وجود کی جنگ لڑتے اردو اسکولوں کی روداد (2)
اسمعیل بیگ محمد اردو ہائی اسکول :کیا ٹرسٹی اسے بند کرکے انگلش میڈیم شروع کرنا چاہتے ہیں؟
نہال صغیر
یوں تو پورے ملک میں اردو کا اور اردو اداروں کا جنازہ اٹھ چکا ہے ۔جن کا نہیں اٹھا ہے وہ بھی کچھ دنوں کے مہمان ہیں ۔اردوکی یہ حالت ہماری اپنی بے توجہی اور انگلش سے مرعوبیت کے سبب ہے ۔ جنوبی ممبئی کے اردو اسکولوں کی حالت بہت زیادہ خراب ہے ۔ کئی اداروں نے اردو میڈیم بند کرکے انگلش میڈیم شروع کردیا ہے۔انگلش میڈیم شروع ہوتے ہیں اردو میڈیم میں بچوں کی تعداد کم سے کم ترہوتی چلی گئی ۔ کئی اس فکر میں ہیں کہ وہ اردو میڈیم ختم کرکے انگلش میڈیم شروع کریں ۔ عوام کی بھی مانگ انگلش میڈیم کی ہے ۔یہ تبدیلی اور اردو سے نفرت اور انگلش میڈیم سے التفات میں پچھلے دس سالوں کے درمیان تیزی آئی ہے ۔ اسمعیل بیگ محمد اردو ہائی اسکول کی حالت ہم بغیر کسی تمہید کے آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں ۔یہاں دو سال قبل پرائمری سیکشن بند ہو چکا ہے اور فی الحال سیکنڈری ڈویژن میں صرف ۲۴ ؍ بچے ہیں ۔ آٹھویں میں دس ،نویں میں سات اور دسویں میں سات بچے ۔ جنہیں تعلیم دینے کیلئے پرنسپل سید صبغت اللہ سمیت کل پانچ اساتذہ ہیں ۔ اساتذہ کی تعداد غنیمت ہے ۔ ان پانچ میں سے ایک معلم کی تنخواہ اسکول ٹرسٹ ادا کرتا ہے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم اکثر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کم از کم بیس بچوں پر ایک معلم دیا جائے ۔یہاں تو صرف چوبیس بچوں پر ہی سرکاری گرانٹ سے چار اساتذہ ہیں ۔ اب ہمارے وہ سماجی کارکن مذہبی دانشور اور سیاسی لیڈران کیا کہیں گے ، جنہیں یہ غم کھائے جاتا ہے کہ حکومت اردو زبان کو ختم کرنے کیلئے سازشیں کررہی ہے ۔ یہاں کون ذمہ دار ہے اور کسی سازشی تسلیم کیا جائے ؟
معروف طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے ’دیمکوں کی ملکہ سے ملاقات‘میں اردو زبان و ادب اس کے قارئین اور ادیب و شاعر کی حالت نیز اردو کے متقدمین کے دیوان اور ان کی تخلیقات کا حال یوں لکھا ہے ’لائبریری کے اردو سیکشن میں داخل ہوا تو یوں لگا جیسے میں کسی بھوت بنگلہ میں داخل ہوگیاں ہوں ۔میں خوفزدہ سا ہو گیا ۔کلیات میر کھولی تو اس میں سے موٹی تازی دیمک بھاگنے کی کوشش کررہی ہے ‘۔اس مزاحیہ کہانی میں دیمک کی ملکہ کی زبانی بیان کرتے ہوئے اردو کا المیہ بیان کیا گیاہے ۔ لکھا ہے ’اب تو اردو ادب ہی میرا اوڑھنا بچھونا اور کھانا پینا بن گیا ہے ‘۔جنوبی ممبئی کے مسلم اکثریت والے محلوں جنہیں اردو والوں کا علاقہ بھی کہا جاتا ہے ۔جہاں کی مسلم آبادی تقریبا نو دس لاکھ سے زائد ہوگی اردو اسکولوں کی حالت دیکھنے اور ان کی المناک صورتحال قوم کے سامنے لانے کیلئے ان اسکولوں کا جائزہ لینے پہنچا تو مجھے مجتبیٰ حسین کی مذکورہ بالا تحریر یاد آگئی ۔
اسمعیل بیگ محمد اسکول کی شاندار پانچ منزلہ عمارت میں داخل ہونے پر کسی بھوت بنگلہ کا گمان تو نہیں ہوتا لیکن دوسری منزل پر سیکنڈری کلاس جاری ہے ۔پرانے طرز کی مضبوط عمارت پوری قوت کے ساتھ کھڑی ہے لیکن اس میں جاری تعلیمی نظام ڈھہ رہا ہے جسے انتظار ہے کسی ایسے مسیحا کا جو اس کے وجود کو ٹھہرائو دے سکے اور اس کی شان کو واپس دلا سکے ۔گرائونڈ فلور تو مختلف دوکانوں اور بینک آف بڑودہ کے استعمال میں ہے ۔پہلی منزل کے سارے کمرے بند ہیں ۔انکے دروازوں پر الیکشن کے دوران لگنے والی سلیپ اب بھی اسی طرح چپکی ہوئی ہے ۔دوسری منزل پر کلاس روموں کی ویرانی آپ کو ضرور کچھ سوچنے پر مجبور کردے گی ۔دماغ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا یہی ہے وہ اسکول جو ابوبکر محمد بیگ نے تعمیر کرائی تھی اور جس کے لئے اسمعیل بیگ محمد نے رقم وقف کی تھی ؟ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے محسنوں سے بے وفائی کررہے ہیں ۔ان کے خلوص اور ان کی قربانیوں کا یہ صلہ ہے کہ اردو اسکول ویران ہو کر انگلش میڈیم کے اسکول آباد ہو رہے ہیں ۔
جنوبی ممبئی کے قلب میں واقع مینارہ مسجد اور حمیدیہ مسجد کے درمیان محمد علی روڈ کے کنارے اسمعیل بیگ محمد اردو ہائی اسکول میں اب صرف سیکنڈری ڈویژن ہے جس میں کل ۲۴؍بچے زیر تعلیم ہیں ۔ پرنسپل سید صبغت اللہ سے مل کر ان سے اسمعیل بیگ محمد ہائی اسکول کی اس دگر گوں حالت کے بارے میں جاننا چاہا تو انہوں نے کہا کہ اطراف کے محلوں اورعلاقوں سے بچے اردو اسکولوں میں نہیں آتے یہاں تو دور دراز کی جھوپڑ پٹیوں سے غریب و نادار بچے ہی آتے ۔ان کو یہاں تک لانے کیلئے کافی مشقت کرنی ہوتی ہے ۔انہیں پاس بنواکر دینا ہوتا ہے ساتھ ہی ان سے اسکول ڈریس بھی دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے تب کچھ بچے آتے ہیں ۔سید صبغت اللہ نے بتایا کہ سب سے زیادہ برا اثر یہاں پرائمری کے بند ہونے سے ہوا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ دو سال قبل ہم لوگوں نے تین ماہ کوشش کی تو ۱۵ ؍بچوں کے داخلہ کو ممکن بنا پائے ۔
معلوم یہ ہوا کہ اردو اسکول کی جانب سے جان بوجھ کر غفلت برتی جارہی ہے تاکہ ٹرسٹی اسے ایک منفعت والی جگہ میں تبدیل کرسکیں ۔لیکن اسکول کے پرنسپل اس سے انکاری کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’نہیں وہ اگر ایسا کرنا چاہتے تو کئی سال قبل ہی اسے بند کردیا جاتا ‘ سیدصبغت اللہ نے کہا کہ سلیم بیگ محمد مرحوم اور رشید عمر بیگ محمد کے دور میں کافی دبائوڈالا گیا کہ اسے کمرشیل مقاصد کیلئے استعمال کریں لیکن ان لوگوں نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے اردو اسکول قائم کیا تھا ہم اردو اسکول کے طور پر ہی چلائیں گے ۔دو تین سال قبل جب اسمعیل بیگ محمد اردو اسکول بند کرکے اسے انگلش میڈیم میں تبدیل کرنے کی بات عام ہوئی تھی اس وقت سماجی کارکنوں نے پہل کرکے اسے روکا تھا لیکن پرنسپلکہتے ہیں کہ اس کے بعد کوئی پوچھنے تک کو نہیں آیا کہ اسکول کی حالت کیا ہے اس میں کتنے بچے زیر تعلیم ہیں ۔
ہم نے اس سلسلے میں اس حلقہ کے ایم ایل اے امین پٹیل سے گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ ’اسمعیل بیگ محمد ایک نجی ٹرسٹ کے ذریعہ جاری اسکول ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسمعیل بیگ محمد ٹرسٹ والے اردو اسکول جاری رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن اگر انہیں لگتا ہے کہ میں ان کی کچھ مدد کرسکتا ہوں تو اس حلقہ کا عوامی نمائندہ ہونے کے ناطے میں ان کی مدد کو تیار ہوں ،جو بھی مدد ممکن ہو سکے گی ہم کریں گے ‘۔
تعلیمی شعبہ سے جڑے سماجی کارکن اور معلم ڈاکٹرکاظم ملک کی بھی رائے یہی ہے کہ مذکورہ ٹرسٹ اردو اسکول جاری رکھنے کی خواہش نہیں رکھتا یہی سبب ہے کہ وہ اسکول کی جانب سے عدم توجہی برت رہے ہیں ۔کاظم ملک کہتے ہیں کہ اگر ان سے اسکول ٹھیک ڈھنگ سے نہیں چل پارہا ہے تو وہ ہم لوگوں سے کہیں ہم اسے کامیابی کے ساتھ چلا کر دکھائیں گے ۔کاظم ملک نے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ اسمعیل بیگ محمد ٹرسٹ والے اردو ہائی اسکول کو انجمن اسلام کے حوالے کردیں ۔لیکن یہ پوچھے جانے پر انجمن اسلام تو خود اپنے اردو اسکولوں کو انگلش میڈیم اور سیمی انگلش میڈیم میں تبدیل کررہا ہے پر ان کا جواب تھا انجمن اسلام دوسروں سے بہتر طرز پراردو اسکولوں کو چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
ایک کے بعد ایک اردو اسکولوں کی بگڑتی حالت اور اس کے بند ہونے کا سلسلہ کب رکے گا ،رکے گابھی یا نہیں ؟اندازہ تو یہ ہے کہ اردو اسکولوں کے بند ہونے کا یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے ۔مدنی اسکول جوگیشوری کے معلم اور تعلیمی میدان سرگرم عامر انصاری ان حالات سے کافی مایوس ہیں اسمعیل بیگ اسکول سے متعلق انہوں نے کہا ’اب کچھ نہیں ہو سکتا ہمیں بہت پہلے جاگنا چاہئے تھا ۔ایک بار مریض آئی سی یو میں چلا جائے تو پھر دعائوں کی سہارا ہوتا ہے‘۔اس کی وجہ قوم میں انگلش میڈیم سے اپنے بچوں کو تعلیم دینے کی ہوڑ سی لگی ہوئی ہے ۔اس حالت پر ایم ایل اے امین پٹیل کہتے ہیں ’آج وہ وقت آگیا ہے کہ معمولی مزدوری کرنے والے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ انگلش میڈیم میں پڑھیں ‘۔اردو میڈیم اسکولوں کے بند ہونے کی اصل وجہ یہی فکری تبدیلی ہے ۔پرنسپل سید صاحب کہتے ہیں ’انگلش میڈیم ترقی کی ضمانت نہیں ہے ۔آج بھی ہم نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو بہترین تاجر یا بیوروکریٹس اردو میڈیم سے ہی ہیں ۔ یہ محض مفروضہ ہے کہ انگلش میڈیم تری کی ضمانت ہے ‘۔اگر اردو میڈیم اسکولوں کو بچانا ہے تو ہمیں قوم کے اس مزاج کو بدل کر اردو میڈیم میں بچوں کو بھیجنا ہوگا ۔یہی واحد راستہ ہے ۔