ممبئی یونیورسٹی میں شعبئہ فارسی کے زیر اہتمام اسٹوڈنٹس سمینار کا انعقاد
ممبئی : (انصاری حنان) گزشتہ دنوں ممبئی یونیورسٹی میں شعبئہ فارسی اور الومنائی کی جانب سے ایک مشترکہ سمینار برائے طلبہ منعقد کیا گیا جس کا عنوان ’ہندو ایران کے مابین ثقافتی تعلقات‘ تھا سمینار کے افتتاح کے بعد صدر شعبہٴ فارسی ممبئی یونیورسٹی ڈاکٹر سکینہ خان نے معزز مہمانانِ کرام کا استقبال کیا ۔ سمینار کی صدارت شعبہ کی سابق صدر ڈاکٹر شائستہ خان نے انجام دی جبکہ سمینار میں مہمانِ خصوصی کے طور پر مشہور کالم نگار ڈاکٹر ظہیر انصاری ، معروف شاعر قاسم امام ، ممبئی یونیورسٹی شعبئہ سماجیات کے پروفیسر و یونیورسٹی ٹیچرس اسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر بالاجی کیرتیکر نے شرکت کی ۔ نظامت کے فرائض شعبہ کے استاد اشفاق حسین مرتضوی نے انجام دیئے سمینار کی خصوصیت یہ رہی کہ اس میں شعبہ کے زیرِ تعلیم طلبہ کی کثیر تعداد نے حصہ لیا جن میں شعبہ کے ریسرچ اسکالرس ، ایم اے ، ایڈوانس ڈپلوما ، ڈپلوما ، فارسی میں سرٹیفکیٹ بیچ کے طلبہ و طالبات کی ایک بڑی تعدات ایسی تھی جنہوں نے شعبہ کے اس سمینار میں فارسی زبان سے متعلق اپنے اپنے معلوماتی مقالات سامعین کے سامنے پیش کئے
جن میں فارسی ، اردو ، اور انگریزی زبانوں میں مقالات شامل ہیں ، سمینار کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ مقالات پیش کرنے والوں میں نہ صرف فل ٹائم بیچ کے طلبا تھے بلکہ پارٹ ٹائم بیچ کے طلبا کو بھی شعبہ کی جانب سے حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی جس سے طلبا نے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنی جانب سے بہتر سے بہتر اور معلوماتی پرچے سمینارمیں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے نظر آئے اسٹوڈنس سمینار کا مقصد یہ تھا کہ طلبہ اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کر سکیں اور انکی صلاحیت کا اظہار ہو کہ جب وہ اپنے ریسرچ کر رہے ہوں یا اپنے پی ایچ ڈی کے دوران کسی سمینار میں شرکت کر رہے ہوں تو انہیں حصہ لینے اور اپنا مقالہ پیش کرنے میں کسی طرح کا کوئی ڈر اور خوف نہ محسوس ہو وہ بلا جھجک اپنے علم اور اپنی صلاحیت کو استعمال میں لا سکیں اور اپنے اندر کی خوبی و صلاحیت کو دنیا کے سامنے ظاہر کرتے ہوئے اپنے علم کی روشنی پھیلائیں
ڈاکٹر ظہیر انصاری نے اپنی تقریر میں کہا کہ تمام طلبہ نے اپنے اپنے معلوماتی مقالات سے ایک علمی ماحول پیدا کردیا تھا اور ہم طلبہ کی بدولت یہیں سمینار میں بیٹھے بیٹھے ایران بھی گھوم آئے اور وہاں کا ذائقہ بھی چکھ لیا مجموعی طور پر سمینار بہت ہی عمدہ اور معلومات کا خزانہ تھا ، ڈاکٹر قاسم امام نے اپنے خطبہ میں کہا کہ سبھی طلبہ کے مقالات بہت ہی گہری معلومات پر مبنی تھے اور ہمیں ایسا بالکل بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ ہم کسی اسٹوڈنس سمپوزیم یا اسٹوڈنٹس سمینار میں بیٹھے ہیں بلکہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم کسی جید عالم اور تجربہ کار مقالہ نگاروں سے مقالات سماعت کر رہے ہوں مجھے ایک مقالہ تو اس قدر علمی محسوس ہوا کہ میں نے اپنے دل میں یہ ارادہ کر لیا کہ اب ہمیں یہاں سے چلنا چاہئے کیوں کہ اتنے گہرے معلوماتی مقالات سننے کے بعد ان باصلاحیت اشخاص کے سامنے ہمارا کچھ کہنا چھوٹا منہہ اور بڑی بات ہو سکتی ہے
ڈاکٹر بالاجی کیرتیکر نے اپنے مختصر سے کلام میں اس بات کا اقرار کیا کہ سمینار واقعی بہت ہی اعلی قسم اور معنی خیز رہا جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ شعبہٴ فارسی کی صدر ڈاکٹر سکینہ خان اور شعبہ کے تمام اساتذہ کرام اپنے طلبہ کو لیکر کتنے سنجیدہ ہیں بعد اذاں شعبہ کی سابق صدر ڈاکٹر شائستہ خان نے بطور صدرِ جلسہ اپنا صدارتی خطبہ پیش کیا انہوں نے سمینار میں مقالہ پیش کرنے والے تمام شرکاء طلبہ و طالبات کو ڈھیروں مبارک باد دیں اور انکی ہمت افزائی کی انہوں نے مزیر کہا کہ فارسی کے طلبہ کو چاہئے کہ ایسے سمینار میں ملک ایران اور فارسی زبان و ادب پر ابھی اور مقالات کی ضرورت ہے
ڈاکٹر شائستہ خان نے شعبہ کی کاوشوں اور خصوصاً صدر شعبہ ڈاکٹر سکینہ خان کو بہت بہت مبارک باد پیش کی اور کہا کہ یقیناَ سکینہ خان اور اس شعبہ کے تمام اراکین نے اس سمینار کو کامیاب کرنے میں اپنی جانب سے پوری کوشش کی ہے اور اس بات کا ثبوط ہمیں طلبہ کی تیاری اور انکے علمی و معلوماتی مقالات سے ملتا ہے سمینار میں مقالات پیش کرنے والے طلبا کو شعبہ کی جانب سے سرٹیفکیٹ بھی دیئے گئے آخر میں صدر شعبہ ڈاکٹر سکینہ خان نے صدر جلسہ و تمام شرکائے مجلس ، مہمانانِ خصوصی اور طلبہ کا شکریہ ادا کیا اور اسی پر سمینار کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔