ہند پاک کے بہتر تعلقات سے ہی بر صغیر کے حالات بدلیں گے
اس دنیا میں مفاد ی سیاست اور مفاد کی دوستی ہوتی ہے ۔ ویسے بھی کہتے ہیں کہ دوستی ہمیشہ برابر والوں میں ہوتی ہے ۔ استثنائی صورتحال ہر جگہ ہوتی ہے وہ یہاں بھی ہے ۔لیکن وہ اصول کلیہ نہیں ہے ۔ ممالک کے درمیان بھی دوستی انہی کے درمیان ہو سکتی ہے جو برابر کے ہوں ۔پسماندہ ملک پسماندہ کا دوست ہو سکتا ہے ترقی پذیر یا ترقی یافتہ کا نہیں ۔ہاں مفاد کے تحت کوئی ترقی پذیر ملک کسی پسماندہ ملک سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے یا کوئی ترقی پذیر کسی ترقی یافتہ ملک سے دوستی کرے ۔ یہ سب مفاد پر مبنی ہوتا ہے ۔پسماندہ یا ترقی پذیر ممالک کو اپنی سطح اور اپنے مفاد کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ وہ کس سے ہاتھ ملا رہا ہے اور کسی سے دوستانہ رویہ اپنا رہا ہے ۔ عموما ہوتا یہ ہے کہ پسماندہ اور ترقی پذیر ملک کے سیاست داں عوام کی توقعات اور ان کی عزت نفس کے برخلاف ترقی یافتہ یا بڑی قوتوں سے اپنے ذاتی مفاد کیلئے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں اور اس کی قیمت ملک کے غریب اور پسماندہ عوام کو چکانی پڑتی ہے ۔ اس لئے مفاد پر مبنی دوستی کے درمیان ہمارے لئے سوچنے مقام یہ کہ اگر بڑی طاقتوں کا بلاک ہوسکتا ہے تو ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کا بلاک کیوں نہیں ہوسکتا ۔ ایسا ہی ایک بلاک پنڈت جواہر لال نہرو نے ناوابستہ ممالک کی تحریک شروع کی جس نے پہلے دھیرے دھیرے اپنی افادیت ختم کی اور پھر مکمل طور سے اس کا وجود ہی تاریخ کا حصہ بن کر رہ گیا ۔
ہوتا یہ ہے کہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو باہم ایک دوسرے سے دست و گریباں کرواکے یہ بڑی قوتیں اپنا مفاد حاصل کرتی ہیں ۔ اب اس میں امریکہ ہو یا اسرائیل ، روس ہو یا برطانیہ یہ ترقی یافتہ ممالک کسی کے نہیں ہوتے بلکہ اپنے اپنے ملک کی ترقی کیلئے ترقی پذیر ممالک کو ایک دوسرے سے لڑا کر اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں ۔ تھوڑا ماضی کی طرف دیکھیں آپ کو تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات مل جائیں گے اور ماضی قریب میں آپ عراق اور لیبیا کی مثال دیکھ لیں ۔صدام حسین نے امریکہ سے دوستی کی اور تباہ ہوگیا دوسری جانب جب تک لیبیا امریکہ کے مقابل رہا اپنی جگہ پر قائم رہا اور جیدے ہی کرنل قذافی نے امریکہ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا آج لیبیا خانہ جنگی کا شکار ہو کر تباہ ہوگیا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک سے دوستی کے بہانے اپنی طرف جھکاتے ہیں اورکسی دوسرے ملک سے انہیں لڑاتے ہیں اور اس بہانے انہیں ہتھیار خریدنے پر مجبور کرتے ہیں جس سے امریکہ یا اسرائیل یا برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک ان سے ہتھیار بیچ کر معاشی مفاد حاصل کرتے ہیں ۔ اگر دنیا میں پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کا بھی اپنا بلاک بن جائے اور وہ اپنے چھوٹے بڑے مسائل کو باہم گفت شنید سے حل کرنے کی شروعات کردیں تو بڑی طاقتوں کی معیشت کو زبردست نقصان پہنچے گا اور ان غریب اور ترقی پذیر ممالک کو ان جھگڑوں اور جنگ سے ہونے والے نقصان سے بچنے کا ایک اچھا طریقہ مل جائے گا ۔ جب جنگ نہیں ہوگی تو تجارت کو فروغ حاصل ہوگا اور سائنس کے میدان میں بھی یہ ممالک کچھ نیا کرسکتے ہیں ۔ لیکن اکثر ان ممالک کے سیاست داں اور حکمراں طبقہ ترقی یافتہ ممالک کا ایجنٹ ہو ا کرتا ہے جو ملک کو بڑی قوتوں کے مطابق ہی چلانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس لئے پسماندہ نیز ترقی پذیر ممالک کا بلاک ازحد ضروری ہے ۔ یہ ایسا بلاک ہونا چاہئے جس پر امریکہ ودیگر ترقی یافتہ ممالک کا کوئی رعب نہیں چل سکے ۔ علاقائی خود مختاری اور ترقی کیلئے سارک بھی لیکن وہ بھی ہندو پاک کے جھگڑے میں اس کا بھی خاتمہ عنقریب ہے ۔کسی باہمی نزاع کو اس حد تک نہیں جانا چاہئے کہ ایک متحرک تنظیم ہی معطل ہو کر ختم ہونے کے کنارے پہنچ جائے ۔
ہم امریکہ پاکستان کی دوستی کو ہی دیکھ لیں ۔ یہاں خطہ میں امریکی مفاد کی محافظت کیلئے ہی امریکہ پاکستان سے دوستی کا ناٹک کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی امریکہ سے یہی امیدیں ہیں ہاں اگر پاکستان چاہے تو اس میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے ۔ امریکہ پہلے پاکستان کودوست بنا کر اس سے اپنا مفاد حاصل کر تا ہے ۔ پھر اپنے مفاد کیلئے اب اس کا جھکائو ہندوستان کی طرف ہے لیکن وقتی ہے ۔ اس سے اپنا مفاد حاصل کرکے وہ کسی اور کی تلاش میں نکل کھڑا ہوگا ۔ پہلے اوپر بتایا جاچکا کہ دنیا میں مفاد کی دوستی اور مفاد کی سیاست کے سوا کچھ نہیںہر کوئی اپنے مفاد کیلئے جی رہا ۔تو بڑی قوتیں تو اس کی موجد ہیں ۔ اب روس اور ہندوستان کی دوستی پروان چڑھ رہی ہے۔ماضی میں بھی ہند روس دوستی کی مثال دی جاتی تھی ۔ موجودہ دنیا کے سیاسی حالات کو دیکھیں تو یہ بھی زیادہ دنوں تک نہیں چلنے والی اس کی وجہ یہ ہے کہ چین اور روس انتہائی قریب ہیں دونوں کی نظریاتی ہم آہنگی بھی ہے اور دونوں مل کر امریکہ کے راستے روکنے کی بھی کوشش میں ہیں اور چین ہندوستان تعلقات نہ تو ٹھیک ہیں اور نا ہی مستقبل قریب میں اس کی خوشگواریت کے کوئی آثار نظر آتے ہیں ۔سیاسی تجارتی سطح پر چین اور ہندوستان میں مقابلہ آرائی جاری ہے دونوں معاشی سوپر پاور بننے کی دوڑ میں شامل ہیں یہ اور بات ہے کہ ہمارے یہاں اب بھی ایک تہائی آبادی خطہ غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے ۔ ان حقائق کی روشنی میں ہند پاک کے درمیان بہتر اور خوشگوار تعلقات ناگزیر ہے لیکن یہ دونوں ممالک کے سیاست دانوں اور ارباب اقتدار پر منحصر ہے کہ وہ بھی دنیا کے دیگر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کی طرح اپنے ملک کے عوام کے مفاد کی خاطر دوستانہ پیش رفت کریں ۔ اس پیش رفت کا انجام بہر حال خوشگوار ہی ہوگا اور اس کے اثرات اس پورے خطے پر پڑیں گے ۔ ہم جو بجٹ اپنی سلامتی کے انتظامات پر خرچ کرتے ہیں اگر وہ تعلیم اور صحت پر ہونے لگے تو کیا کوئی ہمیں امریکہ جیسی ترقی سے روک سکتا ہے ؟ کاش ہند پاک کے سیاست داں بڑی طاقتوں کی چالوں کو سمجھ سکتے تو آج دونوں ممالک کی وہ حالت نہ ہوتی جو اب ہے ۔ مسئلہ کشمیر کے ساتھ باقی مسائل بھی حل ہوتے اوردونوں ممالک ترقی یافتہ بن سکتے تھے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا پر کہتے ہیں کہ جب جاگو تب ہی سویرا اب بھی موقعہ ہے اور ہم ابھی سے اور یہیں سے اس کی شروعات کرسکتے ہیں ۔ کیا ہمارے سیاست داں اور ارباب اقتدار اس جانب توجہ دینے کی کوشش کریں گے ؟ پاکستان میں بھی کافی دنوں کے بعد ایک ایسی حکومت بنی ہے جو ترقی کی بات کرتی اور عوامی مفاد کو مقدم رکھنے کی دعویدار ہے اور عوام کے مفاد کی دعویدار حکومت ہو تواس سے جنگ نہیں دوستی اور امن کی امید کی جاتی ہے ۔ امید ہے کہ جلد ہی وہ صبح ضرور طلوع ہو گی جس میں ہند پاک کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہوں گے اور یہاں کے عوام کیلئے بھی بھوک ،غریبی ، اور پسماندگی ایک قصہ پارینہ بن جائے گا ۔