صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

نابینا و قوت گویائی سے محروم بچوں کو حوصلوں کی اڑان دیتا ہے ’’جامعہ عبداللہ بن ام مکتوم‘‘

66,095

ریحان سلیم پٹھان اور محمد نعمان محمد سراج نے عمرہ کے سفر کا آغاز کیا ۔ چہرے سے اُن کے دل کی کیفیت عیاں تھی۔ دونوں طلبا کو عمرہ پر جانے کی سعادت ایک انعام کی صورت میں حاصل ہوئی ہے ۔ ریحان سلیم پٹھان نے حال ہی میں قرآن حفظ کیا ہے اور انوار ہدایت ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام چلنے والے جامعہ عبداللہ بن ام مکتوم نے انہیں بطور تحفہ اِس خوبصورت اور انمول انعام سے نوازا ہے۔ دوسرے طالب علم محمد نعمان نے حال ہی میں تامل ناڈو میں منعقد ایک مسابقہ میں اول انعام حاصل کرکے خود کو ادارے کی جانب سے ملنے والے عمرہ کی سعادت کے انعام کا حقدار تسلیم کرایا۔   

 نویں جماعت میں زیرِ تعلیم ریحان پٹھان خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے خاندان میں آج تک کسی کو یہ سعادت حاصل نہیں ہوئی۔ میں اپنے اساتذہ کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ادارے اور انتظامیہ کا بھی شکریہ جنہوں نے اس سفر کا انتظام کیا۔ مہاراشٹر کے شہر پونہ کے کونڈوا علاقہ میں قائم ویژن اسکول میں گزشتہ آٹھ سال سے حافظ ریحان پٹھان دینی اور عصری علوم حاصل کر رہے ہیں۔ متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے حافظ ریحان پٹھان سافٹ ویئر انجینئر بننا چاہتے ہیں۔ اگلے سال وہ دسویں کا امتحان دے کر اپنے خواب کو پورا کرنے کی جانب قدم بڑھائیں گے۔   

 

تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے حافظ محمد نعمان محمد سراج فرط جذبات سے مغلوب ہو کر کہتے ہیں کہ جب تمل ناڈو میں منعقد ہوئے مقابلے میں کامیابی حاصل ہوئی تو مجھے بے حد خوشی ہوئی تھی ۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا مقابلہ تھا جس میں پورے ہندوستان سے نابینا حفاظ نے شرکت کی تھی ۔ اِس مقابلے میں ایک خطیر رقم بھی انعام کے طور پر پیش کی گئی تھی ۔ لیکن اِدارے کی جانب سے عمرہ کا انعام دیئے جانے کی خوشی اور  سبھی حضرات کا شکریہ ادا کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔ حافظ محمد نعمان ،جامعہ عبداللہ بن ام مکتوم میں قرآت اور بریل زبان کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ 

جامعہ عبداللہ بن ام مکتوم کے ذمّہ دار مفتی رئیس احمد بھی اپنے طلبا کے ساتھ عمرہ کے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں ۔ مفتی رئیس احمد طویل عرصے سے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ معذور افراد بھی عام لوگوں کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھنے کی قابلیت رکھتے ہیں ۔ صرف تھوڑی سی توجہ اور تعلیم کا معقول و مناسب انتظام اِن خاص بچوں کو نہ صرف اُن کے پیروں پر کھڑا کرنے کی ہمت اور حوصلہ دے گا بلکہ وہ کنبہ کی کفالت کے قابل بھی بن سکتے ہیں ۔

اِدارے نے عام لوگوں کے درمیان جاکر، قوتِ بینائی سے محروم ،قوتِ سماعت اور قوت گویائی سے محروم بچوں کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کی ایک خاص مہم کا آغاز کیا ہے ۔ اِس پہل اور کوشش میں مفتی رئیس احمد اپنے کچھ طلبا کے ساتھ اُن کی صلاحیتوں کا مظاہرہ مساجد اور دیگر مقامات پر کرتے ہیں ۔ تاکہ لوگوں کو بیدار کیا جاسکے کہ یہ بچے خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔ یہ معذور ہیں لیکن مجبور نہیں ہیں ۔ مفتی صاحب گفتگو کے دوران كہتے ہیں کہ بچوں کو انعام کے طور پر عمرہ کے سفر پر لے جانا بھی اسی مہم کا ایک حصّہ ہے ۔ ہمیں قدم قدم پر بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ وہ جوش اور ولولہ کے ساتھ زندگی کے سفر میں لگاتار آگے بڑھتے رہیں۔  

حافظ ریحان پٹھان کہتے ہیں کہ محنت، ہمت اور لگن سے جس سمت میں کوشش کی جاتی ہے منزل قدم چومتی ہے ۔ ابھی تو یہ پہلی منزل ہے لیکن ہر کامیابی حوصلہ بڑھاتی ہے ۔ وہ اپنے جیسے افراد کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اپنی کمی کو قوت میں تبدیل کرنے کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ علم حاصل کریں ،محنت کریں اور والدین ،گھر والوں اور معاشرے کو خود کفیل بن کر دکھائیں۔ حافظ محمد نعمان اپنے پیغام میں کہتے ہیں کہ مایوسی کُفر ہے ۔ خود پر بھروسہ رکھیں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر سماج میں ایک ذمّہ دار شہری بن کر ابھریں ۔ اِس کے لیے دوسروں سے کہیں زیادہ محنت کی ضرورت ہوگی ۔   

واضح رہے کہ جامعہ کی بنیاد 2013 میں رکھی گئی تھی ۔اب تک 12 طلبا حافظ قرآن بن چکے ہیں ۔عالمیت کرنے والے 6 طلبا کا بیچ آئندہ سال سند فراغت حاصل کرے گا ۔ مفتی رئیس احمد نے بتایا کہ جامعہ میں ناظرہ ، عالمیت ،حفظ ، تجوید و قرات اور شعبہ ائمہ میں 15 ریاستوں کے 150طلبا زیرِ تعلیم ہیں ۔اِس میں 25طالبات بھی شامل ہیں ۔ طالبات کی تعلیم و تربیت کے لیے عالمات کا نظم کیا گیا ہے ۔ دینی اور عصری علوم کے اِس مرکز میں نابینا بچے کمپیوٹر چلاتے ہیں, قوتِ گویائی سے محروم بچے انگلیوں سے بولتے ہیں ،قوتِ سماعت سے محروم بچے آنکھوں اور ہاتھوں سے سنتے ہیں ۔ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور سنوارنے میں مشغول یہ بچے آج اپنے دو ساتھیوں کو عمرہ کی سعادت حاصل ہونے پر خوش ہیں ۔ دعائیں دیتے اور عازمین عمرہ سے دعا کی درخواست کرتے ان بچوں کے لیے یہ لمحہ ترغیب و تحریک کا سبب ہوگا ۔ کیونکہ یہ عام بچے نہیں بلکہ اسپیشل بچے ہیں ۔ 

Leave A Reply

Your email address will not be published.