صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

اِنڈیا اتحاد کی ممبئی میٹنگ نے دیا ہندوستان کی کثیر ثقافتی تنوع اور آپسی اتحاد کا مضبوط پیغام

77,712

ممبئی میٹنگ کے دروازے پر آئین کی کاپی لیے بھارت ماتا کی تصویر لگا کر انڈیا اتحاد نے بی جے پی کی اس کوشش کو ناکام کر دیا جس میں وہ کسی قومی علامت یا رنگ پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرنے کی عادی ہو گئی ہے۔

اِنڈیا اتحاد کی ممبئی میں ہوئی دو روزہ میٹنگ تین اہم قراردادوں اور لیڈروں کے آپسی میل ملاپ کے مظاہرہ کے ساتھ ختم ہو گئی۔ اس میٹنگ میں جہاں سینئر لیڈران کو آگے آنے کا موقع دیا گیا تو وہیں نوجوان لیڈران کی اہلیت و صلاحیت کو نشان زد کیا گیا۔ اس میٹنگ کے اختتام کے ساتھ ہی بی جے پی ایکوسسٹم کی وہ سبھی کوششیں ناکام ہو گئیں جس میں وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں سیٹوں کی تقسیم اور وزیر اعظم یا کنوینر عہدہ کے چہرے پر اختلاف ابھرنے اور اِنڈیا اتحاد میں شگاف پڑنے کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔

اس میٹنگ کے دوران دو باتیں واضح تھیں، انڈیا اتحاد کے لیڈر وقت سے قبل لوک سبھا انتخاب کے اندیشوں سمیت کسی بھی امکان یا حالات کو ہلکے میں نہیں لے رہے تھے۔ انہی سب کو دھیان میں رکھتے ہوئے بہت ہی خیر سگالی والے ماحول میں چیف کوآرڈنیشن کمیٹی اور دیگر ذیلی کمیٹیوں کی تشکیل کی گئی۔ یہ کمیٹیاں اِنڈیا اتحاد کے مستقبل کے سبھی پہلوؤں پر غور کریں گی اور انھیں عملی جامہ پہنانے کا خاکہ سامنے رکھیں گی۔ اس سب میں مختلف پارٹیوں کے درمیان ریاستی سطح پر سیٹوں کی تقسیم بھی شامل ہے جس سے اپوزیشن اتحاد کی جیت اور بی جے پی کی شکست یقینی ہو۔

جیسا کہ راہل گاندھی نے اِنڈیا اتحاد کی مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ اِنڈیا کے اسٹیج پر موجود لیڈران ہندوستان کی 60 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کے متحد رہنے پر بی جے پی کا اگلا انتخاب جیتنا ناممکن ہوگا۔ جو کمیٹیاں بنائی گئی ہیں، ان میں ممبئی کی میٹنگ میں شامل تقریباً سبھی 28 پارٹیوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔ ان میں تشہیر کی پالیسی، میڈیا، سوشل میڈیا اور ریسرچ وغیرہ پر فوکس ہوگا۔

دراصل گزشتہ کچھ دنوں سے بی جے پی لگاتار اِنڈیا اتحاد کا مذاق اڑا رہی ہے۔ خاص طور سے یہ کہہ کر کہ وہاں تو ہر کوئی وزیر اعظم بننے کی خواہش رکھتا ہے اور تمام لیڈروں کے اپنے مفادات ہیں۔ لیکن اِنڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں نے اس قسم کی تنقید کو سرے سے خارج کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ان کے پاس ایسے کئی اہل مرد و خواتین ہیں جو ان عہدوں پر بیٹھ سکتے ہیں، لیکن بی جے پی تو صرف ایک ہی نام اور چہرے پر اٹکی ہوئی ہے۔ لیڈروں نے کہا کہ اگر این ڈی اے خیمے میں کسی پارٹی یا لیڈر نے ایسی خواہش ظاہر کی تو اگلے دن اس کا سیاسی کیریر ختم ہو جائے گا۔ لیکن اِنڈیا اتحاد کے اسٹیج پر قدآور لیڈروں، جن میں کم از کم 6 وزرائے اعلیٰ، کئی سابق وزرائے اعلیٰ اور کئی سینئر لیڈران موجود تھے، انھیں ’ٹاپ ہیوی‘ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن راہل گاندھی نے اسی بات کو ایک نیا زاویہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ قابل تعریف اور قابل ذکر بات ہے کہ سارے سینئر لیڈران ایک دوسرے کو ضم کرنے اور اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لیے کس حد تک جانے کو تیار ہیں۔‘‘

اِنڈیا اتحاد کی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی اس بات کی جھلک صاف دکھائی دی۔ سبھی لیڈران ایک دوسرے کے لیے دو قدم پیچھے ہٹ کر جگہ دے رہے تھے۔ راہل گاندھی نے خود شرد پوار کے لے جگہ دی، جنھوں نے بی جے پی کا پتہ صاف کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے میٹنگ کے اختتام کا اعلان کیا، اور ساتھ ہی کہا کہ نہ صرف اِنڈیا بلکہ انڈینس بھی اگلا انتخاب جیتیں گے۔ بھلے ہی ان کے بھتیجے اجیت پوار کے پالا بدلنے کے بعد لوگوں نے ان کی معتبریت پر سوال اٹھائے تھے، لیکن جس طرح انھوں نے سرگرمی کے ساتھ اس میٹنگ میں حصہ لیا اور ایک دوسرے کے ساتھ جس خیر سگالی والے رویہ کے ساتھ پیش آئے، اس نے سبھی اندیشوں کو دور کر دیا اور ثابت کر دیا کہ شرد پوار پورے عزم کے ساتھ اِنڈیا اتحاد کا حصہ ہیں۔

ایک بات اور، وہ یہ کہ حال کے دنوں میں ان کے بھتیجے اجیت پوار سمیت این سی پی کے کچھ باغی لیڈران نے شرد پوار کی بڑھتی عمر کا کئی بار تذکرہ کیا، لیکن کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے اس سب کو خارج کرتے ہوئے ان کے تجربات کو سامنے رکھا۔ کھڑگے نے کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے پوار صاحب کے بعد اس اسٹیج پر اور سیاست میں فعال سب سے سینئر لیڈر میں ہی ہوں۔ میں 52 سال سے انتخابی سیاست میں ہوں… (پوار 56 سال سے فعال ہیں) بس ہمارے درمیان واحد فرق یہ ہے کہ میں کبھی وزیر اعلیٰ نہیں رہا (پوار مہاراشٹر کے چار بار وزیر اعلیٰ رہے ہیں)۔‘‘ ان جملوں کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ اگر میں اس عمر میں کانگریس کے منتخب صدر ہو سکتے ہیں اور اپنی پارٹی کو کامیاب بنانے کی قیادت کر سکتے ہیں، تو شرد پوار کیوں نہیں کر سکتے، اور انھیں کوئی کیوں بزرگ کہہ کر خارج کرے؟

میٹنگ میں شامل اور مشترکہ پریس کانفرنس میں اپنے نظریات رکھنے والے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال، آر جے ڈی سپریمو لالو یادو، سی پی ایم لیڈر سیتارام یچوری وغیرہ سبھی نے اتحاد اور اجتماعیت کے ساتھ ساتھ کچھ ہی ہفتوں میں لوگوں کے سامنے جیت کا فارمولہ دینے کی اپنی صلاحیت پر زور دیا۔ لیکن اس پریس کانفرنس کی سب سے دلچسپ اور خاص بات رہی تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کا پورے اعتماد سے اپنی مادری زبان تمل میں میڈیا کو خطاب کرنا۔ اس پریس کانفرنس میں اسٹالن تنہا ایسے لیڈر رہے جنھوں نے اپنی بات رکھنے کے لیے ایسی زبان کا استعمال کیا جس سے ممبئی کے سبھی صحافی شاید ہی واقف ہوں۔ لیکن یہ ہندوستان کے تنوع کو ظاہر کرنے والا موقع تھا اور میڈیا نے بھی انھیں بغیر کسی احتجاج کے صبر کے ساتھ سنا کہ کس طرح سے انھوں نے 2024 میں فاشسٹ طاقتوں کے خاتمہ کی پیشین گوئی کی۔

اسٹالن نے وزیر اعظم نریندر مودی پر بھی چٹکی لی۔ انھوں نے کہا کہ ’’انڈیا کی پہلی میٹنگ میں 19 پارٹی بی جے پی کے خلاف ساتھ آئے تھے۔ بنگلورو میں دوسری میٹنگ میں کنبہ بڑھا اور ہم نے اتحاد کو اِنڈیا نام دیا۔ اور اب ممبئی میں ہم مزید مضبوط ہو کر سامنے کھڑے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ بی جے پی کس طرح کام کرتی ہے۔ وزیر اعظم مودی کہیں بھی جائیں، وہ سرکاری تقریب ہو یا بی جے پی کی… وہ گزشتہ 9 سال کی اپنی حصولیابیاں نہیں بتا پاتے، بلکہ اِنڈیا اتحاد کے بارے میں ضرور بولتے ہیں۔ وہ تو ہمارے پبلسٹی آفیسر کی طرح کام کر رہے ہیں۔ میں اس کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘

ان کے بعد سی پی ایم لیڈر سیتارام یچوری نے اپنی مادری زبان تیلگو میں بولنے کی بات کہی، لیکن پھر وہ انگریزی میں بولے۔ وہیں راہل گاندھی نے اپنے عام انداز یعنی انگریزی اور ہندی دونوں میں اپنی بات میڈیا کے سامنے رکھی۔ ادھو ٹھاکرے نے مراٹھی اور ہندی میں میڈیا کو مخاطب کیا… اور اس طرح اِنڈیا اتحاد کے اسٹیج سے لے کر پریس کانفرنس تک ہندوستان کی کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی تنوع کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔

پانسہ پھینکا جا چکا ہے۔ اور اب اس کے جواب کے لیے بی جے پی کو نئے سرے سے اپنے مہرے سجانے ہوں گے، کیونکہ آنے والے دنوں مین اور بھی علاقائی پارٹیاں اِنڈیا اتحاد کا حصہ بن سکتی ہیں جو کہ بی جے پی کے لیے چیلنج کو مزید سنگین بنا دیں گی۔ اور بھلے ہی اِنڈیا اتحاد کے لیے کسی رسمی لوگو کا اجراء نہیں کیا گیا، لیکن ’جڑے گا بھارت، جیتے گا اِنڈیا‘ کا نعرہ دے کر اسے سبھی زبانوں میں ترجمہ کر لوگوں کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ویسے ایک لوگو تیار کیا گیا تھا جس میں دو جزوی حلقوں میں اِنڈیا اتحاد میں شامل سبھی لیڈروں کی تصویریں تھیں۔ لیکن اسے آنے والے دنوں میں جاری رکھنا تھوڑا مشکل کام ہوگا، کیونکہ نئے لیڈران اور پارٹیوں کے اتحاد سے جڑنے کے قوی امکانات ہیں۔ لیکن جو عارضی لوگو دِکائی دیا اس میں نصف گھیرا کیسریا اور ہرے رنگ میں ہے، جس کے اوپر اور نیچے ’بولتا اِنڈیا‘ شائع ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بعد کے دنوں میں ’آئی‘ اور ’این‘ کو کیسریا اور بعد کے ’آئی‘ اور ’اے‘ کو سبز بنایا جا سکتا ہے۔ ’ڈی‘ نیلا ہو سکتا ہے اور اس کا نصف گھیرا سفید چھوڑا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ ہندوستانی پرچم کے سبھی رنگوں کو ظاہر کرتا ہوا دکھائی دے گا۔

اس کے علاوہ ممبئی میٹنگ کے داخلی دروازے پر آئین کی کاپی لیے ہوئے بھارت ماتا کی تصویر لگا کر اِنڈیا اتحاد واضح طور سے بی جے پی کی اس کوشش کو کند کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے جس میں وہ کسی بھی قومی علامت یا رنگ پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرنے کی عادی ہو گئی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.