صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

شر میں خیر

258,667
جماعت اسلامی کی جانب سے تقسیم کی جانے والی رمضان کٹس

ممتاز میر

ہم جماعت اسلامی کے دوست بھی ہیں اور دشمن بھی ۔ دوست اسلئے ہیں کہ ہم تو پیدا ہی جماعت اسلامی والوں کے درمیان ہوئے تھے ہمارے والد دو بار جماعت کے عشق میں سنت یوسفی سے سرفراز ہوئے۔ والد کی جیل یاترا کے دوران ہمارے خاندان پر جو کچھ بھی بیتی اس پر ہمارے خاندان کا کوئی فرد نہ کبھی پشیمان ہوا اور نہ حرف شکایت زبان پر لایا بلکہ ہم نے ہمیشہ اس پر فخر کیا۔ مگر اب برسوں ہو گئے ہم جماعت سے نہیں بلکہ افراد جماعت سے ناراض رہتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اب جو نئی پود جماعت میں ابھر کر آئی ہے اسے معلوم ہی نہیں کہ جماعت تناور درخت کس طرح بنی ۔ وہ کیا کھاد اور پانی اور نگہداشت جماعت کو دی گئی کہ مسلم دنیا کی بہترین فصل کے طور پر جماعت تیار ہوئی جن قربانیوں کے طفیل جماعت یہاں تک پہونچی ان کو پھر موجودہ دور میں پیش کرنے کی استطاعت تو دور جماعت کی موجودہ نسل کو اس کا شعور تک نہیں۔ بلا شبہ جماعت کے کاموں میں بہت بہت وسعت پیدا ہو چکی ہے مگر افراد کی تربیت کا معیار دن بدن گرتاجا رہا ہے اور جو لوگ جماعت کے کاموں کی وسعت کی بنیاد پر اسے ترقی پذیر سمجھتے ہیں ہمارے نزدیک احمق ہیں۔ ہمیں غیر تربیت یافتہ افراد کے ،دنیا سے ڈرنے والے افراد کے ،حالات کے جبر سے خوف زدہ ہوجانے والے افراد کے،جماعت کی رگوں میں پھیل جانے سے ڈر لگتا ہے خدا نہ کرے کے یہ لوگ جماعت کے زوال کا سبب بننے سے آگے بڑھ کر خاتمے کاباعث بن جائیں۔

جماعت کے ساتھ ایک خوش نصیبی یہ رہی کے بڑ ے بڑے افراد اسے چھوڑ کر گئے مگر کسی نے جماعت اسلامی اے بی سی بنانے کی کوشش نہیں کی ۔ بالکل ابتدا میں مولانا منظور نعمانی نے اسے چھوڑا ، مولانا وحیدالدین خان نے چھوڑا ، مولانا شمس پیرزادہ الگ ہوئے ، ادھر مولانا امین احسن اصلاحی الگ ہوئے ، ڈاکٹر اسرار احمد نے چھوڑا، مگر سب نے اپنے دم پر اپنی شخصیت کو بنایا منوایا ۔ کسی نے جماعت کے سہارے اوپر آنے کی کوشش نہیں کی اور مولانا وحیدالدین خاں کے سوا کسی نے معاندانہ رویہ بھی نہ اپنایا ۔ ہمارے علم کی حد تک یہ مسلمانوں کی واحد جماعت ہے جس میں آج بھی’اتنے ترقی یافتہ‘ دور میں بھی امیر منتخب ہوتا ہے جس کا جانے والے امیر سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا گزشتہ ۸۰ سالوں کے دوران امارت وراثت میں کسی کو بھی نہ ملی ۔ تبلیغی جماعت کو گو کہ زمین سے نیچے اور آسمان سے اوپر کی بات کرنے والوں کی جماعت کہا جاتا ہے مگر وراثت کے معاملے میں وہ بھی زمین کے اوپر والے ہی ہیں ۔ بہرحال جماعت اپنی تمام خامیوں کمیوں اور کوتاہیوں کے باوجود مسلمانوں کے درمیان وطن عزیز کی سب سے بڑی ،منظم اور فعال جماعت ہے اور ہم جیسے نہ جانے کتنے ہیں جو بہت ساری شکایتوں کے باوجود جماعت سے دور نہیں جا پاتے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کے تعلق سے اتنی سای باتیں کرنے کی وجہ کیا ہے؟ وجہ ہے وہ فرض کفایہ جو جماعت آج ادا کر رہی ہے ۔ اللہ کا احسان ہے کہ سوشل میڈیا پر اس تعلق سے دھوم مچی ہوئی ہے ۔ یہ بات ہم بچپن سے سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں کہ وطن عزیز میں دو تنظیمیں ریلیف ورک میں مشہور ہیں ۔ ایک راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور دوسری جماعت اسلامی مگر آج ملک کی رگوں میں سانپ کے زہر کی طرح سرایت کر جانے والی سنگھ کا نام کہیں سنائی نہیں پڑ رہا ہے اور اگر کر بھی رہی ہے توا پنوں کے درمیان ۔ شاید کپڑے دیکھ کر ، شاید جئے سری رام بلوا کر ، شاید ذات پوچھ کر ۔ یہ بھی وجہ ہوسکتی ہے شاید وہ اپنے تئیں وطن عزیز پر اپنے قبضے کو مکمل سمجھتی ہو ۔اب وہ ریلیف کا کام کرے نہ کرے لوگوں کو خوشی سے جبر سے وہی کرنا ہے جو وہ چاہتی ہے ۔ مہاجر مزدوروں کو لاوارث چھوڑ دینا اس کاایک مظہر ہے ۔

مگر جماعت مسلمانوں کے درمیان ہی نہیں شاید پورے ملک کی تمام اقوام کے درمیان سب سے زیادہ ریلیف ورک کر رہی ہے ۔ کچھ  سردار(سکھ) بھی کر رہے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ نمایاں کام جماعت اسلامی کاہی ہے ۔ پورے ملک سے اس تعلق سے ہم تک خبریں آرہی ہیں۔ لوگوں کو کھانے پینے کا سامان ہی فراہم نہیں کیا جا رہاہے بلکہ کرونا سے بچاؤ کی خاطر لوگوں تک طبی امداد فراہم کی جارہی ہے اس میدان میں بھی جماعت ایک غیر سرکاری تنظیم کے بطور اپنی استطاعت بھر کام کر رہی ہے ۔ مگر یہ تو سارا کھیل ہی depopulation کی خاطر کھیلا گیا ہے جہاں ہماری احادیث یہ کہتی ہیں کہ آخری زمانہ میں زبردست خون خرابہ ہوگا۔ انسانی آبادی بہت ہی کم رہ جائے گی وہیں یہودی مآخذات بھی آخری معرکے سے پہلے انسانی آبادی کو ایک تہائی تک لانے کی بات کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود ہمارے فرائض ساقط نہیں ہوتے۔ وطن عزیز میں مسلمانوں کے درمیان ریلیف ورک انجام دینے والی جماعت سے بڑی اور منظم کوئی تنظیم نہیں بالکل ویسے جیسے قانونی امداد میں جمعیۃالعلماء سے بڑی اور ماہر کوئی تنظیم نہیں۔

مگر جماعت کی کچھ اور بھی خصوصیات ہیں ۔جماعت کے پاس ڈزاسٹر منجمنٹ کے بھی تربیت یافتہ افراد ہیں۔ سیلاب ہو زلزلہ ہوآگ لگنے کے واقعات ہوں جماعت ہر طرح کے Disaster Management کے لئے اپنے کیڈرس کو تربیت دلواتی ہے اور وہ تربیت یافتہ افراد پھر اپنے لوگوں کو تربیت دیتے ہیں ۔ خیر ،بات تو لاک ڈاؤن کی چل رہی تھی جہاں جماعت کے نوجوان نہ صرف آبادیوں میں بلکہ Highways پر بھی چلچلاتی دھوپ میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مگر بات صرف جماعت تک ہوتی تو یہ مضمون لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ جماعت مسلم دنیا کی ایک بہت مالدار این جی او ہے ۔ جماعت کے پاس صدقات خیرات و زکوٰۃ کی مد میں بہت پیسہ آتا ہے ۔ پھر لٹریچر کے معاملے میں بھی جماعت مسلم دنیا کی صف اول کی تنظیموں میں سے ہے ۔ تو اگر جماعت پیسے خرچ کر رہی ہے تو کوئی بڑی بات نہیں۔ مگر بات اس سے آگے کی نہیں بہت آگے کی ہے۔ ہمارے پاس رمضان کے آخری دنوں میں کچھ ویڈیو آئے ہیں ۔ویڈیو دیکھ کر اس بات کی تصدیق ہوئی کہ انتہائی زوال کی حالت میں بھی ہماری قوم میںکچھ غیر معمولی خوبیاں ہیں ۔یہ قوم کی بہت بڑی بد بختی ہے کہ اسے آزادی کے بعد چونی چھاپ لیڈر نصیب ہوئے۔

دو ویڈیو کو دیکھتے ہی ہم نے یہ طے کر لیا تھا کہ ہم اس پر لکھیں گے۔ ایک ویڈیو ودربھ کے شہر ملکا پور کا ہے جہاں ہماری تین بہنیں بیاہی ہیں اور اکثر ہمارا وہاں جانا ہوتا ہے ۔ دوسرا بھوپال کے قریب کا ہے۔بھساول سے جو ایکسپریس ٹرین نکلتی ہے وہ ملکا پور جاکر ہی رکتی ہے ۔ملکاپور آنے سے ایک آدھ کلو میٹر پہلے ریلوے لائن کے دونوں طرف مسلمانوں کی بستی ہے ۔ایسی بستیاں عموما ہر شہر میں ہوتی ہیں ۔اور غریبوں کی نہیں بلکہ  below poverty line کی ہوتی ہے۔ تو صاحب ،ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ مہاجر مزدوروں کی ٹرین اس جگہ رکتی ہے ۔بستی کے بہت سارے افراد ،مرد عورتیں بچے بوڑھے ،جس کے ہاتھ کھانے کا جو سامان لگتا ہے ان مزدوروں کے لئے لے کر ٹرین کی طرف بھاگتا ہے ۔اور بڑے شوق سے انھیں کھلا تا ہے ۔ ایک ۱۸؍۲۰ سال کا لڑکا نمکین کے پاؤچ،قریب ۵؍۶ پاؤچ کی لڑ ٹرین کی کھڑکیوں کی طرف اچھالتے دکھا گیا ہے ۔مگر ان ہیروؤں کے درمیان ایک ولین کا کردار بھی نظرآتا ہے۔ ایک پو لس والامفت کھانے کی چیزیں بانٹنے والے ان روزہ داروں پر ڈنڈے برسا رہا ہے ۔اور ہمارے جگر گوشے اس سے بچ بچ کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔بالکل ایسا ہی ایک ویڈیو بھوپال کا بھی ہے بس فرق یہ ہے کہ اس میں کوئی ولین نہیں ہے ۔اور بستی کے لوگوں نے پہلے ہی سے کھانا پکا کر پانی کے پاؤچز کو برف میں ڈال کر مزدوروں کی خدمت کی تیاری کر رکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو گالیاں دینے والے اب کہاں ہیں ؟اور یہ کیسی قوم ہے کہ گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہیں ہو رہی ہے ؟عقل کے اندھو !ذرا سوچو تو یہ کردار آیا کہاں سے ؟ارے۔ یہ اسی اسلام کے طفیل ہے جسے گالیاں دینے سے تمھاری زبان نہیں تھکتی۔

کاش ہارے پاس میڈیا ہوتا!پھر سوال یہ ہے ،تو کیا ہوتا؟کیا ہم بھی اسی طرح دن بھر ویڈیو چلا کر اپنی خدمات کا ڈھنڈورا پیٹتے ۔شاید نہیں ،ہم آج بھی اتنے کم ظرف نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137

Leave A Reply

Your email address will not be published.