صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

جنگ کم ، افواہ زیادہ !

لوگوں کو چین سے سو نے دو

1,424

سنجئے رائوت / ترجمہ عارِف اگاسکر

’’پاکستان پر حملے کے تعلق سے کئی لوگوں نے شبہ کا اظہار کیا ہے ۔ جنگ نام کا کھیل ختم ہو نے پر بھی روزتفصیلی رپورٹیں حاصل ہو رہی ہیں ۔ حملے کے ثبوت چاہنے والے خاموش رہیں اورکل دوبارہ حملے ہوں گے ، اس طرح کا خوفزدہ ماحول پیدا کر نے والے بھی لوگوں کو چین سے سونے دیں ۔ خوف اور بدنامی یہ آج کی سیاست کے دو ہتھیار بن گئے ہیں ۔ ہندوستان میں تو انہیں برہماستر کا درجہ حاصل ہے ۔ آج بھی لو گوں کے دلوں میں مختلف وجوہات سے خوف و ہراس پیدا کر نے والے ادارے کام کر تے ہیں ۔ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے آسام کے ایک وزیر ہیمنت بِسوا شرما نے ایسا خوف وہراس پیداکیا ہے کہ وزیر اعظم کے عہدے پر دوبارہ مودی فائز نہیں ہوئے تو ملک کی پارلمینٹ پر حملہ ہوگا‘‘

پُلوامہ حملہ کے بعد پاکِستان میں واقع دہشت گردی کےٹِھکانہ کو ہماری فضائیہ نے تباہ کر دیا اور پاکستان خود سپر ہوگیا ۔ اس کے باوجود ہمارے بحریہ کے سر براہ سُنیل لامبا نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ ہندوستان پر بحری راستے حملہ کیا جا سکتا ہے ۔ ان کے اس بیان پر میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ’’لوگوں کو خوف و ہراس میں کیوں مبتلا کر رہے ہو؟ اگر ایسا حملہ ہوا بھی تووہ سرکار کی یا بحریہ کی ہی ناکامی ہو گی ؟ ممبئی میں ۱۹۹۳ءمیں سیریزبم دھماکے ہو ئے تھے ۔ وہ بھی بحری راستے سے کیا گیا حملہ تھا کیوں کہ بم دھماکوں میں استعمال کیا گیا آر ڈی ایکس سمندر کے راستے کوکن کے ساحل پر اتارا گیا تھا ۔ اور۲۶/۱۱ کوقصاب اور اس کے گروہ کے افراد پاکستان سے گیٹ وے آف انڈیا تک آئےتھے ۔ ان کا ناخوشگوار سفر سمندر کے راستے ہی تکمیل تک پہنچا تھا اور اب پلوامہ حملہ کا انتقام لینے کے بعد بھی ہمیں سمندر کے راستے حملہ کا خوف ستارہا ہے ! اگر یہی خوف ہم پر مسلط ہے تو کیا ہمیں صحیح معنوں میں فضائی حملہ کی کامیابی کاجشن منانا چاہیئے؟

ملک میں جنگ کم اور افواہیں زیادہ پھیلائی جا رہی ہیں ۔ دنیا کی تمام جنگوں میں ایسا ہی ہو تا ہے ۔ جنگ کی جو تفصیلی رپورٹیں سامنے آتی ہیں اس میں صداقت نہیں ہو تی ۔ جنگ کی تفصیلات کے بارے میں فرانسیسی  انقلاب کے بعد جوایک کہاوت منظر عام پر آئی اس کی سچائی آج بھی اتنی ہی اہم ہے ۔n .As False as a bulleti نامی ایک کہاوت کےاس وقت رائج ہو نے کا مطلب یعنی جنگ کی سرکاری تفصیلات جھو ٹی ہوتی ہیں ۔ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ جنگ کےدوران حقیقی تفصیلات عام کر نے پر دشمن کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے اس لیے جنگ کی صحیح تفصیلات کوئی بھی شائع نہیں کر تا ۔ کسی بھی جنگ کا صحیح حال جنگ ختم ہو نے کے کئی برسوں بعد تک باہر نہیں آتیں ۔ تب جنگ سےمتعلق فراہم کردہ ہر خبر تفصیلی ہے اور وہ سو فی صد سچ ہے ایسا مان کر اس پر اپنی قیاس آرائی کر نا وقت کا زیاں ہے ۔

پلوامہ حملے کے بعد کیے گئے ’ائیر اسٹرائک نے‘ پاکستان کو ہلاکر رکھ دیا تھا ۔ اس پر عام رائے ہے کہ پاکستان سرنگوں ہوا اور اس نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں ۔ پھر سرنگوں ہونے والا پاکستان ہندوستان پر سمندری راستے سے حملہ کر نے کی تیاری کرے گا یہ بیان کنفیوژن پیدا کر تا ہے ۔ پاکستان نے گھٹنے ٹیک دیے ہوں گے تو وہ آئندہ پانچ برسوں تک ہم پر حملہ کر نے کا خیال دل میں نہیں لائے گا ۔ کشمیر میں ہماری فوج پر ایک بھی گولی داغی نہیں جائے گی کیونکہ اس نے گھٹنے ٹیک دیے ہیں ۔ اصل میں جنگ ہوئی ہی نہیں ہے وہ ہونی چاہیئے تھی اور کشمیر سمیت (پاک مقبوضہ) زمینی حصہ کو قبضہ میں لے کر یہ مو ضوع ختم کرنا چاہیئے تھا ۔ اس کے برعکس ہم نے بحری راستے سے حملے کا خوف جتا یا ہے ۔ فوجی سربراہ کو زیادہ بولنا نہیں چاہیئے بلکہ ٹھنڈے دماغ سے حملہ کی منصوبہ بندی کرنا چاہیئے اورلوگوں کو اعتماد اور تحفظ کاماحول دینا چاہیئے ۔ خوف وہراس کے سائے تلے رکھنا نہیں چاہیئے ۔۱۹۷۱ء کی جنگ میں جیسلمیر فضائی مستقر سے چار لڑاکو جہازوں نےفضا میں پرواز کی اور ڈھاکہ میں واقع گورنر ہائوس پر حملہ کر کے واپس لو ٹ آئے ۔ اس وقت وہاں پرگورنر سمیت پاکستان کے اعلیٰ فوجی افسران ہندوستان پر بڑے حملے کی تیاری کر رہے تھے ۔ لیکن ہمارے لڑاکو جنگی پائلٹوں نے ان کے منصوبے پر پانی پھیر دیا ۔ پاکستان کےفوجی سر براہ جنرل نیازی اوران کے ایک لاکھ فوجیوں کی خود سپردگی کے واقعہ کو ملک نے دیکھا ہے ۔ جنگ کےعروج پر رہنے اور کافی عرصہ تک جاری رہنے پر فوجی سر براہ کی اہلیت اور نا اہلی کا امتحان شروع ہو تا ہے ۔ آج کسی بھی جانب نپولین نہیں ہے نپولین جس جانب ہوگا اس جانب ایک لاکھ فوجی زیادہ ہیں ایسا سمجھ کر چلنے کی روایت اس وقت رائج ہوئی تھی ۔

پہلی عالمی جنگ سے متعلق امریکی جنرل شیر من نے جو کتاب لکھی ہے اس کتاب کو انہوں نےLions Led by Donkeys” ــــ ـ” (گدھوں کی قیادت میں لڑنے والا شیر ببر) کا عنوان دیا تھا اس عنوان سے اس وقت کے حالات سمجھ میں آتے ہیں ۔ پاکستان میں اور دنیا میں کئی بار نظر آیا ہے کہ فوجی سر براہ کے ذریعہ شروع کی گئی سیاست کے بعد جب وہ بر سر اقتدار پارٹی کا ’بری دستہ‘ بن جائے تو کیا ہو تا ہے ۔ فوجی سربراہ جب خود جنگ کے میدان میں شجاعت سے بولتا ہے تو اسکا بولنا نقصان دہ ہے ۔ کسی بھی فوج کو افواہ کے کارخانوں کا شریک کار نہیں ہونا چاہیئے ۔ آئین سے انتظامیہ تک کئی باتیں ہم نے جوں کی توں انگریزوں سے حاصل کی ہیں ۔ ستر برسوں میں کئی مرتبہ دفاعی سودوں میں سودے بازی ، دلالی اورسیاست جیسی باتیں رونما ہوئی ہیں اس سے ہم کوئی بھی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں ۔ فوجی سر براہ کی نامزدگی میں سیاسی مداخلت کیسے ہوتی تھی اور نادان فوجی سربراہ سیاسی تعریفی تقریب کا فنکار بن کر کیسے گھومتے تھے اس کی مثالیں برطانیہ کے وزیر اعظم نے جنگ کے دوران اپنی یادوں پر مبنی کتاب میں مزے لے کر لکھی ہیں ۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران بر طانیہ کے اخبارات میں ایسی خبر شائع ہو ئی تھی کہ فلاں ایک فوجی سربراہ نے فلاں لڑائی میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی ۔ اس اخبار کے شمارہ کی تصویرکو انہوں نے اپنی کتاب میں شائع کیا اور اس کے نیچے ایک نوٹ تحریر کی کہ جو جنگ لڑی ہی نہیں گئی اس جنگ میں بڑی کامیابی حاصل کرنے پر سیاسی وجوہات کے لیے فوجی سربراہ کی پیٹھ کیسے تھپتھپائی جاتی ہے دیکھو! حقیقت میں جنگ کے دوران فوجی سر براہ اور میڈیا آپس میں ساز باز کر تے ہیں اور اس میں پسِ پر دہ سیاست داں شریک ہو تےہیں ۔ حقیقت میں جنگ کے دوران فوجی سر براہ کتنی جھوٹی خبریں فراہم کرتے ہیں اور وزیراعظم بھی کیسے چکمہ دیتے ہیں اس کی مثال دے کر لائڈ جارج نے بیزار ہو کر یہ کلمات کہے”I the prime minister of Great Britian was kept ignorant of these facts”وزیراعظم سے سچ کو چھپایا جاتا ہےاور حقیقت میں جنگ کے میدان میں شجاعت کی وہ کہانیاں شائع ہوئیں جو رونما نہیں ہوئیں ، انگلینڈ جیسے اعلیٰ درجہ کے جمہوری ملک میں یہ ہوا ہے ۔ دنیا بھر میں لوگوں کو جنگی کہانیاں پسند ہیں اور وہ محو ہو کر انہیں پڑھتے ہیں ، سُنتے ہیں اور دیکھتے ہیں ۔ عراق ، شام جیسے ممالک میں بھی یہ ہو تا ہے ۔ پاکستان میں بھی مار کھا کر ٹانگ اوپرکر نے کی جنگی کہانیاں موضوع بحث ہیں ۔ ’اُری:سرجیکل اسٹرائک: جیسی فلم نے ۲۰۰؍ کروڑکا بزنس کیا اس کی وجہ جنگی کہانی ہی ہے ۔

جیش محمدکے دہشت گرد ٹھکانے پرکیے گئے فضائی حملے کی سیاسی شاعری ختم نہیں ہو رہی ہے ۔’’کتنے دہشت گرد مارے گئے وہ بتائو‘‘جیسی باتیں شروع ہیں ۔ فضائیہ کے سر براہ نے کہا کہ حملہ کر نا ہمارا کام ہے ، کتنے مارے گئے اس کی گنتی فضائیہ کا کام نہیں ہے ۔ جبکہ وزیراعظم مودی نے برہم ہوکر کہا کہ گھر میں داخل ہوکر دوبارہ ماریں گے ۔ ان بیانات پر سبکدوش جنرل وی کے سنگھ کے ذریعہ دیا گیا پیغام مجھے پسندآیا ہے ۔ جنرل صاحب کہتے ہیں’’شب میں ۳۰۔۳ بجے کافی مچھر تھے میں نے’ہٹ‘ مارا ، اب مچھر کتنے مرے اس کی گنتی کروں کہ چین سے سو جائوں ؟ جنرل صاحب نے صحیح کہا ۔ گنتی کر نے کا مطلب نہیں ہے ، لیکن مرے ہوئے مچھر بحری راستے سےکیسےنکل سکتے ہیں؟ کیوں خو فزدہ کر تے ہو ؟ لوگوں کو بھی چین سے سونے دو!

   (مضمون نگار مراٹھی سامنا کے ایگزیکیوٹیو ایڈیٹر ہیں)

 (اتوار۔۱۰ ؍مارچ ۲۰۱۹ء)   روک ٹھوک کالم سے

Leave A Reply

Your email address will not be published.