صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

لاک ڈاؤن میں تباہ معیشت کے سبب تقریباً 7 لاکھ چھوٹی کرانہ دکانیں بند ہو جائیں گی

214,568

ہندوستان میں کورونا وائرس کا قہر جاری ہے۔ کورونا وائرس وبا کو روکنے کے لیے مرکزی حکومت کے ذریعہ کیے گئے ملک گیر لاک ڈاؤن کا معیشت کو زبردست نقصان ہو رہا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ چھوٹی اور بڑی دونوں طرح کی کمپنیوں کی حالت خراب ہو گئی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ پریشانی ملک کے چھوٹے کرانہ دکانداروں کو اٹھانی پڑ رہی ہے۔

ایک نیوز پورٹل پر شائع خبر کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 7 لاکھ چھوٹی کرانہ کی دکانوں پر لاک ڈاؤن کا زبردست منفی اثر پڑتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ یہ دکانیں بند ہونے کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ ان دکانوں سے کروڑوں لوگوں کو روزگار ملا ہوا ہے اور ان کی روزی-روٹی اسی سے چلتی ہے۔ یہ دکانیں گھروں یا گلیوں میں چل رہی ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں تقریباً ایک کروڑ چھوٹے کرانہ دکاندار ہیں۔ ان دکانداروں کو سامان کو فروخت کرنے کے لیے اس کو درآمد کرنا پڑتا ہے۔ ایک کروڑ چھوٹے کرانہ دکانداروں میں سے تقریباً 6 سے 7 فیصد دکاندار سامان لانے اور دکان تک لے جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ملک بھر میں پچھلے دو مہینے سے لاک ڈاؤن ہے جس کی وجہ سے نہ ہی یہ سامان لا پا رہے ہیں اور نہ ہی دکان کھول پا رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں ان کے سامنے دکان کی پونجی ٹوٹنے کی نوبت آ گئی ہے۔

لاک ڈاؤن ہٹنے کے بعد بھی چھوٹے کرانہ دکانداروں کے لیے راہ آسان نہیں ہے۔ صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ نقدی کی قلت اور گاہکوں کی کمی ان کے لیے اب بڑا چیلنج ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ عام طور پر کرانہ دکانداروں کو تھوک تاجر یا صارف مصنوعات بنانے والی کمپنیاں 7 سے 21 دن یعنی دو سے تین ہفتے کے قرض پر مال دیتی ہیں۔ معیشت میں غیر یقینی کی وجہ سے سبھی ڈرے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے قرض پر مال ملنا مشکل ہوگا۔ ایسے میں ان دکانوں کا دوبارہ کھلنا بہت مشکل ہوگا۔

ایسا نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن میں صرف چھوٹے کرانہ دکاندار پریشان ہیں۔ اس پریشانی سے بڑی کمپنیاں بھی نبرد آزما ہیں۔ چھوٹی کرانہ دکانیں بند ہونے سے بڑی کمپنیوں کی پریشانیاں بھی بڑھنے والی ہیں۔ نیلسن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں کل کرانہ پروڈکٹ کی فروخت میں قیمت کے حساب سے چھوٹی کرانہ دکانوں کی حصہ داری 20 فیصد ہے۔

خوردہ کاروباریوں کی تنظیم کیٹ کے جنرل سکریٹری پروین کھنڈیلوال کا کہنا ہے کہ ان دکانوں پر دودھ، بریڈ، بسکٹ، صابن، شیمپو اور کولڈ ڈرنکس کے ساتھ روزمرہ کی کئی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں جو زیادہ تر بڑی کمپنیاں بناتی ہیں۔ ایسے میں چھوٹی کرانہ دکانیں بند ہونے سے بڑی کمپنیوں پر بھی اثر پڑنا طے ہے۔ کھنڈیلوال کا ماننا ہے کہ چیلنج جتنا بڑا نظر آ رہا ہے اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.