صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

طالبانی ہندوتو اس ملک کو افغانستان بنادے گا !

269,242

عارِف اگاسکر

مہاتما گاندھی ہندوستان کے سیاسی و روحانی رہنما اور تحریک ِآزادی کے اہم ترین کِردار تھے ۔ اگرچہ وہ عدم تشدد کے اصول کے موجد نہیں تھے مگر انھوں نے اس کا بڑے پیمانے پر پہلی بار سیاسی میدان میں استعمال کیا اور عدم تعاون ، عدم تشدد اور پُرامن مزاحمت کو برطانوی سامراج کے خلاف بطور ہتھیاراپنایا ۔ عدم تشدد کا تصور ہندوستانی مذاہب میں ایک طویل تاریخ ہے اور ستیہ گرہ نیز ظلم کے خلاف عوامی سطح پر منظم سول نافرمانی ہے ۔ یہ طریقہ کار ہندوستان کی آزادی کی وجہ بنا اور ساری دُنیا کے حقوق انسانی اورتحریکِ آزادی کے لیے روح رواں ثابت ہوا ۔ لیکن ہندوستان میں ایک ہندو قوم پرست تنظیم نے گاندھیائی نظریات کو قبول کرنے سے انکار کیا اور انھیں ہمیشہ ان کے نظریات سے اختلاف رہا ۔ اسی نظریاتی اختلاف کی بنا پر گاندھی جی کوآزادی حاصل کرنے کے کچھ ہی ماہ بعد قتل کر دیا گیا ۔ جو اس بات کی جانب اِشارہ تھا کہ اِس ملک میں گاندھیائی نظریات کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔

گاندھی جی کے قتل کے بعد ہندوستان میں نفرت اور تعصب کی سیاست پروان چڑھی جس نے اِس ملک کی قومی یکجہتی کے شیزارہ کو بکھیر کر رکھ دیا ۔ آج ہماری نسلِ نَو ان ہی نظریات کے عتاب کا شِکار ہوگئی ہے ۔ اس کے باوجود آج بھی اِس ملک میں گاندھیائی نظریات پوری طرح مفقود نہیں ہوئے ہیں ۔ جس کی زندہ مثال حالیہ دہلی اسمبلی کے انتخابی نتائج ہیں ۔ جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اِس ملک کے عوام آج بھی گاندھیائی نظریات کو قبول کرتے ہیں ، اسے فوقیت دیتے ہیں اور تشدد کے نظریات کو یکسر مسترد کرتے ہیں جو اِس بات کا مظہر ہے کہ گاندھی جی کے نظر یات سے اختلاف رکھنے والے انھیں چاہے جِتنا بدنام کریں گاندھی جی آج بھی ہندوستانیوں کے دِلوں میں زِندہ ہیں ، زندہ تھے اور زندہ رہیں گے ۔

گاندھی جی کے تعلق سے ممبئی سے شائع ہونے والے مراٹھی روزنامہ ’سامنا‘ میں۹؍ فر وری ۲۰۲۰ء کے شمارہ میں ’سنجے رائوت‘ اپنے کالم ’روک ٹھوک‘ میں لِکھتے ہیں کہ مہاتما گاندھی کو اورکتنی بارقتل کیا جائے گا؟ اب ہمیں اِس کا فیصلہ کرنا ہوگا ۔ جو لوگ گاندھی جی کی سوچ سے متفق نہیں ہیں انھیں بھی یہ قبول کرنا ہوگا کہ گاندھی جی جیسا کوئی لیڈر آزادی کی تحریک میں پیدا نہیں ہوا ۔ آزادی کی تحریک میں گاندھی جی کا بڑا تعاون تھا جسے قبول کرتے ہوئے ناتھورام گوڈ سے نے پہلے گاندھی کے پیروں کو چُھوا اور بعد میں گاندھی جی پر گولیاں چلائیں ۔ گوڈسے کے چاہنے والوں کو گاندھی جی پر ناشائستہ تنقید کرتے ہوئے گوڈسے کی شائستگی کو بھی قبول کرنا چاہیئے ۔

کرناٹک کے بی جے پی کے لیڈر اننت کُمار ہیگڈے نے اعلان کیا ہے کہ ’گاندھی جی برطانیہ کے ایجنٹ تھے اور ان کی آزادی کی تحریک کرایہ کی تھی‘ ۔ ان کایہ بیان مضطرب کرنے والا ہے ۔ بھوپال کی بی جے پی رُکن پارلیمان سادھوی پرگیہ سِنگھ نے بھی درمیانی عرصہ میں گاندھی جی پر تھوکنے کی کو شش کی اور گوڈسے کو اپنا رہنما بتایا ۔ لیکن بی جے پی نےاعلان کیا کہ گاندھی جی کے تعلق سے ہیگڈے اور سادھوی پرگیہ کی رائے ان کی اپنی ذاتی رائے ہے ۔ اسی دوران مہاراشٹر میں گوڈسے کی برسی منائی گئی اور اُترپردیش میں گاندھی جی کی تصویر پر گولیاں چلا کر گوڈسے کو خراج عقیدت پیش کی گئی ۔ گاندھی جی ہندوستان میں پیدا ہوئے اس کی بڑی قیمت وہ اپنے قتل کے ۷۰؍ برسوں بعد بھی چُکا رہے ہیں ۔

گاندھی جی کو سمجھنا ہیگڈے جیسے کے بس کی بات نہیں ہے ۔ ہندو توکی سوچ سب کو قبول ہے لیکن طالبانی طریقہ کا ہندوتو اس ملک کو افغانستان بنادے گا ۔ گوڈسے کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گاندھی جی کو گالیاں دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ گاندھی جی کی تصویر پرگولیاں چلا کر نفرت انگیز خوشی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جِنھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گاندھی جی کی وجہ سے پاکستان بنا ، اورملک تقسیم ہوا ان کو چاہیئے کہ پارٹی کی میٹنگ میں مودی اورشاہ سے کہیں کہ منقسم شدہ پاکستان کو دوبارہ جیت لیں اور اکھنڈ ہندوستان کے خواب کو پورا کریں ۔ اِس اکھنڈ ہندوستان کی علامت کے طور پر لاہور ، کراچی اور اِسلام آباد میں وِیرساور کر کا مجسمہ اِتنی بلندی پرقائم کریں کہ دُنیا کی نظریں چوندھیا جائیں ۔

میں ایک ایسا آئین بنانے کی کوشش کروں گا جو ہندوستان کوہر طرح کی غلامی اور غربت سے نجات دلائے اور ضروری ہوا تو گُناہ کرنے کا بھی حق دے گا ۔ انتہائی غریب شخص بھی ’یہ ملک میرا ہے اور اس ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں اس کے الفاظ کو اہمیت حاصل ہے یہ محسوس کرے گا‘ ایساہندوستان مجھے تعمیر کرنا ہے ۔ گاندھی کو بدنام کرنا ، ان کے مقصد پر شبہ کرنا ، ان کی کردارکشی کرنا ، ان کے مجسموں کو گرانا اور ان کے مجسموں پر گولیاں برسانا یہ گناہ ہے ۔ لیکن ہیگڈے اور پرگیہ کو ایسا گُناہ کرنے کی آزادی اور حق گاندھی جی کی وجہ سے ہی حاصل ہوا ہے اس پر بھی غور کرنا چاہیئے

گوڈسے نے اکھنڈ ہندوستان کی لگن میں گاندھی جی پر گولیاں چلائیں وہ اکھنڈ ہندوستان بنایا جائے ۔ کیا یہ کرنے کی جرأت کسی میں ہے ؟۱۹۳۱ میں مہاتما گاندھی گول میز کانفرنس کے لیے انگلینڈ گئے تھے تب ایک صحافی نے پریس کانفرنس میں گاندھی جی سے سوال پوچھا تھا کہ وہ آزاد بھارت میں کس طرح کا رِیاستی نظام اور آئین چاہتے ہیں جس پر گاندھی جی نے انگریزوں کی اس سر زمین پر جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایک ایسا آئین بنانے کی کوشش کروں گا جو ہندوستان کوہر طرح کی غلامی اور غربت سے نجات دلائے اور ضروری ہوا تو گُناہ کرنے کا بھی حق دے گا ۔ انتہائی غریب شخص بھی ’یہ ملک میرا ہے اور اس ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں اس کے الفاظ کو اہمیت حاصل ہے یہ محسوس کرے گا‘ ایساہندوستان مجھے تعمیر کرنا ہے ۔ گاندھی کو بدنام کرنا ، ان کے مقصد پر شبہ کرنا ، ان کی کردارکشی کرنا ، ان کے مجسموں کو گرانا اور ان کے مجسموں پر گولیاں برسانا یہ گناہ ہے ۔ لیکن ہیگڈے اور پرگیہ کو ایسا گُناہ کرنے کی آزادی اور حق گاندھی جی کی وجہ سے ہی حاصل ہوا ہے اس پر بھی غور کرنا چاہیئے ۔

گاندھی جی کی زندگی ناانصافی کے خلاف جنگ لڑنے میں گزری ۱۹۴۷ء میں آزادی حاصل ہونے تک ان کا بیشتر اور تمام وقت آزادی کی تحریک اور جیل میں گزرا ۔ آزادی حاصل ہو نے کے ۵؍ ماہ بعد ان کا قتل ہوا ۔ گاندھی جی کو اقتدار کی ہوس نہیں تھی بلکہ انھوں نے ملک کے لیے اپنی زندگی قربان کی تھی ۔ گاندھی جی بطور حکمراں اقتدار پر قابض رہنے کے خواہش مند نہیں تھے ۔ انھوں نےملک کے لیے اپنی زندگی سُپرد کرتے ہوئے عوام کے دلوں میں جگہ بنالی تھی ۔ گاندھی جی کی زندگی کا خلاصہ اور طریقہ کار کی خاصیت ان کے عدم تشدد میں ہے ، لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہندی عوام صحیح معنوں میں عدم تشدد کے بالکل حامی نہیں بنے ۔ ہم نے سوراج کے پہلے سال میں خاموشی کے ساتھ لاکھوں لوگوں کے قتل اور برباد ی کا نظارہ دیکھا ، اور عدم تشدد کے کلیدی خدمتگار گاندھی جی کاقتل بھی اسی ملک میں ہوا ۔

اس ملک میں گاندھی جی جیسی غیر معمولی شخصیت گزری ہے لیکن ہم مکمل طور پر ان کی خوبیوں کو سراہ نہیں سکتے ۔ گاندھی جی میں دیش بھکتی اور ایشور بھکتی کا خوبصورت ملاپ ہوا تھا ۔ انھوں نے اپنے آخری ایام میں اپنی سیاسی وصیت جس کوہم Last Will and Testament  ــــ ـکہہ سکتے ہیں میں ایک انتہائی اہم خیال پیش کیا تھا ۔ جس میں وہ کہتے ہیں کہ سیاسی ادارہ کے طور پر کانگریس نامی تنظیم کی کار کردگی ختم ہونے سے اس تنظیم کو سیاست سے سبکدوش ہوجانا چاہیئے اور اخلاقی، معاشرتی اور مالی کام کرتے رہنا چاہیئے ۔ اس اعلان کی روحانی اور سیاسی اہمیت کو کانگریس کیا کوئی بھی سمجھ نہیں سکا ۔ اقتدار کے نشہ میں چُور اور اقتدار کی شکم سیری کے لیے کوئی بھی گُناہ کرنے والے کئی سیاسی اداروں نے گاندھی جی کایہ سیاسی روحانی راستہ قبول کیا تو ملک میں امن و امان کا ماحول قائم ہو گا ۔

لیکن ہم نے گاندھی جی کا قتل کیا اور موت کےبعد بھی ان پر گولیاں بر سا نے کی بزدلی دکھا رہے ہیں ۔ یہ حیران کن بات ہے کہ جن کا جنگ آزادی میں کوئی تعاون نہیں تھا وہ تمام لوگ آزادی کی لڑائی کو کرایہ دار اور گاندھی جی کو انگریزوں کا ایجنٹ کہنے لگے، اور گاندھی جی کی شخصیت پر فخر کرنے کی بجائے ان کو کلنک سمجھنے لگے ہیں ۔ رام ان کو درپیش نا انصافی کے خلاف لڑے ۔ ہم اسی رام کا مندر تعمیر کر رہے ہیں لیکن گاندھی جی کی لڑائی بھی نا انصافی کے خلاف تھی، جس کے لیے وہ لڑے اور قربان ہوئے ۔ گاندھی جی کی زندگی بھی آخر دم تک رام میہ تھی ۔ اسے جدید دور کے رام بھگتوں کو سمجھنا چاہیئے ۔ گاندھی جی کو ہم روز قتل کر رہے ہیں ۔ مولا نا ابو الکلام آزاد نے انتہائی مضطرب ہو کر کہا تھا کہ ہر ہندی شخص کے ہاتھوں پر گاندھی جی کے خون کا داغ ہے ۔!

جنھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گاندھی جی کی وجہ سے ملک کا بٹوارا ہوا ہے وہ دو بارہ اسے اکھنڈ کریں ، انھیں ایسا کرنے سے کسی نے نہیں روکا ہے ۔ وہاں پاکستان میں بیرسٹر جناح قبر میں سکون سے سورہے ہیں ۔ پاکستان جہنم بن گیا ہے لیکن اس کا دوش کوئی بیرسٹر جناح کے سر نہیں تھوپتا ۔ گاندھی اور نہرو نے ایک جدید ہندوستان کی تعمیر کی اس کے باوجود انھیں روز مارا جا رہا ہے یہ بھی ایک طرح کی آزادی ہے ۔ ہندوستان کی حالت پاکستان جیسی نہیں ہو ئی ہے اس کا صلہ گاندھی ، نہرو اور پٹیل جیسے کانگریسی لیڈران کو جاتا ہے ۔ جو ان پر کیچڑ پھینکنے کا گناہ کررہے ہیں وہ گناہ کرنے کی آزادی بھی گاندھی جی کی ہی مر ہون منت ہے ۔ اس بات کو ذہن نشیں کرنا چاہیئے ۔

[email protected]    Mob: 9029449982

Leave A Reply

Your email address will not be published.