صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

مسلمانوں کے یہ لال بجھکڑ

1,530

ہمارے یہاں لال بجھکڑوں کی کمی نہیں۔واقعتاً صورتحال ایسی ہے کہ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔۴ سال میں بی جے پی نے مسلمانوں کو اس طرح دھویا ہے کہ کم وبیش ہر لیڈر عقلی اعتبار سے دیوالیہ ہو گیا ہے۔اب مسلمانوں کا ہر لیڈر دوبارہ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر آمادہ ہو گیا ہے جس کے سبب نوبت یہاں تک پہونچی ہے۔یہ ہے برہمنوں کا جادو۔
آجکل خبر گرم ہے کہ بعد از خرابیء بسیار ’ہمدرد قوم ،خادم ملت‘محترم جناب سلمان خورشید صاحب کو اپنے اور کانگریس کے ہاتھوں پر مسلمانوں کے خون کے دھبے نظر آگئے ہیں۔یہ بہر حال تحقیق کا موضوع رہے گا کہ یہ خون کے دھبے کن پاک نفوس کے تھے جو تیسری نسل کے ہاتھوں پرنظر بھی آئے ہیں اورزبان خنجر کے چپ رہنے کے باوجود آستین کے لہو کی صورت جنھوں نے پکارا بھی ہے۔دراصل ہم نہیں سمجھتے کہ مسلم لیڈروں کو مسلمانوں کے خون کے دھبے اپنے ہاتھوں پر نظر آتے ہوں۔مگر یہ بھی ممکن ہے کہ انھیں نظر بھی آتے ہوں راتوں کو خوابوں میں ڈراتے بھی ہوں مگر سب سے بڑا ڈر خدا کا ۔ارے نہیں جی ،پارٹی ہائی کمان کا ۔خدا تو جب سزا دے گا ،تب دے گاپارٹی ہائی کمان تو بالکل نقدا نقد سزا دیگی۔اب لیجئے ،سلمان خورشید کو ہی دیکھ لیجئے۔اخبارات میں سب سے پہلے تو یہ خبر آئی کہ پارٹی نے فوراً اپنے آپ کو ان کے بیان سے الگ کر لیا۔یہ وہ کم سے کم قدم ہے جو پارٹی فوراً اٹھا سکتی تھی ۔بعد میں جو تبصرے نظر سے گزرے وہ یہ کہتے ہیں کہ اب کانگریس میں جناب سلمان خورشید کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی۔یا تو انھیں پارٹی چھوڑنا ہوگی یا انھیں حاشیے پر ڈال دیا جائے گا۔ہم خود بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سلمان خورشید نے یہ کارنامہ بغیر سوچے سمجھے تو انجام نہ دیا ہوگا؟اتنے بڑے سیاستداں نے انجام تو پہلے سوچا ہوگا۔یقیناً اب وہ کوئی اور در دیکھیں گے ۔مگر سیاستداں دنیا کی وہ مخلوق ہے جس کے تعلق سے کچھ بھی کہنا ایک مشکل امر ہے۔اگرہماری مانیں تو انھیں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر بیٹھ جانا چاہئے اور اللہ اللہ کرنا چاہئے۔کیونکہ وطن عزیز میں کوئی پارٹی ایسی دودھ کی دھلی نہیں جس کے دامن پر مسلمانوں کے خون کے داغ نہ ہوں ۔کچھ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کا ہونا ممکن ہے ۔مگر سلمان خورشید جیسابڑا لیڈر اتنی چھوٹی پارٹی میں سمائے گا کیسے؟دوسری طرف سیاست وہ سانپ ہے جسے پکڑ کر چھوڑا جائے تو عموماً وہ چھوڑنے والے کو ڈس لیتا ہے ۔بلکہ لالو یادو جیسے بھی کچھ بد نصیب ہیں جنھیں بغیر چھوڑے بھی ڈس لیا جاتا ہے۔
سلمان خورشید کو معلوم ہونا چاہئے کہ کانگریس کلچر کیا ہے ؟وہ تو خاندانی کانگریسی ہیں۔ان کے والد کانگریس کے مہارتھی رہے ہونگے ان کے نانا صدر جمہوریہء ہند اور بڑی توپ رہے ہونگے ۔کچھ بھی ہو مگر ہیں تو مسلمان ۔حیرت ہے کہ اتنے بڑے کانگریسیوں کی اولاد اور کانگریس کلچر سے نابلد ۔ارے، کانگریس میں تو سنیل دت جیسے ہندو کو برداشت نہ کیا گیا ۔سنیل دت کا قصور کیا تھا؟صرف اتنا کہ ۹۲؍۹۳کے ممبئی فسادات میں خود انکی پارٹی کانگریس کی انتظامیہ ان کے حلقہء انتخاب میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ریلیف کے کام میں مزاحم ہو رہی تھی۔پنجابی مرد آدمی تھا ۔یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ اگر میں اپنے علاقے کے لوگوں میں ریلیف کا کام نہیں کر سکتا تو مجھے ایم پی بنے رہنے کا حق نہیں ۔اور انھوں نے یہ اس وقت کیا جب بڑ ے بڑے ایمان والے چوڑیاں پہنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔سنیل دت کی جراء ت رندانہ کا نتیجہ کیا نکلا؟اس کے لڑکے کو ایک معمولی کیس میں پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا۔اسے ضمانت تک کسی کانگریسی کی مدد سے نہ ملی۔بلکہ ضمانت کے لئے سنیل دت کو بال ٹھاکرے کے سامنے جھکنا پڑا۔مگر نہ کسی کانگریسی کو شرم آئی نہ ہائی کمان کو غیرت۔یہ سب اس زمانے کی باتیں ہیں جب سنجے دت انتہائی لا ابالی اور بچکانہ طرز عمل کا حامل شخص تھا۔اور اسی زمانے میں بڑے بڑے سیاستداں داؤد ابراہیم کے حلقہ بگوش تھے۔یہاں تک کہ اس کے آدمیوں کے فرار کروانے میں بلکہ لانے لے جانے میں بڑے فخر سے اپنی خدمات پیش کرتے تھے۔یہ کوئی خفیہ معلومات نہیں۔انٹرنیٹ پر تمام تفصیلات نام اور پتوں کے ساتھ دستیاب ہیں۔مگر پکڑا گیا بے چارہ سنجے دت،کیوں ؟ کیونکہ اس کے باپ کو مسلمانوں کی مدد کرنے کی کھجلی تھی؟
بہت پرانی بات نہیں ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔کانگریس میں ایک بڑے دگج مسلم لیڈر ہوا کرتے تھے عبدالرحمٰن انتولے۔ان کے سر یہ سہرا ہے کہ ایمرجنسی کے بعد جب کانگریس کے بڑے بڑے مہارتھی اندرا گاندھی کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے یہ اندرا گاندھی کا دامن پکڑے کھڑے تھے۔مگر صلہ کیا ملا سب سے پہلے اندرا گاندھی نے ہی انھیں کان پکڑ کر وزارت سے نکالا۔پھرابھی ۲۰۰۸ میں پارٹی ہائی کمان کی اجازت کے بغیر مسلمانوں کے حق میں منہ کھولنے کی بنا پر انھیں درس عبرت بنا دیا گیا۔حالانکہ انھوں نے بات مسلمانوں کے حق میں نہیں آر ایس ایس کے خلاف کی تھی۔
ضیا ء الرحمٰن انصاری بھی کانگریس کے ایک بڑے مسلم لیڈر تھے ۔بانس پہ چڑھ گئے۔ہائی کمان کی مرضی کے بغیر پارلیمنٹ میں مسلم پرسنل کی حمایت میں کئی تقریریں کردیں۔بعد میں کانگریسیوں نے ان کی زندگی تو زندگی موت بھی حرام کردی۔ایسے ہی ایک لیڈر یونس سلیم بھی ہوا کرتے تھے قوم کی حمایت انھیں بھی بڑی مہنگی پڑی۔اور یہ سب اس وقت کی باتیں ہیں جب کانگریس کو بطور ووٹ بینک مسلمانوں کی ضرورت تھی ۔آج تو وطن عزیز میں مسلمانوں کی ووٹ بینک کی حیثیت بھی نہیں رہی۔راجیو گاندھی ہوں یا سنجے گاندھی،راہل گاندھی ہوں یا ورون گاندھی ،یہ بنیادی طور پر پارسی باپ کی اولاد ہیں مگر انھوں نے کبھی اپنے آپ کو پارسی نہ سمجھا ۔مگر دوسری طرف ہندوستانی سیاست کے ایک بڑے حصے نے ان کو کبھی ہندو(کم سے کم ظاہر یہی کیا)نہ سمجھا۔جو بھی ہو پرانے گاندھیوں نے کبھی اپنے آپ کو یوں نمایاں نہ کیا جس طرح آج راہل گاندھی اپنے جینؤکی نمائش کرتے پھر رہے ہیں۔آج مسلم ووٹ بینک نام کی کوئی چیز کہیں موجود نہیں اور یہ کانگریس اور بی جے پی دونوں کی محنتوں کا ثمر ہے۔مسلمانوں کو اتنا توڑ دیا گیا ہے کہ وہ چاہ کر بھی متحدہ ووٹنگ نہ کر سکیں۔دوسری طرف حلقہ انتخاب کو اس طرح کانٹا چھانٹا،حذف و اضافہ کردیا گیا ہے کہ اگر کہیں غلطی سے بھی مسلمان یک طرفہ ووٹنگ کر بیٹھیں تو بھی ان کا امیدوار جیت نہ سکے۔پھر سرحدی علاقوں میں تو ان کی شہریت ہی مشکوک بنائی جارہی ہے ۔غرض کہ مسلمانوں پر چو طرفہ حملے ہیں۔اور ہر حملے میں بنیادی ہاتھ کانگریس کا ہی ہے۔مسلمانوں کا کونسا مسئلہ ایسا ہے جس کی بنیاد کانگریس نے نہ رکھی ہو۔بابری مسجد کا مسئلہ ،بنیاد کانگریس نے رکھی۔مسلم پرسنل کا کا مسئلہ ،بنیاد میں کانگریس کا ہی ہاتھ نظر آئے گا۔یونیورسٹیوں کا اقلیتی کردار،وہاں بھی کانگریس کا ناٹک نظر آئے گا۔سرحدی مسلمانوں کی شہریت کا مسئلہ ۔اپنے مفادات کے مطابق کانگریس نے اسے استعمال کیا۔ٹاڈا اور پوٹا کو خاص مسلمانوں کو ذہن میں رکھ کر وجود میں لایا گیا تھا ۔ظاہر یہ کیا گیا تھا کہ دہشت گردانہ کارروائیوں کو کنٹرول کرنا مقصد ہے۔مگر ان کالے قوانین کے تحت کشمیر پنجاب اور شمال مشرقی ریاستوں میں اتنی گرفتاریاں نہیں ہوئیں جتنی کانگریسی ریاست مہاراشٹر میں مسلمانوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے اس کا استعمال کیا گیا۔جب بین الاقوامی سطح پر اس پر تنقید شروع ہوئی تو ۱۹۹۵ میں اسے مار دیا گیا۔مگر قارئین کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ وطن عزیز کی عدالتوں میں آج بھی مسلمان ان کالے قوانین کے تحت مقدمے بھگتارہے ہیں۔اس طرح یہ دونوں برہمن پارٹیاں دنیا میں دیش کا مذاق بناتی رہتی ہیں۔الغرض وطن عزیز کی آزادی کے بعد مسلمانوں سے کانگریس اور بی جے پی نے کھلونے کی طرح کھیلا ہے۔اور وہ لوگ بھی جو آج کانگریس کی چمچہ گیری کرتے پھر رہے ہیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر آج کانگریس دوبارہ بر سر اقتدار آجائے تواپنا یہ کھیل مزید شدت سے کھیلے گی ۔کیونکہ اگر اب وہ جیتی تو مسلمانوں کی نام نہاد منہ بھرائی کے بل پر نہیں جینؤ کی نمائش کے بل پر جیتے گی ۔سوچئے کہ اب وہ مسلمانوں کی کیا حالت کرے گی؟
یہ وہ حالات ہیں جن میں کرناٹک میں ۱۲ مئی کو الیکشن ہونے والے ہیں۔کانگریس یہ چاہے گی کہ اس کا قبضہ برقرار رہے۔اس لئے مسلم ایمان فروشوں کو سرگرم کر دیا گیا ہے۔یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے پاس کانگریس یا بی جے پی کے سوا چارہ نہیں۔ہم اس سے پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ مسلمانوں کو کانگریس اور بی جے پی مکت بھارت کے لئے کام کرنا چاہئے۔ہجرت مدینہ کے بعد بھی بہت سے صحابہء کرامؓ مکہ میں رہ گئے تھے۔کیا انھوں نے اپنی زندگیاں ابو جہل اور ابو لہب کو سونپ دی تھیں۔اللہ ان کی طرح ہماری بھی حفاظت کا انتظام کر سکتا ہے ۔شرط یہ ہے کہ براہیم کا سا ایماں ہو۔
پچھلی مرتبہ تو کانگریس ۱۲۲،بی جے پی۴۳۔اورجنتا دل ایس۲۹ نشستوں پر الیکشن جیتی تھیں۔اس بار بہوجن سماج پارٹی جنتادل ایس سے ہاتھ ملا کر الیکشن لڑ رہی ہے۔اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی بھی اس بار کرناٹک کے انتخابی میدان میں اتر رہی ہے۔یعنی مسلمانوں کے پاس کرناٹک میں تین اور سیاسی پارٹیاں ہیں جنھیں وہ ووٹ دے سکتے ہیں ۔وہ پوری نیک نیتی اور ایمانداری سے اپنا کام کریں اور نتائج اللہ پر چھوڑ دیں ۔ویسے بھی اس ملک میں ان کا جود اللہ کا ہی رہین منت ہے ورنہ خود انھوں نے تو اپنے وجود کے خاتمے کے لئے سارے ہتھکنڈے اپنا رکھے ہیں۔

ممتاز میر

Leave A Reply

Your email address will not be published.