نہال صغیر
مرکز اور ریاست اتر پردیش میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے تب سے ہندو شدت پسند تنظیمیں خود کو ہر قانون سے بالاتر ہو کر ذرا ذرا سی بات پر آمادہ فساد ہونا شروع ہوگئی ہیں ۔ ان کی ایسی حرکتوں کے سبب اب ان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں رکھنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ ان کی حرکتوں سے پورا اتر پردیش ہر وقت انجانے خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ جانے کب کیا ہو جائے ۔ بلند شہر کے ایک گائوں سیانا کے چنگراوٹی چوراہے پر جو کچھ ہوا وہ ان کی کھلی غنڈہ گردی ہی نہیں بلکہ دہشت گردی کا ثبوت ہے ۔ یہ حرکتیں وہ اس لئے کررہے ہیں کہ پولس انتظامیہ اور حکومت کی خاموش حمایت انہیں حاصل ہے ۔ یہاں میڈیا بھی غیر ذمہ دارانہ خبروں کی اشاعت کے ساتھ دوسرے فرقوں میں بھرم پھیلانے اور خوف و دہشت کا سبب بنتا ہے ۔ مذکورہ خبر کی ترسیل میں بھی یہ نظریہ کار فرما نظر آتا ہے ۔ اس خبر میں عظیم پیمانے پر پھیلے تشدد کو ہلکا کرکے دکھایا جارہا ہے اور اس میں بنیادی طور سے سلاٹر ہائوس کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ خبروں کے مطابق گائے بیلوں کے باقیات ملنے پر ہندو دہشت گرد تنظیموں بجرنگ دل اور ہندو یووا واہنی کے اراکین نے گائوں والوں کو ورغلا کر پورے باقیات کو ٹریکٹر میں بھر کر چوراہے پر لاکر گائوں کے ہندو نوجوانوں کے ذہنوں کو تشدد پر آمادہ کیا جس کا انجام یہ ہوا کہ وہ پولس کے سمجھانے بجھانے پر نہیں مانے اور انہوں نے پولس پر پتھرائو کردیا ۔ اس دوران فائرنگ بھی ہوئی جس میں ایک پولس انسپکٹر سمیت ایک نوجوان ہلاک ہو گیا ۔ ہلاک نوجوان کے عزیزوں نے بتایا کہ اس کا اس ہنگامے سےکوئی سروکار نہیں تھا وہ تو ایک دوست کو چھوڑنے جارہا تھا ۔ ایسا ہی ہوتا ہے تشدد میں اس کے ذمہ دار صاف بچ کر نکل جاتے ہیں اور عام لوگ اس کا شکار بنتے ہیں ۔
فسادیوں کو فساد کرنے کا بہانہ چاہئے ۔ موجودہ حکومت پوری طرح فسادیوں کی پشت پناہ بن چکی ہے وہ انہیں پورا موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں ان سےے کوئی تفتیش نہیں ہو گی ۔ یہ سب کچھ ہندوتوا کی بازیافت کے نام پر ہو رہا ہے ۔ مذکورہ فساد میں بھی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ کہیں سے بھر بھر کر گائے بیلوں کے باقیات اکٹھا کرلئے گئے اور اسے لے کر ایک چوراہے پر اکٹھا ہو کر انتظامیہ کیخلاف احتجاج کیا جانے لگا ۔ مقصد صرف احتجاج کرنا ہی نہیں تھا اگر صرف احتجاج کرنا اور اپنے جذبات سے انتظامیہ کو باخبر کرنا مقصد ہوتا تو اتنا بڑا فساد نہیں ہوتا اور دو انسانی جانوں کا ضیاع نہیں ہوتا ۔ فساد کی جو تصاویر میڈیا کے ذریعہ سے سامنے آرہی ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے کہ فسادی کتنے جری ہو گئے ہیں ۔ موقعہ پر بکھری ہوئی ٹوٹی پھوٹی گاڑیاں اور اینٹوں اور پتھروں سے اٹے ہوئے زمین یہ گواہی دینے کے لئے کافی ہیں کہ یوگی حکومت میں امن و قانون کے دشمن بے لگام ہو چکے ہیں ۔ انہیں قابو میں لانے کیلئے ضروری ہے کہ مرکزی حکومت سخت انتباہ جاری کرے اور اگر اس کے بعد بھی اتر پردیش میں امن و قانون کی صورتحال ٹھیک نہیں ہوتی تو یوگی حکومت کو معزول کرکے صدر راج کا نفاذ کردینا چاہئے ۔
یوگی حکومت میں پولس انتظامیہ یا تو مفلوج ہو گئی ہے یا اسے ایک واضح اشارہ دیا ہوا ہے کہ اسے کہاں رد عمل ظاہر کرنا ہے اور کہاں نہیں ۔ بلند شہر کے حالیہ فساد میں بھی یہی خفیہ اشارہ نظر آتا ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو بتایا جائے کہ پولس کیا کررہی تھی جب گائے اور بیلوں کے باقیات اکٹھا کرکے ٹریکٹر میں بھر کر لے جایا جارہا تھا ؟ یہاں پولس کی تساہلی یا چشم پوشی صاف نظر آتی ہےجس کا خمیازہ خود پولس کو ہی بھگتنا پڑا کہ اس کے محکمہ کا ایک انسپکٹر اس فساد کا شکار ہو گیا ۔ تقریبا دو برسوں سے اتر پردیش کے مختلف قصبات اور شہروں میں معمولی معمولی باتوں پر جھڑپ ہو جاتی ہے ۔ یکطرفہ طور پر مسلم نوجوانوں پر مقدمات قائم کئے جاتے ہیں اور پھر مسلم محلوں میں کامبنگ آپریشن کے ذریعہ خوف و دہشت کا ماحول بنا کر مسلمانوں کو یا تو گائوں چھوڑ دینے کو مجبور کیا جاتا ہے یا پھر انہیں خوف کے ماحول میں زبان بند کرکے رہنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔
شکر ہے کہ بلند شہر کے حالیہ فساد فساد میں کوئی مسلمان نہیں تھا یہ راست طور پر پولس اورہندو شدت پسندوں کے درمیان تھا ورنہ ہوتا یہ کہ اس کا بہانہ بنا کر مسلم نوجوانوں کی بے تحاشہ گرفتاریاں کی جاتیں ۔ اب حکومت و انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کے دشمن فسادیوں جو ہندو یووا واہنی اور بجرنگ دل کی شکل میں ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ آئندہ کسی کو امن و امان کی صورتحال بگاڑنے کی جرات نہ ہو ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو فسادیوں کے حوصلے بلند ہوں گے ۔ ریاست کی حالت مخدوش ہوگی اور اس کا اثر صرف ایک فرقہ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس سے پوری ریاست متاثر ہو گی جس سے نہ صرف انتشار بڑھے گا بلکہ روزگار اور اس کے وسائل بھی متاثر ہوں گے ۔ ریاست ملک یا دنیا میں ترقی صرف اسی وقت ممکن ہے جب پوری طرح سے امن و امان ہو اور کسی کو اس کی اجازت نہ ہو کہ وہ انتشار پھیلانے کیلئے آزاد ہے ۔ اگر اتنی سی بات سمجھ میں آجائے تو ملک یا ریاست اتر پردیش کی ترقی ممکن ہے ورنہ ہوگا یہ کہ جی ڈی پی آگے جانے کی بجائے نیچے کو گرے گی اور بے روز گار نوجوانوں کی تعداد میں تخفیف کی بجائے اور اضافہ ہی ہوگا جو ذرا ذرا سی بات پر سڑکوں پر نکل فساد کھڑے کریں گے اور ملک میں انارکی پھیلائیں گے ۔