نہال صغیر
بالآخر حکومت مہاراشٹر نے مراٹھوں کو سولہ فیصد ریزرویشن دے دیا ۔اس سلسلے میں اسمبلی کا سرمائی سیشن شروع ہونے سے ابتک ایوان میں ہنگامی آرائی کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ ختم ہوگیا سرمائی اجلاس بھی کل یعنی ۳۰ ؍ نومبر کا اختتام پذیر ہوا ۔ یہاں جس طرح موجودہ بی جے پی حکومت مراٹھوں کے تئیں سرنگوں ہونے کو مجبور ہوئی وہیں اس نے مسلمانوں کو یکسر مسترد کردیا ۔ جانتے ہیں یہ سب کچھ کیوں ہوا ؟ یہ اس لئے ہوا کہ دنیا صرف ایک زبان جانتی ہے اور وہ ہے طاقت کی زبان ! مراٹھوں نے سیاسی وابستگی کے باوجود اس معاملہ پر متحد رہنے میں کوئی کمی نہیں رکھی اور انہوں نے اس کی مدد سے حکومت پر ناقابل برداشت دبائو بنائے رکھا ۔ مراٹھوں کی پسماندگی کو منظر عام پر لانے کیلئے کوئی کمیشن نہیں بنا تھا یہی سبب ہے کہ بامبے ہائی کورٹ نے اسے مسترد کردیا تھا ۔ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بی جے پی مسلم دشمن ہے اور اسے اس نے کبھی نہیں چھپایا ۔ ہمیشہ اس نے مسلم مخالف رویہ اپنایا ۔ لیکن مسلمانوں کو شکایت ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے ہے جن کا وجود صرف مسلمانوں کے اس مفروضہ پر ہے کہ ان کے وجود سے ہی مسلمانوں کا وجود مشروط ہے ۔ بی جے پی ہمیشہ کہتی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا ہے ۔اس پر کانگریس معذور نظر آتی ہے اور ہو بھی کیوں نہیں کہ جب سارے سیکولر لیڈر زندہ تھے تب صدارتی آرڈیننس سے مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کو ملنے والا ریزر ویشن بند کردیا گیا ۔ جبکہ بعد میں اس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے علاوہ سبھی پسماندہ طبقہ کو جوڑا گیا ۔موجودہ انتخابی ماحول میں مہاراشٹر کے سرمائی اجلاس میں بہت ہنگامی آرائی رہی ۔
مخلوط سیکولر حکومت جو کہ مہاراشٹر میں پندرہ سالوں تک قائم رہی میں وزیر برائے اقلیتی امور رہےموجودہ ایم ایل اے نے بھی اسمبلی میں کافی شور شرابہ کیا ۔کرنا بھی چاہئے تھا کہ وہ اسی لاوارث کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں قوم کو دکھانا بھی ہے کہ دیکھو تمہارے غم میں ہم نےحکام کے ساتھ کتنے ڈنر کھائے ،رنج بھی بہت ہے لیکن آرام کے ساتھ ۔ بہر حال انہوں نے شور بھی مچایا اور ان کی خبریں میڈیا میں آئیں بھی لیکن حکومت نے اپنا سخت رویہ برقرار رکھا کہ اسے مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دینا ہے تو نہیں دینا ہے ۔ یہاں ان قوم کے سورمائوں اور لیڈروں سے عرض ہے کہ موجودہ حکومت سے قبل جب پندرہ سالوں تک آپ کی سیکولر حکومت تھی تب اس دور میں مسلمانوں کیلئے کیا کیا ۔ اگر آپ نے کچھ کیا ہوا توذرا اس کی فہرست عنایت فرمادیں تاکہ سند رہے ۔
جہاں تک ناچیز کی معلومات کا تعلق ہے تو اسے یہ جانکاری ہے کہ آپ کی سیکولر حکومت نے مسلم ریزرویشن کے لئے آڈیننس تو جاری کیا لیکن اسے اسمبلی میں پیش کرکے قانون کی شکل نہیں دی ۔ محض خانہ پُری کیلئے حکومت کے آخری دنوں میں آرڈیننس جاری کرنا کس حکمت عملی کا حصہ ہے اسے باشعور مسلمان بخوبی جانتے ہیں ۔ مولانا آزاد مالیاتی کارپوریشن میں قرض خواہ مسلم نوجوانوں کی ۵۴ ؍ہزار فائلیںدھول چاٹتی رہیں لیکن سیکولرزم اور مسلمانوں کی ہمدردی کا ڈھول پیٹنے والی حکومت نے مولانا اآزادمالیاتی کارپوریشن کو فنڈ ہی مہیا نہیں کرائے کہ وہ قرض تقسیم کرے ۔کرشنا کمیشن کے نفاذ پر آئی حکومت اسے نافذ تو کیا کرتی الٹے اسنے کمیشن کے ذریعہ ۹۲/۹۳ فسادات کے ملزم قرار دیئے گئے شخص کی موت پر حکومتی اعزاز کے ساتھ آخری رسومات اد اکرائی ۔اپنی سیکولر حکومت میں اقلیتی وزیر رہے ایم ایل اے صاحب نے اپنی پوری دور وزارت میں وزیر اعظم پندرہ نکاتی پروگرام کے تحت اضلاع میں کمیٹی تک نہیں بنا ئی ۔ اگر کانگریس کے انصاف اور سیکولرزم کی بات کریں تو موجودہ حکومت میں ہجوم زنی کی لاتعداد (یہاں لاتعداد اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ہمارے کرائم ریکارڈ بیورو کے پاس اس کے اعداد و شمار ہی نہیں ہیں) وارداتوں میں درجنوں مسلمانوں کو مار دیا گیا لیکن راہل گاندھی سمیت کانگریس کا کوئی اہم لیڈر ان کے رشتہ داروں سے ملنے اور انہیں تسلی دینے کیلئے نہیں گیا۔
مہاراشٹر میں سماج وادی کے واحد لیڈر اور مسلمانوں کے مسیحا کہے جانے والے ایم ایل اے صاحب بھی ریزرویشن کیلئے مسلمانوں میں یہ تاثر پیدا کرنے کیلئے کوشاں رہے کہ وہ مسلمانوں کی پسماندگی سے بہت رنجیدہ ہیں اور بہر صورت وہ اس کے لئے اپنی جد و جہد جاری رکھیں گے ۔لیکن ان کے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ اتر پردیش میں موجودہ یوگی حکومت سے قبل ان کی ہی پارٹی کی حکومت تھی اور ان کے نیتا جی نے اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو ۱۸ ؍فیصد ریزرویشن دیں گے جبکہ سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کے مطابق آبادی کا نصف ہی ریزر ویشن دیا جاسکتا ہے۔اس طرح کے گمراہ کن وعدے کرنے اور مسلمانوں کو ورغلاکر حکومت میں آجانے کے باوجود اتر پردیش میں کیا ہوا ؟ ریزرویشن تودور فسادات نے مزید مسلمانوں کی کمر ہی توڑ دی ۔مسلمانوں کو بیوقوف بناکر ووٹ لینے والوں سے ہم دست بستہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں بیوقوف بنانا بند کردیں ۔اگر ان میں اخلاص ہے تو اپنی اپنی پارٹیوں پر دبائو بنائیں کہ وہ اپنے انتخابی منشور میں ریزرویشن سمیت مسلمانوں کے مسائل کو شامل کرے اور انتخاب کے بعد مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں کو زمینی سطح پر نافذ کریں ۔یہی حقیقی جمہوریت اور مسلمانوں سے ناانصافی اور ظلم کو ختم کرنے کی جانب مخلصانہ کوشش ہوگی ۔خالی نعروں سے کچھ نہیں ہوتا۔