صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

یوپی: سنبھل جامع مسجد تنازع: سروے کے دوران تشدد، پولیس فائرنگ میں ۳؍ افراد ہلاک

88,382

اتر پردیش کے سنبھل میں اتوار کوجامع مسجد کے سروے کی مخالفت کرنے والے ہجوم کی پولیس کے ساتھ جھڑپ کے بعد پرتشدد تصادم میں تین افراد ہلاک ہو گئے۔ حالات کشیدہ ہونے کی صورت میں حکم امتناعی نافذ کیا گیا ہے۔ اکھلیش یادو نے یوپی حکومت پر سخت تنقید کی۔

اتر پردیش کے سنبھل میں اتوار کوجامع مسجد کے سروے کی مخالفت کرنے والے ہجوم کی پولیس کے ساتھ جھڑپ کے بعد پرتشدد تصادم میں تین افراد ہلاک ہو گئے۔ مرادآباد کے کمشنر اننجے کمار نے بتایا کہ مرنے والوں کی شناخت نعمان، بلال اور نعیم کے طور پر ہوئی ہے۔ پولیس نے ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے تاہم، ہلاک شدگان کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ اگرچہ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ متاثرین کو گولی لگنے سے زخم آئے ہیں، پولیس کا کہنا ہے کہ موت کی اصل وجہ پوسٹ مارٹم کے بعد ہی بتائی جائے گی۔ یہ سروے ایک عدالتی حکم کے بعد شروع کیا گیا تھا جس میں ایک شکایت پر الزام لگایا گیا تھا کہ مغلوں نے مسجد کی تعمیر کیلئے ایک مندر کو گرایا تھا۔ کیلا دیوی مندر کے مہنت رشی راج گری اور دیگر مدعین کے ذریعہ سنبھل کی جامع مسجد کو ہریہر مندر بتائے جانے کا دعوی چندوسی میں واقع سول جج سینئر ڈویژن سنبھل کی عدالت میں پیش کئے جانے پر عدالت نے جامع مسجد کا سروے کر رپورٹ عدالت میں داخل کئے جانے کا حکم دیا تھا اگلی سماعت کیلئے۲۹؍نومبر کی تاریخ طے کی گئی ہے۔

عدالت کے حکم پر کورٹ کمشنر رمیش راگھو کی ٹیم ۱۹؍نومبر کو جامع مسجد کا سروے کیا تھا۔ اتوار کی صبح تقریبا ساڑھے ۶؍ے ٹیم دوبارہ جامع مسجد کا سروے کرنےکیلئے جامع مسجد پہنچی۔ ڈی ایم راجندر پینسیا اور ایس پی کرشن کمار سنگھ وغیرہ افسر بھی جامع مسجد پر پہنچے تھے اور بھاری پولیس فورس بھی جامع مسجد پر تعینات تھی۔ جامع مسجد کا سروے کرنے کیلئے ٹیم کو مسجد پہنچنے کی اطلاع پر مسلم سماج کی بھیڑ بھی جامع مسجد کے نزدیک پہنچ گئی اور بھیڑ کی طرف سے صبح ہی صبح سروے کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے شور شرابہ کیا جانے لگا۔ اسی دوران بھیڑ نے پتھربازی شروع کردی۔ شورشرابہ اور پتھراؤ کو دیکھ کر پولیس نے بھی فورس کا استعمال کیا اور آنسو گیس کے گولے داغے۔ اس دوران پولیس نے کچھ افراد کو موقع سے گرفتار بھی کیا۔ جامع مسجد کی سیکوریٹی عدالت کے فیصلے کے بعد بڑھا دی گئی تھی اور سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگائے گئے تھے لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے اب جامع مسجد کی سیکوریٹی مزید بڑھا دی گئی ہے۔ فی الحال موقع پر کشیدگی کے حالات ہیں اور ٹیم جامع مسجد کےاندر سروے کررہی ہے۔ ڈی ایم اور ایس پی سمیت تمام اعلی پولیس و انتظامیہ کےا فسران موقع پر موجود ہیں۔

سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے باہر پولیس فورس کو تعینات دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

اتر پردیش کے سنبھل میں اتوار کوجامع مسجد کے سروے کی مخالفت کرنے والے ہجوم کی پولیس کے ساتھ جھڑپ کے بعد پرتشدد تصادم میں تین افراد ہلاک ہو گئے۔ مرادآباد کے کمشنر اننجے کمار نے بتایا کہ مرنے والوں کی شناخت نعمان، بلال اور نعیم کے طور پر ہوئی ہے۔ پولیس نے ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے تاہم، ہلاک شدگان کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ اگرچہ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ متاثرین کو گولی لگنے سے زخم آئے ہیں، پولیس کا کہنا ہے کہ موت کی اصل وجہ پوسٹ مارٹم کے بعد ہی بتائی جائے گی۔ یہ سروے ایک عدالتی حکم کے بعد شروع کیا گیا تھا جس میں ایک شکایت پر الزام لگایا گیا تھا کہ مغلوں نے مسجد کی تعمیر کیلئے ایک مندر کو گرایا تھا۔ کیلا دیوی مندر کے مہنت رشی راج گری اور دیگر مدعین کے ذریعہ سنبھل کی جامع مسجد کو ہریہر مندر بتائے جانے کا دعوی چندوسی میں واقع سول جج سینئر ڈویژن سنبھل کی عدالت میں پیش کئے جانے پر عدالت نے جامع مسجد کا سروے کر رپورٹ عدالت میں داخل کئے جانے کا حکم دیا تھا اگلی سماعت کیلئے۲۹؍نومبر کی تاریخ طے کی گئی ہے۔ 

اکھلیش یادو کا یوپی حکومت پر سخت حملہ
سنبھل میں جامع مسجد میں دوبارہ سروے کے دوران ہونے والی جھڑپوں اور آگ زنی کے بعد سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے یوپی حکومت پر سخت تنقید کی ہے۔ اکھلیش نے پریس کانفرنس میں کہا کہ سنبھل کا واقعہ بہت سنگین ہے۔ ان کے مطابق، کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں اور ۳؍ نوجوان کی جان بھی چلی گئی ہے۔ اکھلیش یادو نے سوال کیا، ’’جب ایک بار سروے ہو چکا تھا تو دوبارہ کیوں کرایا گیا؟ اور وہ بھی صبح سویرے؟ کسی دوسرے فریق کی بات نہیں سنی گئی۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا تاکہ انتخابات سے توجہ ہٹا کر بی جے پی اپنی مرضی کے مسائل پر بحث کروا سکے۔ ‘‘سابق وزیراعلیٰ نے الزام لگایا کہ سنبھل کا واقعہ بی جے پی اور انتظامیہ کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے تاکہ انتخابی بے ایمانی پر بات نہ ہو۔ انہوں نے کہا، ’’حقیقی فتح عوام کی طاقت سے ہوتی ہے، نہ کہ سرکاری مشینری سے۔ یہاں لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا جا رہا ہے اور سرکاری نظام کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ ‘‘

Leave A Reply

Your email address will not be published.