پہلے ہم تو غیر جانبدار ہو جائیں !
ممتاز میر
محترم علم نقوی ہمارے نزدیک اردو کے بڑے صحافیوں میں سے ہیں ۔ان کے ہم پر بڑے احسانات ہیں ۔ آج صحافت کی دنیا میں جو کچھ ہیں اس میں ان کا بڑا حصہ ہے ۔ ممبئی میں قیام کے دوران ہم وہ اور دیگر رفقاء مل کرصحیفہ والدین کے نام سے ایک میگزین بھی نکال چکے ہیں جس کے تعلق سے اول روز سے ہمارا خیال یہ تھا کہ اسے چلانا ہمارے بس کی بات نہیں ،کیوں کہ اسے چلانے کیلئے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہم میں سے کسی کے پاس تھی نہیں اور جن کے پاس تھی وہ پہلے ہی قدم پر ہمیں چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے ۔
۲۰۱۲ سے ہمارا اور نقوی صاحب محترم کا ایران کے معاملے میں اختلاف شروع ہوا ۔ہم نے انہیں بار بار متنبہ کیا کہ ایران کا شام کے تعلق سے موقف اور عمل اسے عالم اسلام میں رسوا کرکے چھوڑے گا ۔مگر استاد محترم سعودی عرب کے پیچھے پڑے رہے ۔ انہیں ایران اور سعودی عرب کا تقابل کرنے میں مزہ آتا تھا ۔ جبکہ ہم گذشتہ پندرہ سالوں سے سعودی عرب کے خلاف ہیں ۔ پندرہ سال پہلے حج کے دوران ہم نے جو کچھ دیکھا تھا اس سے ہمیں لگا تھا کہ اب دھیرے دھیرے اسلام یہاں سے رخصت ہو رہا ہے اور وہ ساری خرابیاں جو بے دین یا لادین معاشرے میں ہوتی ہیں ،اس پر یہاں بھی دھڑلے سے فخر کا اظہار کیا جائے گا ۔ اس کے بعد سعودی عرب کبھی بھی ہمارے لئے قابل ذکر ملک نہیں رہا ۔ کم سے کم مثبت معنوں میں ۔ گذشتہ پندرہ سالوں میں ہم پچاس مضامین میں سعودی عرب کے خلاف لکھ چکے ہیں ۔کم از کم دس سے زائد مضامین ایسے ہیں جو صرف اور صرف سعودی شاہی خاندان کی مخالفت میں لکھے گئے ہیں اور درجنوں مضامین ایسے ہیں جو بتائیں گے کہ ہم کبھی ایران اور محمود احمدی نژاد کے کس درجہ عاشق تھے ۔۲۰۱۱ میں جب شام کا مسئلہ شروع ہوا اور ایران نے اس بشار الاسد کا ساتھ دینا شروع کیا جسے خود نقوی صاحب کافر کہتے ہیں تو ہمارے ہوش اڑ گئے ، جن پہ تکیہ تھا انہی پتوں نے ہوا دینا شروع کردیا ۔ہمیں آج تک یہ سمجھ نہ آئی کہ ایران اخوان کے مقابلے میں بشار الاسد کا ساتھ کیوں دے رہا ہے ؟اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ ان حالات میں بھی ایران کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں ؟کیا اس لئے کہ ایران ایک شیعہ ملک ہے ؟ مگر ہم تو عالم صاحب کو مومن سمجھتے تھے ۔ہم کیا عام صاحب کی پوری ٹیم انہیں مومن سمجھتی تھی ۔ مگر دھیرے دھیرے سب ان سے دور ہوتے گئے ۔
یہ سب باتیں ہمیں ان کا مضمون ’مسلمانان عالم اور تمام مستضعفین کا اتحاد ہی علاج ہے‘ پڑھکر یاد آگئیں ۔ اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں ’آج خود کو مسلمان کہلانے والوں کا ریکارڈ یہ ہے کہ جہاں جہاں وہ اپنی اکثریت کے باعث (یاد رہے کہ اپنے کردار و عمل کے باعث نہیں ) خود برسر اقتدار وہاں کی اقلیتیں امن و سکون سے محروم ہیں ۔ سیریا اور یمن ، پاکستان و افغانستان ، عراق ولیبیا ، بحرین و سعودیہ ، امارات و نائیجیریا کیا ظالم و مظلوم اور قاتل و مقتول سب ایک اللہ ایک رسولﷺ اور ایک ہی کتاب کو ماننے والے نہیں ‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں اقلیتوں کا لفظ غلط استعمال ہوا ہے ۔ اقلیتیں تو صرف اور صرف مسلم ممالک میں ہی محفوظ ہیں ۔ ورنہ وہ بتائیں کہ کس مسلم ملک کے غیر مسلم اپنی جان و مال ،عزت و آبرو کے تعلق سے شاکی ہیں ۔یہ سب ہی مضمون نگار و صحافی لکھ چکے ہیں کہ پاکستان جیسے تھرڈ کلاس مسلم ملک میں بابری مسجد کی شہادت کے وقت جن سو مندروں کو نقصان پہنچایا گیا تھا تو حکومت نے اپنے خرچ پر ان مندروں کو بنوادیا تھا ۔عالم صاحب نے جس طرف اشارہ کیا ہے وہ مسئلہ اقلیت ،اکثریت کا نہیں بلکہ مسلکی ہے اور ان میں خود عالم صاحب بھی ملوث ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہم تو سعودی عرب کے خلاف درجنوں مضامین لکھیں اور ان کامشہور قلم ایران پر نہ اٹھ سکے ۔یہاں بھی مسلم ممالک کا نام گناتے ہوئے ان کا قلم ایران نہیں لکھ سکا ۔اردو بک ریویوکے جس شمارے میں کودرا پر عالم صاحب کا تبصرہ شائع ہوا ہے اسی شمارے میں ایران کا ایک سفر نامہ بھی ہے ۔جسکے بین السطورمیں ایران میں موجود شیعہ عصبیت کی جھلک نظر آتی ہے ۔ سفر نامہ نگار کو ایرانی ایک افسردہ قوم آتے ہیں ۔وہی بات ہم برسوں پہلے لکھ چکے ہیں کہ جو لوگ سال بھر میں من حیث القوم ماتم کرتے ہوں وہ ڈیشنگ کس طرح ہو سکتے ہیں ۔ سال بھر ماتم کرنا طے ہے کہ قوم کی نفسیات کو بگاڑ دے گا ۔پھر تقیہ کو مذہب میں داخل کرنا یہ بھی تو انسان کی نفسیات پر اثر انداز ہوگا ۔مسلمانوں کے تعلق سے کسی کا مشہور قول ہے کہ دے آر ویری شارپ وین دے فائٹ امنگسٹ دیم سیلوس اور یہ مسئلہ کم و بیش تمام مسلم ممالک کے ساتھ ہے مگر یہ بھی طے ہے کہ کہیں بھی مذہبی اقلیتوں سے تعرض نہیں کیا جاتا ۔ یہ مسئلہ ایران کے یہاں بھی ہے مگر عالم صاحب کا قلم مسلم ممالک کی لمبی فہرست تو دیتا ہے مگر ایران لکھتے ہوئے کانپ جاتا ہے ۔عالم صاحب ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں ہم انہیں بالکل پسند نہیں کرتے جو عوام کو تو درس دیتے ہیں مگر اپنی نصیحتوں پر خود ہی عمل نہیں کرتے۔ ہم شدت سے اس کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم وہی لکھیں جس پر خود عمل پیرا ہوں ورنہ بہتر ہے کہ نہ لکھیں ۔
ملت کے موجودہ حالات پرہماری حالت کیلئے ہم سمجھتے ہیں کہ محاورہ خون کے آنسو رونا کفایت نہیں کرتا ۔ ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے دل سے خون کی بوندیں مسلسل ٹپکتی رہتی ہیں اور اس وقت تک ٹپکتی رہیں گی جب تک دین غالب نہیں آجاتا ۔ اسلئے ہم سیلیکٹو تائید و مذمت نہیں کرسکتے ۔ ہمارے لئے ہمارا دین اہم ہے ۔ ایران ،سعودی عرب یا ترکی اہم نہیں ۔ اگر ایک بار کعبے کو صنم خانے سے پاسباں مل سکتے ہیں تو دوبارہ بھی اللہ اس کی قدرت رکھتا ہے ۔ہم بہت گنہگار ہیں مگر اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے پجاری ہیں ۔ ایران ،سعودی عرب یا ترکی کے نہیں ۔