صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

حمّالی کی تربیت 

1,310

ممتاز میر
چار سال سے دیش واسیوں کولاگومودی سرکارجو تھی سو تھی سونے پہ سہاگہ اتر پردیش میں یوگی سرکار آگئی ۔ یوگی آدیتیہ ناتھ کی زندگی سماج میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنے میں گزری ہے اس لئے یہ یقین تھا کہ راج دھرم نبھانا ان کے بس کی بات نہیں اس لئے وہ حکومت کرنے کی بجائے مسلمانوں کے بسائے ہوئے پرانے شہروں کا نئے سرے سے نام کرن کررہے ہیں ۔ مگر یہ بیماری نئی نہیں ہے ۔ کم کم مگر کانگریس میں بھی یہ بیماری رہی ہے ۔ ستمبر ۱۹۸۵ تک ایک وزارت ہوا کرتی تھی جس کا نام ہوا کرتا تھا منسٹری آف ایجوکیشن جسے اردو میں وزارت تعلیم کہا جاتا تھا ۔ کانگریس نے اس کا نام معمولی سے غیر معمولی یا بڑا بھاری کردیا ۔ ستمبر ۱۹۸۵ کے بعداسے HRD MinistryیاHuman Resource Development Ministry اردو میں اسے ترقیات انسانی وسائل کہہ لیں ۔

ہم ہندوستانی مغرب کے تعلق سے بڑی مرعوبانہ ذہنیت رکھتے ہیں ۔یہ نام رکھ کر یہ سمجھ لیا گیا کہ اس کو چلانے والا شخص خود بخود دانشور بن جایا کرے گا۔اسی لئے جناب نریندر مودی نے مسند وزارت عظمیٰ پر فائز ہوتے ہی اپنی چہیتی محترمہ سمرتی ایرانی کواس بھاری بھرکم ایچ آر ڈی منسٹری کی سربراہ بنادیا تھا ، کیوں ؟ وجہ صرف یہ تھی کہ محترمہ سمرتی ایرانی کی تعلیمی لیاقت کا پتہ دوست کیا دشمن بھی صحیح طریقے سے آج تک نہ لگا سکے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس بھاری بھرکم وزارت کی سربراہی سے دوست کیا اور دشمن کیا سب ہی انھیں بلا تردد پی ایچ ڈی تسلیم کر لیتے مگر ہوا بالکل الٹا ۔ دشمنوں نے انھیں بالکل ہی ان پڑھ کی سطح پر پہونچانے کی کوششیں شروع کردیں ۔نریندر بھائی مودی نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور میں یہی ایک کام بروقت اور درست کیا کہ اپنی منظور نظر کو اس ہیوی ڈیوٹی وزارت سے ہٹا کر حاشیے پر ڈال دیا اب اس بڑی وزارت کی ذمے داری جناب پرکاش جاؤڈیکر سنبھال رہے ہیں۔جب سے یوگی جی نے نام بدلنے کی مہم شروع کی ہے اخبارات میں کچھ جملے تواتر سے آرہے ہیں ۔ مثلاً نام میں کیا رکھا ہے ،نام بدل دینے سے کام نہیں بدلتا یا نام بدل جانے سے نیت اور عمل نہیں بدل جاتا وغیرہ ۔
چند دنوں پہلے اخبارات میں اور ٹی وی پر بھی ایک خبر نظر سے گزری جسمیں بتایا گیا ہے کہ وزارت ترقیات انسانی وسائل نے تعلیمی اداروں کے لئے طلبا کی ہمدردی میں دیر آید درست آید کے مصداق ایک فرمان جاری کیا ہے جس کا پہلا نکتہ یہ ہیکہ پہلی اور دوسری جماعتوں کے طلبا کو ہوم ورک نہ دیا جائے۔یہ طلبا کے ساتھ نہیں ان کے والدین کے ساتھ ہمدردی ہے بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر والدین کو ہی ہوم ورک کرنا ہے تو اگلی کلاسس کو بھی ہوم ورک نہ دیا جائے۔اس کے عوض خود والدین کی دو چار ماہ میں ایک کلاس لگالی جائے اور ان کی تربیت کی جائے کہ پڑھنا ان کو نہیں بچوں کو ہے اس لئے ہوم ورک بھی انھیں ہی کرنے دیا جائے ۔ خیر ، یہاں تک تو فرمان ٹھیک تھا مگر اس کے آگے جو فرمایا گیا ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔آگے تعلیمی اداروں کو کہا گیا ہے کہ پہلی اور دوسری جماعت کے بستے کا وزن ڈیڑھ کلو تک ہونا چاہئے ۔ تیسری سے پانچویں جماعت تک کے بستے کا وزن ۲ سے ۳ کلو تک ہونا چاہئے ۔ چھٹی اور ساتویں کلاس کے بستے کا وزن چار کلو ہونا چاہئے آٹھویں اور نویں کلاس کے بستے کا وزن ساڑھے چار کلو اور دسویں کلاس کے بستے کا وزن بس پانچ کلو سے زیادہ نہ ہو۔بخدا اس فرمان کو پڑھتے وقت جو پہلا خیال ہمارے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ اس فرمان کو مرتب کرتے وقت کسی ماہر حمّال؍قلی سے مدد لی گئی ہے ۔جب کہ ہم آج تک یہ سمجھتے رہے کہ وزارت ترقیات انسانی وسائل ( بدقسمتی سے ہم آج تک اس وزارت کو وزارت تعلیم ہی سمجھتے رہے ہیں ۔

آج پتہ چلا کہ حمالی کے ذریعے انسانی صلاحیتوں کو ترقی دی جارہی ہے) میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا اچھاخاصہ گروہ موجود ہوتا ہوگااور وہ وطن عزیز کے بچوں پر پیدا ہوتے ہی یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم دینے کے لئے اتنا بوجھ لاد رہے ہیں ۔ اس پر جناب عمر فراہی نے اپنے ایک مضمون میں سوال اٹھایا تھا کہ بچوں کو اتنی بھاری بھرکم تعلیم دینے کے بعد بھی سائنسداں کیوں پیدا نہیں ہورہے ہیں؟سوال یہ ہے کہ یہ فرمان جاری کرتے وقت قلیوں کا انداز کیوں اختیار کیا گیا ؟ فرمان نصاب پر مبنی ہونے کی بجائے وزن پر منحصر کیوں ہے ؟ کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ وزارت تعلیم جاہلوں کی طرح گائڈ لائنس دے ۔معلوم نہیں National Curriculum Framework کب وجود میں آیا ۔ مگر اس نے ۱۹۷۵،۱۹۸۸ ،۲۰۰۰ اور ۲۰۰۵ میں تمام تعلیمی نیٹ ورک کو نصاب بنا کر دیا ہے ۔ یہ شاید۱۹۷۵ سے کچھ پہلے ہی وجود میں آیا ہوگا اور غالباً تبھی سے بچوں کے بستے کا بوجھ بڑھنا شروع ہوا ہے بہت شور مچنے کے بعد اب یہ لوگ چاہ رہے ہیں کہ تعلیم بغیر بوجھ کے دی جائے ۔

مگر پرائمری ،مڈل اور ہائی اسکول والوں کو برسوں کی حمالی کے بعد یہ سمجھ نہیں پڑ رہی ہے کہ اسے کیسے ممکن بنا یا جائے؟ یہ صرف فرمان جاری کر دینے سے تو ممکن نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ فی زمانہ ہر طرف مودی سرکار کے احکامات کو طاق پر رکھنے کی ہوڑ مچی ہوئی ہے مودی جی برسوں پہلے گئو رکھشکوں کو غنڈے کہہ چکے ہیں اور ان کے اقوال کا اثر یہ ہے کہ اب دن دہاڑے اہم پولس افسر قتل کئے جارہے ہیں پھر وزارت تعلیم کے احکامات کی اندیکھی تو لاء اینڈآرڈر کا مسئلہ بن نہیں سکتا جس کی پرواہ کی جائے ۔ خیر، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ رہنما ہدایات کچھ یوں ہوتی کہ پہلی اور دوسری میں بچوں کو یہ اوریہ پڑھایا جانا چاہئے تیسری سے پانچویں تک بچوں کو ان مضامین کا علم ہوجانا چاہئے ۔ اسی طرح بالترتیب چھٹی ، ساتویں ، آٹھویں ، نویں اور دسویں کے بچوں کے لئے نصاب مرتب کیا جاناچاہئے تھا ۔
ہماری تعلیم بھی مہاراشٹر میں ہوئی ہے اور ایچ آر ڈی منسٹر کا تعلق بھی مہاراشٹر سے ہی ہے ۔ وقت بھی شاید وہی ہو یعنی ۵۵؍۶۰ سال قبل جو بھی ہو ہم انھیں ایک ٹپ دیتے ہیں ۔ پہلی دوسری میں ہم سلیٹ،چونے کی قلم اور مادری زبان کی ایک کتاب ، وہ بھی پتلی سی بستے میں رکھ کراسکول جاتے تھے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وطن عزیز میں ایسے ماہرین تعلیم موجود ہیں جو ایچ آر ڈی منسٹری کے سارے مسائل حل کر سکتے ہیں۔مگر حکومت کو ماہرین کی ضرورت نہیں ۔ وہ رگھو رام راجن جیسے بین الاقوامی معاشی ماہر کو اسلئے نکال دیتی ہے کہ وہ ان کے ساز پہ رقص نہیں کر سکتا تھا ۔ انھیں تو وہ گدھے چاہئے جو ان کی آواز پہ ڈھیچوں ڈھیچوں کر سکیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137

Leave A Reply

Your email address will not be published.