صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

جامعہ عثمانیہ کے اردو زبان و ادب پرور ڈاکٹر :ایک جائزہ۔ ڈاکٹر خالد اختر علیگ

47,843
ہندوستان میں صرف حیدرآباد کو ہی یہ شرف حاصل ہے کہ اس کے دامن میں ایک ایسے تعلیمی ادارے نے جنم لیا ،جس نے مادری زبان یعنی اردومیں مختلف علوم و فنون کی اعلیٰ تعلیم دی ۔جس کے کامیاب تجربے نے اس مفروضے کو غلط ثابت کیا کہ سائنس و حرفت اور طب و انجینئرنگ کی تعلیم اردو میں نہیں دی جاسکتی ہے۔میر عثمان علی خاں ،ہفتم نظام حیدرآبادنے ۱۹۱۸ء میں اس ادارے کی بنیاد رکھی،جس کو جامعہ عثمانیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔یہ ہندوستان کی ساتویں اور جنوبی ہند کی تیسری قدیم یونیورسٹی ہے ۔پانچویں نظام ،میرتہنیت علی خان صدیقی بہادر ،افضل الدولہ آصف جاہ پنجم نے ۱۸۴۶ء میں حیدرآباد میں ایک میڈیکل اسکول قائم کیا تھا ،جب جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا تو۱۹۲۶ء میں اس اسکول کو کالج کا درجہ دیتے ہوئے اس کا نام عثمانیہ میڈیکل کالج رکھا گیا اور اسے جامعہ عثمانیہ سے منسلک کردیا گیا ۔جہاں اردو زبان میں ایم بی بی ایس کی پانچ سالہ تعلیم کا آغاز کیا گیا ۔
میرے سامنے ایک تازہ ترین کتاب ’’جامعہ عثمانیہ کے اردو زبان و ادب پرور ڈاکٹر ‘‘ہے ۔جو کسی ایک ادارے اوراس سے وابستگی رکھنے والے اردو کے پرستاروں کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔اس کتاب کا اصل مقصد عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس سند یافتہ ڈاکٹروں کی اردو دوستی ،اوران کی ادبی خدمات کو منظر عام پر لانا ہے ،جنہوں نے اپنی معالجانہ مصروفیات کے باوجود گیسوئے اردو کی زلفیں سنواری ہیں ، اردو زبان و ادب اور اس کے علمی سرمائے میں اضافہ کیا ہے ۔ان ڈاکٹروں میں کچھ تو وہ ہیں جنہوں نے شروعاتی دور میں اردو زبان میں اپنی میڈیکل تعلیم حاصل کی ہے اور کچھ وہ ہیں جنہوں نے بعد کے ادوار میں انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کی مگر اردو کی محبت نے انہیں اپنا اسیر بنا لیا ،جس سے وہ باہر نہ نکل سکے ۔اس کتاب میں ایسے دلچسپ مضامین اور خاکے شامل ہیں جو ذہن و دل کو اس حسین دور میں لے جاتے ہیں ،جہاں ہم اپنی زبان کو زمانے اور کاروبار زندگی سے ہم آہنگ پاتے ہیں۔اس کتاب کو ایک عثمانین یعنی عثمانیہ میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل ڈاکٹر عابد معز صاحب نے تحریر کیا ہے،جو کہ طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ مشہور و معروف مزاح نگار،اور سائنس نگار بھی ہیں،جن کی دونوں اصناف میں بالترتیب۱۱ اور ۲۲کافی کتابیں شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں ۔
یہ کتاب ۱۶۸ صفحات پر مشتمل ہے ۔جس میں ۱۶ مضامین ہیں ،پیش لفظ جو’ ابتدائیہ ‘کے عنوان سے ہے ،جس میں صاحب تصنیف رقم طراز ہیںـ’’جامعہ عثمانیہ اور اردو زبان کے ذریعہ فارغ التحصیل چند ایسے ڈاکٹرس کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی ہیں جنہوں نے اردوزبان و ادب کے فروغ میں کماحقہ حصہ لیاہے۔ایسے ڈاکٹرس نے ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم اردو کے ذریعے حاصل کی تھی لیکن اردو کو ایک مضمون یا زبان اول کی حیثیت سے پڑھا ہے ،انہیں بھی اردو زبا ن و ادب سے انس ہے اور انہوں نے اردو کے فروغ میں کماحقہ حصہ بھی لیا ہے‘‘ ۔ ’’جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹرس کو اردو زبان و ادب سے وابستگی اور دلچسپی کا جو موقع اور ماحول ملاوہ شاید دوسرے جامعات کے ڈاکٹرس کو نہیں ملا ہوگا۔‘‘’’میں نے جامعہ عثمانیہ کے اردو زبان پرور ڈاکٹرس کے بارے میں مضامین لکھنے کا ارادہ کیا۔ایسے بعض ڈاکٹرس سے میری ملاقاتیں ہوئی ہیں اور چند میرے استاد بھی رہے ہیں ‘‘۔دوسرے مضمون ’عثمانیہ طبیہ(میڈیکل)کالج ،جامعہ عثمانیہ میں اردو کا بدلتا منظر نامہ ‘میں مصنف فرماتے ہیں ’’احباب کو جب پتا چلتا ہے کہ میں جدید طب ( ایلو پیتھی ) کا ڈاکٹر ہونے کے ساتھ اردو کا ادیب بھی ہوں، میری تعلیم عثمانیہ میڈیکل کالج میں ہوئی ہے اور میری ایم بی بی ایس کی ڈگری جامعہ عثمانیہ کی عطاء کی ہوئی ہے تو چند احباب حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبے سے سوال کرتے ہیں۔کیا آپ نے ڈاکٹری اردو میڈیم سے پڑھی ہے؟جواب میں مجھے تردید کے ساتھ وضاحت کرنی پڑتی ہے۔ جی نہیں، میں اتنا قدیم ڈاکٹر نہیں ہوں۔ میری پیدائش سے پانچ چھ سال پہلے ہی جامعہ عثمانیہ اپنی یہ شناخت کھو چکی تھی ‘‘۔اس مضمون میں عثمانیہ میڈیکل کالج کی تاریخ،پھر اردو ذریعہ تعلیم سے ایم بی بی ایس کی تعلیم ،سقوط حیدرآباد کے بعد اس کی صورت حال پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔اس کے بعد ان عثمانین ڈاکٹروں کی شخصیات کا خاکہ پیش کیا گیا ،جن میں سے کچھ نے سقوط سے پہلے اردو ذریعہ سے ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کی ،اور کچھ نے سقوط کے بعدانگریزی ذریعہ سے،مگر ان میں جو بات مشترک رہی وہ یہ کہ سبھی نے اردو کی زلفوں کو سنوارا اور اس میں تخلیقات کے ذریعہ اضافہ کیا ہے ۔ان مضامین کی تعداد ۱۲ ہے ، جس میں ایک مضمون خود مصنف نے اپنی بارے میں’بقلم خود‘ لکھا ہے ،چو ںکہ وہ بھی ان خوبیوں سے متصف ہیں۔اس سلسلے کا پہلا مضمون ’ڈاکٹر سید عبدالمنان‘ ہے ،جس میں ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤ ں کو آشکار کیا گیا ہے ،ڈاکٹر سید عبدالمنان نے سنہ ۱۹۳۷ء میں جامعہ عثمانیہ سے اردو ذریعہ سے ایم بی بی ایس کی سندحاصل کی ۔وہ مقبول اور کامیاب معالج تھے۔وہ بہترین مقرر تھے ،انہوں نے انشایئے ،اورخاکے بھی لکھے ہیں ،ان کا ایک مشہور مضمون ’ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے مریضوں کے ‘جو ہنسی ،طنز مزاح اور ڈاکٹر۔از،ڈاکٹر عابد معز،۲۰۲۱ء میں شامل ہے۔ دوسرا مضمون ’ڈاکٹر رگھونندن راج سکسینہ الہام ؔ‘ کی شخصیت پر ہے،جو کہ شہر حیدرآبادکے مشہور معالج تھے ،انہوں نے بھی اردو ذریعہ سے ایم بی بی ایس کیا تھا،وہ مشہور رباعی گو شاعر تھے ،ان کی رباعیات کے تین مجموعے ’رباعیات الہامؔ‘،’الہام ثانی‘، اور’الہام ثانی موسومہ کشکول‘ ان کی زندگی میں ہی شائع ہو چکے ہیں۔تیسرا مضمون مجاہد اردو ’راج بہادر گوڑ‘ کی شخصیت پر ہے ،انہوں نے بھی اردو ذریعہ سے میڈکل ڈگری حاصل کی تھی ،لیکن طبابت نہیں کی ،وہ ٹریڈ یونین لیڈر کے طور پرزیادہ مشہور ہوئے،بہترین مبصر، نقاد اور ادیب تھے ۔ان کے تین مجموعے’ادبی مطالعے‘،’ادبی جائزے‘،اور ’ادبی تناظر ‘ شائع ہوچکے ہیں ۔چوتھا مضمون پرمزاح شخصیت کے مالک اور۳۵۰ صفحات پر مشتمل لطیفوں کے مجموعے ’ذرا مسکرادو‘کے خالق ’ڈاکٹر آر۔طاہر قریشی ،اور اردو ذریعہ سے ایم بی بی ایس سند یافتہ کی زندگی کا خاکہ ہے۔ڈاکٹر قریشی اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں ’’ایلو پیتھی، ہومیو پیتھی اورنیچروپیتھی کا مطالعہ شروع کردیا۔مزاج اور مزاح میں صرف ایک نقطہ کا ہی فرق توہے ۔‘‘پانچواں مضمون ہڈی اور دانتوں کی بیماری فلوروسس پر گراں قدر تحقیق کرنے والے اور صحتی کالم نگار ’ڈاکٹر ابو الحسن صدیقی ‘ کی شخصیت پر ہے ،جو کہ ۱۹۴۷ء میں اردو ذریعہ سے ایم بی بی ایس کے امتحان میں اول درجے میں کامیاب ہوئے ،جس کے بعدانہیں آصف جاہی حکومت کے وظیفہ سے انگلستان بھیجا گیا ،جہاں سے دوسال بعد وہ ایم آر سی پی کے ڈپلومہ کے ساتھ واپس ہوئے ۔حالاں کہ بعد میں امریکہ منتقل ہوگئے اور وہیں راہئی ملک عدم ہوئے۔ان کے مضامین کا ایک مجموعہ ’انسانی امراض اور طب جدید ‘ کے نام سے شائع ہوا ہے ،انہیں انگریزی طبی اصطلاحات کا اردو متبادل بنانے میں ملکہ حاصل تھا ۔مثال کے طور پر انہوں نے  Antiviral Drugs کو وائرس کش ادویات کا نام دیا ہے۔Epidemic   Silentکو خاموش و با کیا ہے۔  pylori H.کا نام چکر دار جرثومہ رکھا ہے، Gall Stones کا اردو متبادل پت پتھریاں بنا یا ہے۔چھٹا مضمون حیدرآباد کے مشہور ماہر نفسیات، حیدرآباد کے پہلے نرسنگ ہوم کے مالک ،صحتی کالم نگار اور مصنف ’ڈاکٹر مجید خاں ‘کی ہمہ جہت شخصیت پر ہے،جنہوں نے سقوط کے بعد سند حاصل کی ۔ان کی متعدد کتابیں ہیں جن میں ’جدید نفسیات‘،’فکر انگیز نفسیات‘ اور ’شخصیت کی پہچان اور اس کی مطلوبہ عصری سجاوٹ‘شامل ہیں ۔ساتواں مضمون اردو اور انگریزی کے شاعر،ماہر امراض قلب اورسعودی فرماں رواں شاہ فہد کے ذاتی معالج ،وزیر کے درجہ پر فائض ’ڈاکٹر ماجد قاضی ‘ کی ہمہ گیر شخصیت پر ہے ۔آٹھواں مضمون محب اردو اور ماہر امراض چشم ’ڈاکٹر شیام سندر پرساد کی زندگی پر ہے ۔نواں مضمون ’صحتی کالم نگار و مصنف ’ڈاکٹر سکندر حسین ‘ کی شخصیت پر ،جو فعلیات کے ماہر ہیں اور کئی میڈیکل اداروں میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں ،ان کی پانچ کتابیں شائع ہوچکی ہیں ،جن میں ’ظہور ترتیب‘،’انسان ایک عجوبہ‘اور ’عجائبات زندگی‘ مشہور ہیں ۔دسواں مضمون ماہر امراضیات ’ڈاکٹر سید تقی عابدی ‘ کی ہمہ جہت شخصیت پر ہے ،ادبی دنیا میں جن کی شناخت شاعر،نقاد، محقق،غالبؔ،اقبالؔ،میر انیسؔ،مرزا دبیرؔ اور رثائی ادب کے حوالے سے بہت مستحکم ہے۔گیارہواں مضمون ماہر تخدیر اورشاعر ’ڈاکٹر سعید نواز ‘ کی شخصیت اور ان کی غیر مطبوعہ شاعری پر ہے،بارہواں مضمون مصنف نے خوداپنے بارے میں لکھا ہے ۔
اس کتاب کا آخری گوشہ ـ’اردو زبان میں طب جدید کی تعلیم :مشاہدات اور تاثرات ‘کے عنوان سے ہے ،جس میں تین مضامین شامل ہیں ۔پہلا مضمون ڈاکٹر پی،پنٹیّا،سابق پروفیسر ،فارماکولوجی کا ’میڈیکل کالج کی پرانی یادیں‘کے عنوان سے ہے جو عثمانیہ میڈیکل کالج کے اردو ترجمان ’پلسس آسمیکو۷۸۔۱۹۷۸ء‘ میں شائع ہوا تھا ۔جس میں انہوں نے ایم بی بی ایس کی اردو زبان میں تعلیم کی روداد سنائی ہے۔دوسرا مضمون ’کلیہ طبیہ جامعہ عثمانیہ کی روایات‘ڈاکٹر سید کاظم حسین کا تحریر کردہ ہے ،جوارمغان، جشن الماس ،جامعہ عثمانیہ ۱۹۷۹ء میں شائع ہواتھا ،جس میں وہاں کی روایات کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے ۔تیسرا مضمون ڈاکٹر سید عبدالمنان کا ہے ’عثمانیہ میڈیکل کالج ‘ ہے،جو گزرے دنوں اور اشخاص کی یاد دلاتا ہے ۔
نہایت عمدہ کاغذ اور صاف ستھری طباعت سے مزین یہ کتاب اس درخشندہ ماضی کو ہمارے سامنے لاتی ہے ،جو ہمیں خواب میں بھی نظر نہیں آتی ۔آفریں ہے ان نفوس پر جنہوں نے اردو زبان کو اس کا مقام دیا۔یہ کتاب تاریخی ،دلچسپ اور پرمزاح واقعات سے بھری پڑی ہے ۔امید ہے کہ اس کتاب کو ڈاکٹر عابد معز صاحب کی دیگر کتابوں کی طرح مقبولیت حاصل ہوگی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.