صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

سیاسی مقاصد کے لیے ’’پیغمبر محمد ﷺ بل‘‘ پیش کرنے کا الزام۔ ڈرافٹ کمیٹی نے الزامات مسترد کیے

58,319

پہلے سے موجود قانون کو ہی مؤثر بنایا جائے : ماہرین کا مطالبہ

ممبئی : ہندوستان میں موجودہ دور میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش رچی جارہی جسے سازش کی بجائے ایک منصوبہ بند کھیل کا حصہ سمجھا جانا چاہیے۔ بقول عبدالباری خان فرقہ پرست عناصر جن میں سنگھ اور اس کی ہم خیال تنظیمیں سر فہرست ہیں، وہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرکے ملک کو پوری طرح سے انتشار و انارکی کے غار میں دھکیل دینا چاہتی ہیں تاکہ آسانی کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر کاربند رہ سکیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک ایسا قانون بنے جس کے تحت مذہبی جذبات سے کھیلنے والے افراد کو قرار واقعی سزا مل سکے۔ اس مقصد کے تحت مہاراشٹر اسمبلی میں ’’توہین مخالف بل برائے پیغمبر محمدﷺ اور دیگر مذہبی پیشوا‘‘ کا ڈرافٹ پیش ہونے والا تھا لیکن اسمبلی کی مدت کار کے انتہائی کم ہونے کے سبب یہ بحث کیلیے پیش نہیں ہو سکا۔ ڈرافٹ کمیٹی کے رکن عبد الباری خان نے بتایا کہ اس کا مقصد توہین رسالت پر قدغن لگانا ہے، جس کا سامنا ہم آئے دن کر رہے ہیں۔ عبدالباری خان کے مطابق پہلے سے جو قوانین موجود ہیں ان میں خصوصی طور سے ۲۹۵؍اے میں لچک ہے جس کی وجہ سے مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں۔ ویسے یہ بل سبھی مذاہب ومذہبی رہنماوں کی عزت وحرمت کا احاطہ کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ کئی ماہ قبل کسی جلسہ میں پرکاش امبیڈکر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسا ایک بل اسمبلی میں لانے کا ارادہ رکھتے ہیں، چنانچہ یہ اسی وعدہ کی تکمیل ہے۔ مذکورہ بل سیکولر مزاج کپل پاٹل کے ذریعہ آیا جو گریجویٹ حلقہ سے رکن اسمبلی ہیں اور وہ سبھی انصاف پسندوں کے درمیان یکساں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
جمعیتہ العلما مہاراشٹر کے سربراہ حافظ ندیم صدیقی نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ حرمت رسول کا معاملہ پوری مسلم امت کا معاملہ ہے اس لیے اس پر مسلمانوں کی اہم شخصیات، سبھی پارٹیوں کے مسلم ایم ایل ایز اور ماہرین قوانین سے صلاح ومشورہ کے بعد پوری تیاری کے ساتھ متفقہ طور پر آنا چاہیے تھا، محض ایک رکن اسمبلی کپل پاٹل کے ذریعہ یہ بل پیش کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ بل کو پوری تیاری کے ساتھ پیش کرنے کے بعد پھر ہم دیگر پارٹیوں پر دباو بناتے کہ وہ اس کی حمایت کریں اور اسے اسمبلی میں پاس کروائیں تاکہ توہین رسالتﷺ کا سلسلہ تھمے جس سے فرقہ وارانہ صورتحال کو خراب ہونے سے بچایا جا سکے۔ ندیم صدیقی نے بتایا کہ اخبارات میں خبروں کی اشاعت سے بل کے پاس ہونے میں رکاوٹ آئے گی اس لیے تشہیر سے بچ کر خاموشی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
جمعیتہ العلما قانونی امداد کمیٹی کے ذمہ دار گلزار اعظمی نے مذکورہ بل پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’’بل پیش کرنے کا مقصد اگر نبی ﷺ کی توہین روکنے کی بجائے محض خود نمائی یا کسی سیاسی پارٹی کو سیاسی فائدہ پہنچانا ہو تو یہ غلط ہے۔ اخلاص کے ساتھ نہ صرف نبی ﷺ کی توہین بلکہ سبھی مذہبی شخصیات کی توہین کے خلاف کوئی قانون بنے اور اس میں سبھی انصاف پسند افراد کی شمولیت ہو تو یہ ایک بہتر کام ہو گا جس سے ایک بڑے فساد کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ یہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ ملک کے لیے بھی سود مند ہو گا۔
ممبئی کانگریس کے سابق عہدیدار اور عالم دین نے بھی بل کے تعلق سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اس میں متحرک ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقصد اس بل کے ذریعہ سیاسی مفاد کا حصول ہے۔ انہوں نے اردو اخبارات میں روزانہ شائع ہونے والی خبروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان خبروں سے خود نمائی کے علاوہ اور کیا ظاہر ہوتا ہے۔
چونکہ اس بل کے لیے ایک خاص طبقہ ہی میدان میں نظر آتا ہے جس کی خبریں روزانہ اردو اخبارات کی زینت بن رہی ہیں اس لیے کئی اہم شخصیت نے مذکورہ بل پر کسی بھی طرح کے رد عمل سے بچنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ خواہ مخواہ تنازعہ پیدا ہو جائے گا یا مسلکی بحث نکل پڑے گی جو امت کے اجتماعی مفاد کے خلاف ہے ۔
معروف صحافی اور روزنامہ ہندوستان کے مالک ومدیر سرفراز آرزو نے بل کے تعلق سے کہا کہ موجودہ اسمبلی سیشن میں اس کا بحث کے لیے آنا ممکن نہیں تھا کیونکہ اسمبلی کا حالیہ اجلاس صرف دو دن کے لیے بلایا گیا تھا اور اس میں صرف چند ہی بل پاس ہو پائے تھے۔ دوسری بات یہ کہ اسمبلی کے پہلے دن ہی بی جے پی کے بارہ اراکین کو برخواست کیے جانے کی وجہ سے خاصا ہنگامہ تھا۔ اس سوال پر کہ کیا یہ بل سیاسی مفاد کے تحت لایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ عام خیال یہی ہے کہ مذکوہ بل سیاسی مفاد کے مد نظر ہی لایا گیا ہے اور اسی تعلق سے ایک خاص گروہ کو مرکز میں رکھ کر اس کی تشہیر کی گئی ہے۔
راشٹریہ سہارا ممبئی کے سابق مدیر سعید حمید کے مطابق بل کو ہم نے بس اخبارات کے اشتہار میں دیکھا اور اس میں سنجیدگی کا فقدان نظر آیا۔ انہوں نے کہا کہ ضروری تھا کہ یہ بل یا تو مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے یا اس سے صلاح ومشورہ کے بعد باضابطہ لایا جاتا۔ بل ڈرافٹ کمیٹی کے رکن عبدالباری خان اس الزام کو مسترد کرتے ہیں کہ بل سیاسی عزائم کے تحت لایا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم خالصتاً نبی ﷺ سے محبت وعقیدت کی بناء پر ہی یہ بل لائے ہیں۔ عبدالباری خان کے مطابق انہوں نے مسلمانوں کے سبھی طبقات کی حمایت حاصل کی ہے لیکن ان کے دعوے کی صداقت کا کوئی معترف نہیں ہے۔ ملی تنظیموں کے ذمہ داروں نے کہا کہ انہوں نے ایک خط کے ذریعہ ہمیں صرف آگاہ کیا تھا کہ اس طرح کا بل ڈرافٹ کر رہے ہیں، اس سے زیادہ ہمیں کوئی جانکاری نہیں۔
ممبئی کالبا دیوی حلقہ انتخاب سے کانگریس کے ایم ایل اے امین پٹیل نے بھی بل کے تعلق سے زیادہ جانکاری سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک ہمیں اس بل کی کاپی نہیں ملی ہے۔ بل پیش کرنے والی گریجویٹ حلقہ کے ایم ایل سی نے بتایا کہ پہلے ہمیں محکمہ لا اینڈ جسٹس کی جانب سے مثبت جواب مل جائے پھر ہم دیگر ایم ایل ایز کو بل کی کاپی پیش کریں گے۔ کپل پاٹل کے مطابق بل بحث کے لیے پیش ہونے میں چھ ماہ تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا ہمیں امید ہے کہ سبھی طبقات کی جانب سے اس بل پر حمایت ملے گی کیوں یہ بل سبھی مذہبی رہنماوں کی توہین کے خلاف ہے اس لیے اسے محض مسلم عینک سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
توہین مذاہب اور فرقہ وارانہ منافرت کے خلاف قانون موجود ہے
توہین مذاہب یا دو فرقوں میں منافرت کے خلاف قانون پہلے سے ہی موجود ہے۔ ۲۹۵؍ اے اور ۱۵۳؍ اے دو ایسے قوانین ہیں جو اس کا احاطہ کرتے ہیں۔ ایڈووکیٹ شوکت علی بیڈگری کہتے کہ مجوزہ بل میں فرق اس قدر ہے کہ اس میں جرمانہ کی رقم اور قید کی مدت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ عشرت علی خان کہتے ہیں کہ خامی یا نقص قانون میں نہیں ہے کہ کسی مزید بل یا قانون کی ضرورت پڑے۔ عشرت علی خاں کے مطابق خامی قانون کے نفاذ کے لیے ذمہ دار ایجنسیوں میں ہے کہ ایف آئی آر کون لکھ رہا ہے اور چارج شیٹ کون بنا رہا ہے۔ وہ لوگ عدلیہ کے سامنے وہ کاغذات یا ثبوت پیش ہی نہیں کرتے جس سے مجرم کو سزا مل سکے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ممبئی بم دھماکہ میں گاڑی کے مالک کو سزا ہو جاتی ہے جبکہ مالیگاوں بم دھماکہ میں گاڑی کے مالک کو ضمانت مل جاتی ہے اور وہ آزاد گھوم رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ اس لیے نی قانون بنوانے کی بجائے ہمیں توجہ اس کے نفاذ کے لیے ذمہ دار اداروں کے اصلاح کی جانب کرنی چاہیے۔ یعنی پولیس فورس میں اصلاح سے ہی معاشرے میں مختلف گروہوں کے درمیان ہونے والے فسادات کو روکا جاسکتا ہے(بشکریہ ہفتہ روزہ دعوت)۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.