے لیے عالمی رہنماؤں کے ساتھ مشغول ہونے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کر سکتا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.