صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

  بابری مسجد کا فیصلہ سپریم کورٹ نے نہیں کیا بلکہ بابری مسجد نے سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہے ۔ ضیاء الدین صدیقی

٦ دسمبر کے موقع سے وحدت اسلامی ممبئی کی منعقدہ آن لائن کانفرنس بعنوان  " بابری مسجد اور مسلمانان ہند " میں علماء کرام و دانشوران کا خطاب 

22,964

٦؍دسمبر ۲۰۲۰ وحدت اسلامی ممبئی کی جانب سے بابری مسجد کی شہادت اور اس کی بازیابی کی تحریک کو جاری رکھنے کے سلسلے میں منعقدہ ویبینار میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا عبدالبر اثری فلاحی نے اپنے موضوع "بابری مسجد موجودہ صورتحال اور اس کی شرعی حیثیت” پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ عدل و انصاف کا خون کر کے بابری مسجد کے مقام پر بت خانہ تعمیر کیا جا چکا ہے، جس کا مقصد سیاست چمکانا اور اسلام دشمنی ہے ۔ مولانا نے سورہ جن کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مساجد ہماری ذاتی ملکیت نہیں ہے کہ ہم اس سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کریں ، بلکہ مساجد اللہ تعالی کی ملکیت ہیں جس  پر کسی اور کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا جا سکتا ، نیز فرمایا کہ مساجد اسلامی معاشرے میں لائف لائن ، مرکز ، دل اور پاور ہاؤس کی حیثیت رکھتی  ہیں  بلکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کے لئے مساجد کی حیثیت ایسی ہے جیسے پانی میں مچھلی کی ۔

مسلمانوں کو مساجد سے دور کر دیا جائے تو اس کی بقاء اور اس کا ارتقاء سب کچھ رک جائے گا ۔ مساجد کے لئے وقف کی گئی زمین کے مسئلہ پر بتایا کہ یہ وقف تا قیامت رہے گا اور وقف کے بعد اس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں رہےگا ، اور اس پر تمام مسالک متفق ہیں ۔ حدیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ مساجد کی زمین کو قیامت کے بعد بھی اللہ تعالی باقی رکھے گا ۔ ملک کے اسلامی فقہ اکیڈمی کے منعقدہ سیمنار کے حوالے سے جہاں  ڈیڑھ سو علمائے کرام و فقہاء نے شرکت کی تھی اور اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ بابری مسجد ، مسجد تھی ، مسجد ہے  اور مسجد ہی رہے گی ۔ ساتھ ہی مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی اسی موقف پر قائم رہا ہے ۔ مولانا نے مسلمانوں کو تنبیہ کی کہ اگر ہم نے اپنا فرض پورا نہیں کیا تو اللہ تعالی کسی اور کو کھڑا کردے گا تاکہ مساجد کا مقصد پورا ہو ۔

’’بابری مسجد کی شہادت اور مسلمانوں پر اس کے اثرات‘‘ اس موضوع پر سنئیر صحافی شکیل رشید نے اظہار خیال کرتے ہوئے اپنے مختصر خطاب میں فرمایا کہ تقسیم ہند کے ساتھ ہی مسلمانوں میں احساس پیدا ہوا کہ   یہاں مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا ہے ، بابری مسجد کی شہادت اور مختلف چیزوں میں مسلمانوں کے ساتھ غلط برتاؤ کی وجہ سے یہ احساس شدت اختیار کر گیا ہے ۔ مثال دیتے ہوئے آپ نے بابری مسجد کی شہادت کے سلسلے کے دو مقدمات کا ذکر کیا ، ایک بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کا مقدمہ اور دوسرا مسجد کی شہادت کا ، جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ سپریم کورٹ نے تمام شواہد کے باوجود  مسجد اراضی مندر ٹرسٹ کو دے دی ۔ دوسری شہادت مسجد میں کلیدی کردار ادا کرنے والوں کو نہ صرف بری کیا بلکہ یہ کہا کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے ،جب کہ یہ حضرات مجرمانہ سازش میں مکمل ملوث تھے ۔ اسی طرح  سیکولر افراد اور پارٹیوں نے بھی کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی جس کی وجہ سے مسلمانوں کا اعتماد ٹوٹا اور انہیں احساس ہوا کہ یہ قیادت مسلمانوں کے لئے نہیں ہے ، یہی حال مذہبی قیادت کا بھی رہا اور یہ قیادت بھی ناکام رہی ہے ۔

اسی موضوع پر تقریر کرتے ہوئے دوسرے معروف  صحافی جناب عمر فراہی نے فرمایا کہ مسجد کی شہادت نے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ انصاف پسند ہندوؤں کو بھی متاثر کیا ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت اس بات کی دلیل ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی قیادت پہلے ہی شہید ہو چکی تھی ۔ انسانی عروج و زوال کی تاریخ ہے کہ حادثات کے بعد بھی مسلمانوں نے دنیا کوامن و انصاف کا نیا دستور دیا اورعالم انسانیت نے ترقی کے مراحل طے کئے ۔ موصوف نے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج مسلمانوں کی ہر تنظیم و افراد پر دہشت کے اثرات صاف محسوس کئے جا سکتے ہیں ، سیکولر جماعتوں سے مسلمانوں کا اعتماد اٹھتا چلا جا رہا ہے اور ان سب کے باوجود مسلمانوں کی ۹۰ فیصد آبادی بے فکری کی زندگی گزار رہی ہے ۔

’’بابری مسجد کا فیصلہ قانون اور انصاف کی نظر سے‘‘ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ممبئی ہائیکورٹ کے وکیل ابراہیم ہربٹ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ۲۰۱۹ میں سپریم کورٹ کے ذریعے ایک ظالمانہ فیصلہ مسلمانوں کے سر تھوپ دیا گیا ۔ بابری مسجد کا مقدمہ جو فیض آباد کورٹ میں چل رہا تھا وہ مقدمہ ملکیت کا تھا مگر سپریم کورٹ نے اسے distribution suit کا مقدمہ بنا دیا ۔ سپریم کورٹ کا یہ ماننا ، مسلمانوں کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے۔  ۱۰۴۵ صفحات  کے فیصلے میں بار بار یہ بات دہرائی گئی ہے کہ مقدمہ آستھا کی بنیاد پر نہیں بلکہ قانون کی بالادستی کی بنیاد پر ہوگا ، مگر آخر میں فیصلہ مجبوری کی بنیاد پر یا دباؤ کی بنیاد پر خلاف انصاف دیا گیا اور پوری دنیا میں یہ مذاق کا موضوع بن گیا ۔ سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ ۱۵۲۶ سے ۱۸۵۶ تک مسلمانوں کا وہاں نماز پڑھنے کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے مضحکہ خیز ہے ۔ نیز فرمایا کہ سپریم کورٹ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ بابری مسجد مندر توڑ کر نہیں بنائی گئی ہے تو انصاف کا تقاضہ ہے کہ وہاں مسجد تعمیر کی جائے ۔ موصوف نے مزید کہا کہ ظلم پر مبنی فیصلوں سے لوگوں کا اعتماد عدلیہ سے ختم ہو سکتا ہے اور اس طرح کے فیصلے محبت کے ماحول کو توڑنے کا کام کر سکتے ہیں ۔

آخری گفتگو ضیاء الدین صدیقی کی تھی ، جو وحدت اسلامی کے معتمد عمومی ہیں ، آپ نے اپنے موضوع ’’بابری مسجد کی بازیابی کیوں اور کیسے ؟‘‘ میں قرآن کریم کی آیت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ شعائر اللہ کی تعظیم دلوں کے تقویٰ میں سے ہے ۔ شعائر اللہ ہماری شناخت ہیں اور ان کا  احترام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے ۔ مساجد کے سلسلے میں شرعی موقف ہے کہ فرش سے عرش تک مسجد ہی رہتی ہے ۔  فاروقی دور کے ایک واقعے میں جہاں مسجد کے محراب کے حصے میں بیت المال  بنادیا گیا ، جسے مسجد سے دستبرداری کا موقف رکھنے والے حضرات بطورمثال کے پیش کرتے ہیں ، موصوف نے بتایا کہ مسجد سے دستبرداری نہیں کی گئی بلکہ مسجد کے اس حصے  کو بیت المال کے لئے  چھوڑ دیاگیا ۔ اور اس طرح کے شاذ روایتوں کو لےکر مسجد کی سودے بازی درست نہیں ۔

فقہاء نے لکھاہے کہ ہم اپنے ذاتی مکانوں کو بت خانہ ، شراب خانہ ، سود کا کاروبار کرنے والوں کے لئے کرائے پر بھی نہیں دے سکتے تو اللہ تعالی کے گھر کو بت خانہ کے لئے کیسے دیا جاسکتا ہے ؟ ہمارا شرعی موقف یہ ہے کہ مسجد کی جو بھی ہئیت تبدیل کی جائے ، تب بھی مسلمان اسے مسجد ہی مانتے رہیں گے اور قیامت کا سورج نکلنے تک یہ جگہ مسجد ہی رہے گی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے ، عدل نہیں کیا ہے اور ہمارا اس فیصلے پر اطمینان نہیں ہے ، کیوں کہ اس میں کئی نقائص ہیں ۔ اس طرح review petition کو سننا بھی سپریم کورٹ نے قبول نہیں کیا ہے اور اس فیصلے کا  پھر سے جائزہ لیناضروری ہے جو صرف آستھا کی بنیاد پر ہے ناکہ حقائق کی بنیاد پر ، اور قانون کی بالادستی ماننے والوں کے لئے یہ ایک سانحہ ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ ٦ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ مسجد شہید کرنے والوں کو پہلے سزا دی جاتی اور پھر بابری مسجد مقدمے کو فیصل کیا جاتا ، مگر ترتیب الٹ دی گئی اور مجرموں کو چھوڑ دیا گیا ۔ مزید  پہلے مسجد کو سازش کے تحت ڈھایا گیا ورنہ اگر آج مسجد اپنی جگہ موجود ہوتی تو کیا سپریم کورٹ اس کے خلاف فیصلہ دینے کی جرأت کرپاتا ؟

موصوف نے مزید  کہا کہ فرقہ پرستوں نے ساڑھے چارسو سال تک اس معاملے کو یاد رکھا ، کیا ہم چار ہزار سال تک اس شہادت کو یاد نہیں رکھ سکتے ؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے بچوں اور جوانوں تک یاد دہانی کراتے رہیں تا کہ ہماری نسل حقائق کو یاد رکھے ، اس سلسلے میں بابری مسجد کے سانحے کو تاریخ در تاریخ یاد رکھنا ، اس کے لئے کوشش کرنے والوں اور قربانیاں دینے والوں کو یاد رکھنا ، بچوں میں مقابلہ جاتی عنوانات و تصویری مقابلوں کے ذریعے معلومات کو منتقل کرنا ، اپنے گھرکے ایک کمرے میں دیوار پر مسجد کی تصویر آویزاں کی جائے ، نیز ملک کے ہر شہر میں تعمیر ہونے والی مسجد کو بابری مسجد کے نام سے منسوب کرنا ، آثار قدیمہ کے تحت جو مساجد ہیں انہیں حاصل کرنا، نیز دہلی ، پنجاب ، ہریانہ وغیرہ میں جو مساجد غیروں کے تسلط میں ہیں انھیں بازیاب کرانا اور اس کے لئے جدوجہد و قانون کے ذریعے تحریک چلانا وغیرہ کی کوششیں یاد رکھنے کے لئے ضروری ہے ۔ آخر میں موصوف نے فرمایا کہ مسلمانوں نے مندر توڑ کر مسجد بنائی اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، مگر ہندو جنونیوں نے تاریخی مسجد شہید کر کے مندر بنایا ہے اس کا ثبوت موجود ہے ۔

کانفرنس تکنیکی وجوہات کی بنا پر تاخیر سے شروع ہوئی ۔ قاری  سید زیاد کی تلاوت کلام پاک سے کانفرنس کا آغاز ہوا ۔ بعد ازاں ایک ولولہ انگیز ترانہ ڈاکٹر مونس نے پیش کیا ۔ مسلمانوں کی کثیر تعداد نے اس آن لائن کانفرنس میں شرکت کی ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.