صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

ایک نئے بھارت کا خواب !

37,973

عمر فراہی

لوک سبھا الیکشن کے نتائج آنے کے بعد ہم نے ایک بہت ہی قریبی ہندو دوست سے کہا کہ مبارک ہو بھائی ای وی ایم جیت گئی ۔ انہوں نے کہا اگر ایسا ہوا بھی ہے تو یہ مودی جی کی کیدار ناتھ کی تیرتھ یاترا کا کمال ہے ۔ بھگوان کسی کا بھلا کرنا چاہے تو ساری تدبیریں فیل ہوجاتی ہیں ۔ حقیقت میں مودی جی کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے ۔ مجھے بھگوان کی اس مداخلت پر یاد آیا کہ ہمارے لوگوں میں بھی کچھ لوگوں نے ای وی ایم پر آیت الکرسی پڑھ کر ووٹ دینے کی اپیل کی تھی تاکہ ای وی ایم من مانی نہ کر پائے اور کچھ لوگوں نے نتیجے کے اس دن کو یوم الفرقان کا بھی نام دیا ۔ حالانکہ اس اعتقاد پر ایمان لانے والوں کی تعداد بہت کم تھی لیکن میں نے دیکھا مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد امریکہ میں بیٹھے ہوئےایک ایسے نفسیاتی مریض نوجوان سید شجاع کی باتوں پر بھی یقین کر رہی تھی جو شکل و صورت اور گفتگو سے ہی ممبئی کی زبان میں ٹپوری لگ رہا تھا ۔

خیر مسلمانوں کی اکثریت اب ایسے غیر سنجیدہ لیڈروں کو پسند کرتی ہے جو مودی اور یوگی سے دھمکی آمیز لہجے میں بات کر سکے ۔ ہمارے ہندو دوست نے یہی بات کہی کہ  ای وی ایم کے فراڈ اور کیدار ناتھ کی یاترا تو ایک مذاق کی بات ہے حقیقت یہ ہے کہ مودی سرکار کی حمایت میں فضا بنانے والے مودی جی کے مخالفین ہی تھے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ مسلمان ہیں اس لئے آپ کو اویسی برادران کی تقریروں سے خوف نہیں محسوس ہوتا ہوگا لیکن ہمارے بچے جب ان کی تقریریں سنتے ہیں تو ڈر جاتے ہیں۔بی جے پی کے لوگ خاص طور سے ان کی تقریروں کو ہندو نوجوانوں کے وہاٹس گروپ پر نہ صرف فارورڈ کرتے ہیں اس پر تبصرہ بھی ہوتاہے اور پھر گھر میں ایک فرد کی ذہنیت کبھی کبھی پورے گھر اور خاندان کی ذہنیت کو بدل دیتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بی جے پی کو ووٹ دینے والے یہ ہندو فرقہ پرست ہیں ۔ یہ ہندو ردعمل کی ذہنیت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

پھر عام ہندو ووٹر سیکولر پارٹیوں کو بھی ووٹ کیوں دے اس پورے الیکشن میں کیجریوال سے لیکر راہل گاندھی اور دیگر تمام سیاسی پارٹیوں نے مودی کا مذاق اڑانے کے سوا کیا ہی کیا ۔ انکے پاس بھی تو ملک کی ترقی کا کوئی منصوبہ نہیں تھا اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک پارٹی کی اتنی سیٹ ہی جیت جانے کی امید تھی کہ کوئی پارٹی کسی ایک پارٹی کے رہنما کی وزارت عظمی کے عہدے کیلئے متفق ہو جاتی ۔ یہ بات صحیح بھی ہے کہ بی جے پی میں بھی باصلاحیت قیادت کا فقدان ہے اور پورے ملک کی باگ ڈور صرف چند مخصوص ہاتھوں میں ہے لیکن اس کے باوجود یہ کہا جاتا ہے کہ وہ منظم ہے ان کے لوگ کام کرتے ہیں۔ان کے لوگوں نے سرمائے کی طاقت سے پریس اور سرکاری مشنری کو بھی اپنے ساتھ کر لیا ہے جبکہ حزب اختلاف کے لوگ صرف چند مخصوص اخبارات اور سوشل میڈیا پر واویلہ مچا کر الیکشن جیت لینا چاہتے ہیں جو اب بھارتی جمہوریت میں ناممکن ہے ۔

مسلم قیادت تو سیاسی طور پر اب صفر ہو ہی چکی ہے خود کانگریس کے صدر راہل گاندھی بھی میدان چھوڑ کر جانے کی تیاری میں ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ابھی بھی کچھ انصاف پسند ہندو صحافی اور دانشور وقتاً فوقتاً آواز اٹھانے کی جرأت کر رہے ہیں لیکن کب تک ۔ گجرات کے آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کو جس طرح تیس سال پرانے معاملے میں عمر قید کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا ہے ، اس انصاف پسند افسر کو بھی مسلسل موجودہ حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر متحرک ہونے کی سزا ملی ہے اور ابھی ایک اداکار اعجاز خان کو جس طرح صرف ہجومی تشدد پر فلمائےگئے ٹِک ٹاک شو کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے حکومت کے ارادے نیک نہیں ہیں ۔ حکومت اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو قانون کا سہارا لیکر دبا دینا چاہتی ہے ۔ الیکشن نتیجے سے ایک  دن پہلے بائیس مئی کو ہم نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر ایک مضمون ’ہندوستانی جمہوریت کا امتحان ۔۔! ‘Indian democracy on test پوسٹ کیا تھا ۔ اس کا ایک اقتباس پڑھ لیں ’یوں تو ای وی ایم میں کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ بہت آسان نہیں ہے لیکن اگر ایسا ممکن ہو سکا اور بی جے پی نے اس بدعنوانی سے اقتدار حاصل کر لیا تو پھر آئندہ پانچ سالوں میں اس کے لئے کوئی بھی غیر قانونی کام قانونی طریقے سے انجام دینا بہت آسان ہو جائے گا ! ہندوستان جتنا بڑا ملک ہے ایسا ممکن تو نظر نہیں آتا کہ فاشسٹ طاقتیں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں لیکن ملک میں جس طرح سیاسی قیادت کا فقدان ہے یہ فاشسٹ طاقتیں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کی غلطی ضرور کر سکتی ہیں‘ ۔

موجودہ حکومت نے ڈھائی مہینے میں ہی اپنا رخ ظاہر کرنا شروع کردیا ہے ابھی اس کے پاس پورے پانچ سال ہیں ۔ اس دوران اگر حزب اختلاف کی طرف سے کوئی مضبوط سیاسی قیادت ابھر کر سامنے نہیں آتی ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ بی جے پی پارلیمانی طرز سیاست کو ختم کرکے امریکہ ترکی اور ایران کی طرح صدارتی نظام کیلئے آرڈیننس لانے کی اس لئےکوشش کرے کیونکہ اس طرز سیاست میں صدر کو فوجی اختیارات اور ویٹو پاور حاصل ہو جاتے ہیں اور پھر آر ایس ایس کے جو عزائم ہیں وہ اپنی من مانی کر سکتے ہیں ۔ ہندو اکثریت کیلئے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک میں پارلیمانی نظام ہو یا صدارتی۔ہاں نئی نسل ہمیشہ کچھ نیا دیکھنا چاہتی ہے اگر اسے امریکہ جیسے ہونے کا خواب دکھایا گیا تو وہ ایک بار پھر بی جے پی کے اس فریب میں آسکتی ہے ۔ پھر بھی کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن جو غلط ہیں وہ ماضی کی غلطی دہرانے کی غلطی تو کر ہی سکتے ہیں کیونکہ وہ اٹھارہ سو ستاون کے بعد سے ہی ایک نئے بھارت کا خواب جو دیکھ رہے ہیں ! یہ بات چرچے میں آ بھی چکی ہے کہ آٹھ سو سال بعد پہلی بار بھارت میں ایک خالص ہندو حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے اور کیا یہ بغیر کسی منصوبہ بندی اور صرف کیدار ناتھ کی یاترا سے ممکن ہوا کہ 2019 کے الیکشن میں بی جے پی بغیر کسی مسلمان ممبر آف پارلیمنٹ کے لوک سبھا میں اکثریت کے ساتھ داخل ہوئی ہے ؟

مضمون نگار سے رابطہ کیلئے ای میل [email protected]

Leave A Reply

Your email address will not be published.