صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

اُردو صحافت کے ۲۰۰،سال بانی انقلاب عبدالحمید انصاری کی جدوجہد بھری زندگی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا،پچاسویں برسی پر خراج عقید

38,198

ممبئی ،7مارچ

مشہور صحافی اور بانی روزنامہ انقلاب عبدالحمید انصاری کی پچاس ویں برسی کے موقع پر آج جنوبی ممبئی میں بائیکلہ فائر بریگیڈ صدر کا قریب واقع ان کے نام سے منسوب چوک پر ان کے پرستاروں نے تختی پر گلہائے عقیدت پیش کیے اور ان کی صحافتی، سیاسی،سماجی اور ملک کی آزادی کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو یاد کیاگیا،اس موقع پر اردو مرکز کے ایڈوکیٹ زبیر،اردو کارواں کےفریدخان ،سعید خان ،مشیرانصاری ،جاوید جمال الدین اور دیگر نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔
حال میں اردواخبارات سے وابستہ صحافیوں کے بارے میں طرح طرح کی باتیں پیش کی جانے لگی ہیں اور یہ تاثر دیاگیاکہ ان کے بارے میں کوئی زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔یہ بات عبدالحمید انصاری کے سلسلہ میں بھی کہی گئی ہے۔لیکن حال میں بانی روزنامہ انقلاب عبدالحمید انصاری کے مشہور صحافی فرزند 84 سالہ خالد اے ایچ انصاری نے اپنی خودنوشت میں اپنے والد اور خاندان کے بارے میں تفصیل اپنی کتاب دی ونڈر فل ورلڈ میں بیان کی ہے ،کتاب کے باب اوّل میں تفصیل پیش کرتے ہوئے انہوں نے صحافی جاوید جمال الدین کی کتاب "عبدالحمید انصاری انقلابی صحافی اور مجاہد آزادی "کا حوالہ دیا ہے۔
خالد انصاری کے مطابق انیسویں صدی کے آخر میں انقلاب کے بانی عبدالحمید کے والد حافظ نظام الدین نے اترپردیش کے بارہ بنکی سے ممبئی ہجرت کی اور بنی بیگم سے شادی کی تھی۔مضافاتی علاقہ مرول اندھیری کی ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔خالدانصاری رقم طراز ہیں کہ جاوید جمال الدین کے وہ اس علمی تحقیق کے لیے شکر گزار ہیں، جنہوں نے ان کے والد کی سوانح عمری لکھی جس سے انہوں نے آزادانہ طور پر اقتباسات کو دوبارہ پیش کیے ہیں۔عبدالحمید، حافظ نظام الدین اور بنی بیگم کے پانچ بچوں (تین بیٹے اور دو بیٹیاں) میں سب سے چھوٹے تھے۔ نئے سال کے موقع پر، 1906 میں پیدا ہوئے۔
عبدالحمید کی زندگی اس وقت سے اتار چڑھاؤ سے بھری ہوئی تھی، جب انہوں نے اپنے والدین یعنی دونوں کو کھو دیا،اوریہ بحرانی دور 1972،میں اُن کی موت تک رہا،والدین کے انتقال کے وقت ان کی عمرصرف 10 سال کی ہوگی،ان کے شوہر کی موت کے فوراً بعد،عبدالحمیدکی ماں سخت کشمکش میں مبتلا ہوگئیں۔اور اس درمیان انہوں نے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کو کھو دیا، جب کہ ان کا سب سے بڑا بیٹا عبدالرحمن برطانوی فوج میں بھرتی ہوا اورجنگ میں شامل ہونے کے لیے بغداد چلا گیا۔ وہ دل شکستہ تھیں اور اپنے بچوں کے لیے تڑپتی ہوئی انتقال کرگئیں۔
عبدالحمید اور عبدالرحیم کی پرورش، سر ایم ڈی یوسف کے قائم کردہ یتیم خانے نہواشیوا(فی الحال نئی ممبئی)میں ہوئی۔انہوں نے جدوجہد آزادی میں حصہ لیا اور نمک ستیہ گرہ اور خلافت تحریک کے دوران جیل گئے ۔
1947 میں ہندوستان کی آزادی کے بعد، عبدالحمید نے اپنے کالم میں لکھا:” آج جو کچھ بھی میرے پاس ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور میں سر جھکاتا ہوں۔ اللہ کے فضل سے انقلاب نئی بلندیوں پر پہنچ گیا ہے۔ میں نے یہاں تک پہنچنے کے لیے بہت سی رکاوٹوں کو عبور کیا ہے۔ میں اپنے کالم "قصہ درد سناتے ہیں ، کیوں کے مجبور ہیں ہم” میں ان رکاوٹوں کا ذکر کرتا رہتا ہوں۔”انہوں نے پاکستان جانے سے انکار کردیا اور پھر روزنامہ انقلاب کو ایک کامیاب اخبار بنانے کی جدوجہد میں لگ گئے ۔ان کا ایک کالم قصہ درد سناتے ہیں،قارئین میں بہت پسند کیا جاتاتھا۔
خالد انصاری کے مطابق ممبئی کے وائی ایم سی اے میں ایک تقریب میں عبدالحمید نے ایک بار کہاکہ” آج ہمارے چہروں پر جو مسئلہ نظر آرہا ہے وہ فرقہ پرستی کا ہے۔ ہم سب کو اتحاد اور قومی یکجہتی کے لیے کام کرنا چاہیے۔‘‘
ایک اندازے کے مطابق عبدالحمید نے 300 سے زائد کالم (بہت سے موضوعات پر) لکھے تھے،جاویدجمال الدین رقم طراز ہیں کہ اس طرح انہوں نے قومی یکجہتی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، ہندی اور مراٹھی کی تعلیم اور سیکھنے کی اہمیت سے لے کر مختلف وجوہات کی حمایت کی ہے۔ یتیموں اور لڑکیوں کی تعلیم، معاشرے کے کمزور طبقات کے ساتھ یکجہتی کے لیے؛ انہوں نے کرپشن، مذہبی تعصب، شہری مسائل اور مختلف موضوعات پر بہت کچھ لکھاہے۔جس کا ذکرجاویدنے اُن کی سوانح حیات میں کیاہے۔
خالد انصاری کے مطابق عبدالحمید انصاری کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ حقیقی معنوں میں ایک مجاہد تھے۔ ایک متوازن فرد، جس نے ہمیشہ کسی بھی صورت حال کے نفع و نقصان کو احتیاط سے تول کر انگریزوں کے خلاف جدوجہد آزادی میں اپنے آپ کو جھونک دیا، یہ جانتے ہوئے کہ راستے میں رکاوٹیں کھڑی ہیں۔برسوں تک وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر نمک ستیہ گرہ (عدم تشدد مزاحمت) سمیت قوم پرست سرگرمیوں میں شامل رہے۔
ڈاکٹر رفیق زکریا رقم طراز ہیں کہ!عبدالحمید انصاری ایک مجاہد تھے، جو سراسر محنت اور عزم کی وجہ سے فتح یاب ہوئے، استقامت اور خود قربانی کا مظہر، انہوں نےصحافت پر اور دل و دماغ پر انمٹ نشان چھوڑے ہیں۔
کانگریس پارٹی کوعبدالحمید انصاری کے تعاون کا اندازہ لگانا چاہئے تھا۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہوا۔اگر کانگریس انہیں موقع دیتی تو وہ سیاست میں اپنی جگہ بنا سکتے تھے۔ اس کی شراکت کو مشکل سے تسلیم کیا گیا۔
اس سلسلہ میں مشہور صحافی جی ڈی چندن کی اردو صحافت اور صحافی نامی کتاب میں عبدالحمید انصاری کے حوالے سے لکھا ہے کہ جدید ہندوستان میں ایک یتیم لڑکا کس طرح اپنی مخفی اہلیت اور مسلسل محنت سے مہارشٹر کی اردو صحافت کا کارواں سالار بنا ریاست کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے راجدھانی ممبئی میں جسٹس آف پیس مقرر ہوا اور اپنی دو نسلوں کو ریاست کی علمی اور ثقافتی وراثت کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف کر گیا، اس کی رزمیہ روداد ایک نئی کتاب میں پیش کی گئی ہے جو "عبد الحمید انصاری، انقلابی صحافی اور مجاہد آزادی” کے عنوان سے انقلاب پبلی کیشنز نے حال ہی میں شائع کی ہے۔جی ڈی چندن عبدالحمید انصاری اور روزنامہ انقلاب میں رقم طراز ہیں کہ جاوید جمال الدین کی کتاب ہماری یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے صحافت اور ابلاغ کے دروازوں پر اس ضرورت کی خاموش دستک دے رہی ہے۔
چندن کے مطابق نوجوان عبدالحمید نے ان مخالفتوں کا مجاہدانہ مقابلہ کی اور نمک قانون کے خلاف مہاتما گاندھی کے ستیہ گرہ میں حصہ لیتے ہوئے گرفتاری اور با مشقت قید کی سزا پائی ۔ یروڈہ جیل اس امنگ بھرے نوجوان کے لیے ایک خداداد درس گاہ بن گئی ۔جہاں سے رہائی کے بعد مقامی "ہلال اور خلافت ” نامی روز ناموں کے ادارتی شعبوں میں کام کرنے کے بعد انھوں نے پہلے الہلال اور پھر 1938 میں "انقلاب” کے ناموں سے اردو روزنامے جاری کیے ۔ انقلاب نے اپنے سال اول ہی میں قابل رشک مقبولیت حاصل کر لی۔ اسی مقبولیت کی وجہ سے کئی رقیبوں، حاسدوں اور سیاسی مخالفوں کی منافقتیں اور ایذارسانیاں بھی سرگرم رہیں۔
موصوف نے اپنے ارتفاع کو ہمیشہ اپنی عبادتوں اور اپنے عملے کے تعاون کاثمرہ تصور کیا۔ ایک مضمون میں انہوں نے لکھا کہ انھیں وہ ایام نہیں بھولتے جب وہ ایک ہا کر کی حیثیت سے اپنی غریبا نہ سائیکل پر سوا قدیم منرواسٹی کی نواحی سڑکوں پر "انقلاب آگیا”،” انقلاب آگیا” کی صدا لگا کر اپنا تازہ پرچہ بیچتے تھے۔
چندن رقمطراز ہیں کہ مصنف جاوید جمال الدین نے ان تمام امور کو ان کے رفقاء کار کی یادوں اور اخبار کی تحریروں کے اقتباسات سے روشن کیا ہے کہ کتاب ایک عہد ساز صحافی کی سوانح حیات کے ساتھ ساتھ جدید مہاراشٹر کے سیاسی ہفت خواں کی دل گداز منظر نگاری بھی ہے۔

انھوں نے پاکستان ہجرت کرنے سے دلیرانہ انکار کیا اور اپنی مستقل رہائش کے لیے ہندوستان کا انتخاب کیا۔ ان کا دل ہندوستان ہی میں تھا اور وہ اس کی بو باس میں الگ نہیں ہو سکتے تھے۔ ڈاکٹر زکریااور مصنف دونوں نے لکھا ہے کہ مسلم لیگ میں ان کی شرکت چند مجبوریوں سے پیدا ہونے والا سقم تھا۔
مصنف جاوید جمال الدین کی تحقیق کے لیے چار ماہ کی بیانیہ مدت بہت ناکافی تھی۔ مجموعی طور پر یہ اردو زبان کے سرمایہ صحافت میں ایک منفر دالماس ہے۔ اخبار انقلاب کے بانی نے اس صحافت کی نئی تاریخ کا ایک ممتاز ضامن اور امین بنانے کے لیے ناقابل فراموش ریاضت اور نفس کشی کی ۔انصاری نے 40 کی دہائی سے دفتر میں رائٹر، پی ٹی آئی جیسی نیوز ایجنسیوں کی سروس حاصل کی۔ انصاری نے اردو صحافت کو لیتھو کے پھٹیچر ٹاٹ سے اٹھا کر آفسیٹ مشینری کے خوش نما اور خوش رفتار گھوڑے پر سوارکیا اور اسے صحافت کے نئے بازار کا شہسوار بنایا۔ انقلاب کو بھارت سرکار کی طرف سے ڈیزائن سازی اور طباعت کا قومی ایوارڈ ملا۔جبکہ مذکورہ کتاب ہماری یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے صحافت اور ابلاغ کے دروازوں پر اس ضرورت کی خاموش دستک دے رہی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.