موتی خوشی کے اس سے نکالیں گے ڈھونڈ کر
پتہ: B-94/9، جوشی کالونی، دہلی ۔ ای میل : [email protected]
ہمارا ملک اس سمندر کی مانند ہے جس کی اتھاہ گہرائیوں میں ان گنت سمندری مخلوقات پل رہی ہیں۔ اس کی وسعتوں میں بھانت بھانت کی خوبصورت اور دلکش مچھلیاں محو سفر ہیں، چھوٹی ہوں یا بڑی سبھی مل جل کر اپنی زندگی اس طرح بسر کر رہی ہیں کہ جیسے سمندر کی ایک موج دوسری کے ساتھ ہوتی ہیں۔ سمندر میں موج کی فطرت ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہنے کی ہوتی ہے۔ اسی طرح دن کو رات کے ساتھ قربت اور ہم آہنگی ہوتی ہے۔ آسمان میں آفتاب روشن ہوکر تمام مخلوق کو روشنی پہنچاتا ہے۔ چاند، ستارے سب مل کر رات کے اندھیروں کو روشنیوں میں بدل دیتے ہیں، اسی طرح دن کو رات کے ساتھ قربت اور ہم آہنگی ہوتی ہے۔ آج خود کو کل کے ساتھ پیوستہ رکھتا ہے یعنی حال کا مستقبل کے ساتھ ایک ایسا فطری رشتہ ہے جس نے پوری کائنات کو اپنے اندر سمو رکھا ہے۔
سمندروں میں مچھلیاں ایک ساتھ جب تیرتی ہیں تو کتنی خوبصورت اور حسین لگتی ہیں، ان کا ایک ساتھ سمندر کی گہرائیوں میں اُترنا اور ایک ساتھ اُبھرنا کتنا دلکش منظر پیش کرتا ہے اور دیکھنے والوں کا کس طرح دل موہ لیتا ہے! لیکن جب یہی مچھلیاں تنہا تیرتی ہیں تو وہ اپنی تمام خوبیوں سے محروم نظر آتی ہیں اور پھر سمندر ہی کیا جنگلوں میں رہنے والے جانور بھی جب ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو بہت بھلے لگتے ہیں، ان کا ایک قطار میں چلنا، جھنڈ کی شکل میں ایک ساتھ چارا چرنا، سوچنے سمجھنے والوں کے لیے بڑی معنویت رکھتے ہیں۔ ان جانوروں میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنی ہی نسل والوں کو اپنی غرض کے لیے انسانوں کی طرح چیرتے پھاڑتے نہیں، نہ ہی انسانوں کی طرح ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جب بھی ان میں اختلاف و انتشار پیدا ہوا ہے اور وہ اپنے ریوڑ سے الگ ہوئے ہیں، دشمن کے لیے لقمۂ تر بن گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پوری اجتماعی زندگی ان انسانوں کے لیے باعثِ درس و عبرت ہے جو خود کو افضل المخلوق قرار دیتے ہیں اور وہ جن کی اجتماعی زندگی پارہ پارہ ہے، ان کے سمندروں کی موجیں ایک دوسرے کا سہارا بننے کے بجائے ایک دوسرے کو نگل لینے میں پیش پیش ہیں۔
کیا ایسا نہیں ہے کہ جن کی خودی بیدار نہیں وہ بہ آسانی دوسروں کے شکار بن جاتے ہیں۔ ایسے بے بس، بے حس اور بے خبر لوگوں کو تو موج کیا ساحل کی بھی تڑپ نہیں ہوتی اور جن کی خودی بیدار ہوتی ہے وہ سمندر کی گہرائیوں کا مالک بن جاتے ہیں اور اس طرح وہ دریا اور سمندر کی گہرائیوں سے بھی بخوبی واقف اور آشنا ہوتے ہیں، وہ اٹھنے والی موجوں کی پوشیدہ حقیقت کا بھرپور ادراک رکھتے ہیں اور اس کی چھپی ہوئی قوت سے بھی باخبر رہتے ہیں۔ کیا کچھ ایسے ہی حالات آج کل ہندوستان کے سیاسی سمندروں میں تیرنے والی کشتیوں کے ان ملاحوں کے نہیں، جو بغیر بادبانوں اور پتواروں کے ہی طوفانوں کا رُخ موڑنے کی کوشش میں ہلکان ہورہے ہیں، ہاں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے تمام تر دفاعی ساز و سامان سے لیس ہوکر اپنے جہازوں او رکشتیوں کو انتہائی گہرے پانیوں میں اتارکر اپنی مطلوب منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہیں۔ ان کی جہد مسلسل نے انہیں منزلِ مراد کے بہت قریب کردیا ہے۔ ان کے عزائم اور حوصلوں کے آگے ساحل بھی سرنگوں ہے۔ ظاہر ہے جہاں عزم مصمم ہو اور عمل پیہم بھی تو اسے آگے بڑھنے سے بھلا کون روک سکتا ہے۔ کامیابیاں اور کامرانیاں تو ایسوں کے قدم چومتی ہیں اور پھر یہی خشکی اور تری دونوں پر اپنی کامیابیوں کے جھنڈے لہراتے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو نامانوس بحروں اور مشکل سے مشکل زمینوں پر بھی اپنی عظمت کے نشان چھوڑ جاتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے لیے محبتوں کے دریچے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھول دیتے ہیں۔
بے شک ہمارا ملک ایک اتھاہ سمندر ہے، اس سمندر کی گہرائیوں میں ہیرے موتی بھی ہیں اور کیچڑ و کنکر بھی۔ موتی اگلنے والے صدف بھی ہیں اور جان لیوا کیڑے مکوڑے بھی ہیں۔ اب یہ شناوروں کی قسمت اور ان کی اہلیت پر منحصر ہے کہ ان کے ہاتھ کیا آتا ہے۔ ویسے دیکھنے میں تو یہی آتا ہے آج کے بیشتر ماہرین تیراک و شناوروں نے پورے سمندر کو اتنا گندا اور گدلا کردیا ہے کہ تہہِ آب سے سطح آب تک کسی موتی کا پہنچنا اور اس کا پہچاننا بھی اب ہر کس و ناکس کی بات نہیں رہی۔ ہر وقت اور ہر طرف تیرنے والی سیاسی کشتیوں نے سمندروں کی فطری پُرسکون لہروں کو اچھال پیدا کردینے والی لہروں میں اس طرح بدل دیا ہے کہ سمندر کی ہر مخلوق روز حشر کی طرح ہراساں و پریشان نظر آنے لگی ہے۔ ان کی زندگی کا سکون غارت ہوگیا ہے۔ ان کی آپستی محبت، مل جل کر رہنے کی صفت چھین لی گئی ہے۔ اسی طرح سمندر میں موج کی فطرت ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی تھی اب وہ نہ صرف جدا جدا ہیں بلکہ ایک دوسرے کی دشمن بھی بنی ہوئی ہیں۔
دراصل اس عظیم ملک کے اس عظیم سمندر میں طغیانی جیسے حالات پیدا کرنے میں ہمارے الگاؤ واد سیاست دانوں کا اہم رول ہے جنہوں نے دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑا۔ اور بقول شاعر یہی وہ لوگ تو ہیں جو:
منجدھار میں لے جا کے ڈبو دیتے ہیں کشتی
جن ہاتھوں میں تم دیکھو گے پتوار ہمیشہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت خشکی اور تری میں فساد جو برپا ہے وہ انہیں سیاست دانوں کی کمائی کے نتیجے میں ہی ہے۔ بہرحال اس وقت پوری دنیا ان خود غرضوں اور شکم پروروں کی زد میں ہے۔ ہر طرف بے چینی، ہاہاکار، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کرکے انسانوں سے انسانیت اور جانوروں سے ان کی فطرت چھینی جارہی ہے۔ ہر ایک سے ان کی تہذیب و اقتدار جنگ و سیاست کے ذریعے چھین لینے یا انہیں ختم کردینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ایک ایسے طبقے نے جنم لے لیا ہے جس کی عسکری برتری سے ملک کا ہر طبقہ خائف و پریشان ہے اور سچ کہیں تو یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے پورے ملک کو یرغمال بنارکھا ہے۔ اس صورت حال سے ملک کے عوام بڑی ہی سنگین اور ناگفتہ بہ صورت حال سے دوچار ہیں اور یہ صورت حال ملک کے ہر دردمند و باشعور شہری کے لیے لمحہ فکریہ بھی بن گئی ہے۔ ایسی صورت میں تو یہی کہا جائے گا نا کہ:
ڈھونڈتے رہنے سے شاید کوئی انساں مل جائے
یوں تو انسانوں کا ہے اک سمندر دُنیا
امن و آشتی کا عظیم ہندوستان، صوفی، سنتوں اور رشی منیوں کا مسکن اور اہنسا کے علمبردار مہاتما گاندھی کا ملک، مختلف تہذیبوں مختلف قدروں اور مذاہب کا سنگم کہا جانے والا ہندوستان اب اپنی پہچان کھونے لگا ہے۔ محبتوں اور اخوتوں کا سمندر سوکھنے لگا ہے، اس کا صاف و شفاف پانی بھانت بھانت کی گندگیوں اور کیچڑوں میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ ابھی کل تک ہر صبح جگہ جگہ بنے گھاٹوں پر اشنان کرکے لوگ اپنے پاپ دھوتے اور چڑھتے سورج کی پوجا کرتے تھے اور پیاسے اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ مگر جب سے گنگا اور جمنا میلی ہوئی ہیں، ان پوتر دریاؤں کے گھاٹ سُونے ہوگئے ہیں۔ قدم قدم پر بنے کنوئیں بھی سوکھ کر تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں، تو اب امن و شانتی کے پجاری اپنی پیاس کہاں بجھائیں؟ برسات کے موسموں میں جب دریاؤں میں طغیانی آتی تھی تو ہر طرف ہریالی کا بڑا ہی خوبصورت منظر ہوتا، چرند، پرند سبھی لطف اندوز ہوتے تھے، ایک ساتھ چہکتے چہچہاتے تو سبھی کے دل کھل اٹھتے تھے اور اب تو ہر طرف سوکھا ہی سوکھا، نمی کا کوئی نشان نہیں، تو ایسے میں محبتوں کے پھول کیسے کھلیں گے۔ سوکھی اور اوبڑ کھابڑ زمینوں میں ببول اور کیکڑ کی جھاڑیاں ہی تو اگیں گی۔ دریاؤں اور سمندروں میں جب خشکی پیدا ہوجائے گی تو تیراکوں کو صدف کے بجائے کنکر ہی تو ہاتھ لگیں گے۔ کسی نے ٹھیک ہی تو کہا ہے کہ: