صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

تعلیم اور مسلمانوں کے مسائل

1,622

 

 

آٹھ اپریل کے سہ روزہ دعوت دہلی کے صفحہ نمبر ۵ پر حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’مسلمانوں کے مسائل کا حل تعلیم میں مضمر‘اس مضمون کے مندرجات کے ایک بڑے حصے سے اتفاق رکھنے کے باوجود ہم عنوان سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ کیوں نہیں رکھتے اس کا تجزیہ خود ہمارے لئے بڑا مشکل ہے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بلا شک و شبہ قرآن و حدیث کی تعلیم ہمارے تمام مسائل کا حل ہے مگر صاحب مضمون نے مروجہ تعلیم کو بھی اس میں شامل کرلیا ہے ۔ ہم یہاں کچھ مثالیں پیش کرتے ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ کوئی عالم دین یا عالم دنیا(ہم فی الوقت علم کی یہ دوئی قائم کرنے پر مجبور ہیں)ہمارے اشکالات کا جواب دے گا۔
(۱) جب حضور ﷺ پر غارحرا میں پہلی وحی کا نزول ہوا توآپ ﷺ نے غار حرا سے واپس آکر تعلیمی ادارے قائم کرنے کی کوئی کوشش کیوں نہیں کی؟جب کہ ہمارے علماء کرام برسوں سے کہتے آرہے ہیں کہ ہمارے تو دین کی ابتدا ہی تعلیم سے ہوئی ہے ۔ بلا شبہ آپ ﷺ ۱۳ سالہ مکی زندگی میں تعلیم ہی دیتے رہے مگر اس وقت کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی نہیں بلکہ آپ نے اللہ کی ذات وصفات کی تعلیم دی ۔ رسالت کے لوازمات کی تعلیم دی ۔ آخرت پر یقین کی تعلیم دی جنت و دوزخ کے مناظر دکھائے اور اس پر ایمان کی تعلیم دی ۔ (اس وقت کی بات جانے دیجئے آج ۱۴۰۰ سو سال بعد ایمان والوں کا بھی اس پر ایمان نہیں ہے) یہ بات مروجہ نصاب سے اتنی ہٹ کر تھی کہ چند انتہائی قریبی نفوس کو چھوڑ کرآپ کے صادق و امین ہونے کے باوجود کسی نے اس پر کان نہ دھرا ۔ یہ بات واضح رہے کہ دہائی گزر گئیں ہمارے علماء کرام سے یہ سنتے سنتے کہ ہم فی الوقت مکی زندگی جی رہے ہیں ۔پھر غزوہ بدر کا واقعہ پیش آتا ہے ۔ اس میں وقت کا جدید ترین لشکر مخالف ہوتا ہے ، دوسری طرف وقت کے انتہائی پسماندہ لوگ ۔ یہ پسماندہ لوگ فتحیاب ہوتے ہیں ۔ اور اسلامی زندگی میں پہلی بار تعلیم کا ذکر آتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہر اعتبار سے پسماندہ لشکر کس طرح غالب آتا ہے ؟ ہمارے نزدیک لفظ’بنیان مرصوص‘میں اس کا راز پوشیدہ ہےَ ۔
(۲)ہلاکو خان خلافت بغداد پر حملہ آور ہوتا ہے ۔ اور بغداد میں قتل عام کرتا  ہے ۔ یہاں تک کہ خلیفہ کو گھوڑوں سے کچلوا دیتا ہے ۔ بغداد اس وقت دنیا کا جدید ترین اور دنیا کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ شہر تھا ۔ ساری سائنس اور ٹیکنالوجی کا ابلاغ دنیا بھر میں یہیں سے ہوتا تھا ۔ پھر اپنے وقت کا ’امریکہ ‘اپنے وقت کے ’افغانستان‘سے مغلوب کیوں ہوگیا ؟ ہمارے نزدیک وجہ ہے قوم کا بنیان مرصوص نہ ہونا ۔ علماء کرام کا دین کو بازیچہء اطفال بنا دینا ۔
(۳)۱۴۹۲ میں اسپین میں شاہ فرڈیننڈ نے شاہ عبداللہ کو یا کہئے مسلمانوں کو اسپین سے نکال دیا تھا ۔ اسپین کے اس وقت کے مسلمان دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم تھے ۔ ان کی یونیورسٹیوں میں دنیا بھر کے مسلمان علم حاصل کرنے کے لئے آتے تھے۔دنیا بھر کی قومیں ان کی کتابوں کے ترجمے کروا کر علم حاصل کرتی تھی ۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو اپنی تاریخ کی بد ترین پسپائی وہاں نصیب ہوئی ۔ کیوں ؟
(۴) جس وقت انگریز ہندوستان وارد ہوئے کیا اس وقت ہندوستانی تعلیم یافتہ نہ تھے ؟ اس وقت وطن عزیز کوکیا سونے کی چڑیا یونہی کہا جاتا تھا ؟ کیا یہ ان پڑھ لوگوں کے لئے ممکن ہے ؟ تاج محل جیسا دنیا کا عجوبہ لال قلعہ جیسا شاہ کار جھولتے مینار جیسی لاینحل ٹیکنالوجی دنیا کو فراہم کرنے والی قوم جاہل ہو سکتی ہے ؟ پھر بھی ہندوستان جیسے عظیم ملک پر انگریز دھیرے دھیرے غالب آتے گئے ۔ جبکہ بڑے فخر سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا میزائل ٹیپو سلطان نے بنایا تھا۔پھر انگریز غالب کیسے آ گئے؟ اب جدید دور کو لیجئے۔ دنیا کی جاہل ترین قوم افغانیوں نے دنیا کی دونوں سپر پاوروں کو کیسے ٹھکانے لگا دیا۔تاریخ سے اور بھی درجنوں مثالیں کشید کی جا سکتی ہیں۔پھر قوموں کے غلبے کا یہ اصول صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں ہے۔بلکہ یہ دنیا کی دیگر قوموں پر بھی منطبق ہوتا ہے۔سب سے موٹی مثال فارس وروما یا قیصر و کسریٰ جو کہ اس وقت کے سپر پاور تھے ان کی مسلمانوں کے ہاتھوں تباہی ہے ۔
اب آئیے اس تصور کو لیتے ہیں کہ تعلیم کا کوئی تعلق مال و دولت سے ہے ۔ بچپن سے ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ شہروں گاؤں قصبوں میں دھنوان عموماً جاہل مطلق ہوا کرتے ہیں ۔ ’انگوٹھے بہادر‘بڑے بڑے سیٹھ کہلاتے رہے ہیں۔اور آج بھی دنیا کا سب سے زیادہ مالدار آدمی اور مائکروسوفٹ کا بانی چند کلاسیں پڑھا ہوا ہے ۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ مالدار امبانی برادران ہیں۔جنھیں یہ دولت اپنے والد سے وراثت میں ملی ہے ۔ دھیرو بھائی امبانی صرف میٹرک پاس ایک پٹرول پمپ پر پٹرول بھرنے کا کام کرتا تھا ۔ اور ہم تو اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ رزق کی ذمے داری خدائے بزرگ و برتر نے لے رکھی ہے ۔ اور پورے قرآن میں اس نے یہ کہیں نہیں کہا ہے کہ میں تعلیم یافتہ کو رزق دونگا جاہل کو نہ دونگا۔یہ تک نہیں کہا کہ میں انسان کو دونگا جانور کو نہ دونگا ۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ بھی ایک افسانہ (فرضی داستان) ہے کہ تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کا کوئی تعلق ہے ۔ ابھی اوپر ہم نے لکھا ہے کہ مائکروسوفٹ کا بانی چند کلاسیں پڑھا ہوا تھا ۔ ۱۹ ویں صدی کا سب سے بڑا موجد تھامس ایڈیسن بھی جاہل تھا ۔یہی نہیں آج کی سائنس کی بنیاد رکھنے والے تمام کے تمام سائنس داں جن میں گنے چنے غیر مسلم بھی تھے کسی کالج کسی یونیورسٹی ، کسی انجینئرنگ کالج یا ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ سے سند یافتہ نہ تھے ۔ پھر ان کی تعلیم کیا تھی ؟ سب کے سب بشمول غیر مسلم قرآن حدیث وفقہ کے تعلیم یافتہ تھے ۔ کیااس سے یہ پتہ نہیں چلتاکے سائنس و ٹیکنالوجی کے لئے تعلیم کا افسانہ بھی بس افسانہ ہے ۔ سچ یہ ہے کہ جو سوچتا ہے غورو فکر کرتا ہے وہ دنیا میں آگے بڑھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں سوچنے غور و فکر کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی گئی ہے ۔ ہمارے یہاں کے دانشور امریکہ کی ترقی اور سپر پاوری سے بہت مرعوب ہیں ۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اب امریکہ زوال پزیر ملک ہے پھر آج وہ جو کچھ بھی ہے اسے سمجھنے کے لئے ہمارا یہ مضمون نیک نیتی اور سنجیدگی سے پڑھ لیجئے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تعلیم کی اہمیت کیا ہے ؟ اسے بڑے بہترین انداز میں ایک فلمی کہانی کار نے بیان کیا ہے ۔قریب دس سال قبل ایک فلم آئی تھی تھری ایڈیٹس۔اس فلم کا ایک ڈائیلاگ ہے ’کامیاب ہونے کے لئے مت پڑھو ،قابل بننے کے لئے پڑھو‘۔ہمارے نزدیک تعلیم کی اس سے بہتر تعریف ممکن نہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کے یہی اسلام کا بھی موقف ہے ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ یو پی ایس سی میں کامیاب ہونے والے طلبا اپنے فیلڈ کے عموماً ٹاپرس نہیں ہوتے۔وہ بس قابل ہوتے ہیں۔ تعلیم پر اس طرح باتیں کرنا فی زمانہ بھیڑ چال ہے ۔ عام دانشور کریں تو کوئی بات نہیں ۔ علماء کرام تو خوب جانتے ہیں کہ ’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘وہ بھی عام سطح پر آکر اپنی بات رکھیں تو افسوس ہوتا ہے ۔

 

ممتاز میر

Leave A Reply

Your email address will not be published.