یہ تحریک بھوک کے خلاف جنگ ہے : شمیم احمد
کولکاتا:نیتاجی سبھاش چندر بوس کے یوم پیدائش کے موقع پر 23جنوری منگل کو راجہ بازار موڑ کے قریب واقع خورشید ہوٹل کے قریب پھر ایک دلفریب منظر نظرآیا جب دن کے ایک بجے ہومن رائٹس پروٹیکشن ایسوسیشن کے بین الاقوامی کنوینر شمیم احمد کی موجودگی میں شہر کے معززین کا ایک قافلہ فٹ پاتھ پر مفلوک الحال غربا کے ساتھ ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے ہوئے نظرآئے۔واضح ہو کہ ماضی میں ایک نہایت کامیاب اردو تحریک کے بانی شمیم احمد نے 11فروری2018سے مسلسل ایک بالکل انوکھی تحریک’فوڈ فار آل‘ کے نام سے چلا رہے ہیں جس کے تحت ان کی ایک گاڑی ہر روز شام کے 6بجے تقریباً 700 کھانے کا پیکٹ لے کر ان کے آفس سے روانہ ہوتی ہے اور 50 کیلومیٹر کے دائرے میں ایسے مفلوک الحال لوگوں کو تلاش کرتی ہے جو نہ صرف فٹ پاتھ پر رہنے کو مجبور ہیں بلکہ وہ بیمانہ اور معذور بھی ہیں اور ان کے لئے چلنا پھرنا بھی مشکل ہے اور پھران کے سامنے تازہ کھانا اور پانی کا بوتل رکھ کر گاڑی آگے بڑھ جاتی ہے ۔
شمیم احمد کی یہ تحریک گزشتہ ایک سال سے چل رہی ہے اسی دوران 3جنوری کو حضرت مولا علی درگاہ کے قریب جب لوگوں نے خود شمیم احمد اور ان کے تمام احباب کو بھی ان غریبوں کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھاتے دیکھا تو بھیڑ جمع ہوگئی اور ان کے خلوص کے چرچے ہونے لگے۔ حضرت مولانا علی درگاہ کے بعد آج راجہ بازار میں بھی وہی دلفریب منظرنظرآیا۔ اس موقع پر اخبارات اور ٹی وی چینل کے بہت سارے صحافی جمع ہوئے اور انہوں نے شمیم احمد سے سیدھا سوال کیا کہ آپ کے اس تحریک کا مقصد کیا ہے اور یہ کب تک چلے گی؟ شمیم احمد نے نہایت سنجیدگی سے کہا کہ اس تحریک کامقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ شہر کا ہر انسان جو پیٹ بھر کھانا کھاتے اور سکون سے اپنے گھروں میں سوتے ہیں ان کو یہ یاد دلانا ہے کہ ان کے آس پاس ان جیسے ہی کچھ لوگ بھی ہیں جو معذور ہیں، بیمار ہیں ان کے سروں پر چھت نہیں ان کی تیمارداری کرنے والا بھی کوئی نہیں وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہیں لیکن زندہ ہوتے ہوئے بھی موت کے منتظر ہیں اور اگر ہم خود کو انسان کہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی اپنی بساط بھر اگر ان کی خبر گیری کرنے لگیں تو پھر ایسے دردناک مناظر نظر نہ آئیں گے۔
شمیم احمد نے کہا کہ کھانا کھلانے سے بھی آگے بڑھ کر ہم شہر کے تمام دوستوں کے ساتھ جب ان کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتے ہیں تو ان سے بات کرکے ان کی دیگر ضروریات بھی پوچھتے ہیں انہیں ہسپتال لے جاتے ہیں دوا خرید کردیتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کو یہ احساس بھی دلاتے ہیں کہ وہ حوصلہ رکھیں ہم ان کے ساتھ ہیں اور اس طرح ان کی آنکھوں میں امید کی روشنی نظرآنے لگتی ہے۔ اپنی گفتگو کوآگے بڑھاتے ہوئے شمیم احمد نے کہا کہ یہ جو آپ کو نظر آرہے ہیں ان کے علاوہ بھی شہر میں ایک بڑی تعداد ان عورتوں کی بھی ہے جو زیادہ تر لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں ان کے شوہر نے انہیں چھوڑ دیا ہے ان کے تین تین چار چار نابالغ بچے بچیاں ہیں جنہیں وہ بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی دے پاتی ہیں لیکن شرم کی وجہ سے وہ کسی کے آگے ہاتھ نہیںپھیلاتیں ۔ہم ایسے خاندانوں تک پورے مہینے کا راشن، صابن، سرف تک پہنچاتے ہیں اور اس طرح کہ کسی کو کانوںکان خبر بھی نہ ہو ہمارے لوگ جب ان کے گھر راشن دینے جاتے ہیںتو پوچھے جانے پر کہ ان کے پڑوسیوں کو بھی یہ بتاتے ہیں کہ وہ دکان میں کام کرتے ہیں اور آرڈر پر سامان گھر تک پہنچانے آئے تھے ۔
شمیم احمد نے کہا کہ ہم لوگ اسی طرح عورتوں اپنے بچیوں کو اسکول بھیجنے لگے ہیں ان لوگوں کے گھروں کے بزرگوں کا علاج کرانے لگے ہیں اور ان کی زندگی معمول پر آنے لگی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارامقصد یہ ہے کہ شہر اور تمام لوگ بھی آگے آئیں، تنظیم آگے بڑھے اور فوڈ فار آل کا یہ سلسلہ مغربی بنگال اور اس سے آگے پورے ملک میں پھیل جائے اور ہمارے ملک میں کوئی بھی انسان بھوکا نہ رہے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر اب ایسی خبریں دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ کئی محلوں میں بچے اب اپنے گھروں سے کھانے کا پیکٹ لے کر فٹ پاتھوں کی طرف نکلنے لگے ہیں یہ تحریک اب بڑھنے اور پھیلنے لگی ہے اور ہم کامیاب ہو رہے ہیں۔ ہم بھوک کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور اس میں فتح ہمارا مقصد ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر مختار احمد میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس طرح کا دسترخوان میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی مگر خدا کا شکر ہے کہ بنگال کی سرزمین نے ہمیشہ ایک نیا انقلاب پیدا کیا ہے ۔ ڈاکٹر مختار نے یہ بھی کہ کاش ہمارے سماج کے ملی، سیاسی رہنما بھی اس سمت میں آگے بڑھتے تو آج انسانیت کی حالت ایسی نہیں ہوتی۔ شمیم احمد مبارکباد کے مستحق ہےں جنہوں نے مجھے موقع دیا کہ میں ان غریبوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکا۔اور غریبوں کے ساتھ بیٹھ کر زمین پر کھانا کھانے پر مجھے احساس ہوا کہ اصل زندگی ےہی ہے۔ اس موقع پر محمد شمیم سابق ریل بھرتی بورڈ نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ بنگال میں شمیم احمد جیسے لوگ موجود ہے جو بھوک اور زبان کی تحریکیں چلاتے رہیں ہے ۔
اس موقع پر ہیوم رائٹس پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے نائب صدرنفیس اخترنے کہا کہ ہماری آرگنازیشن شمیم احمد کامیاب اردو تحریک کے بعد اب بھوک کے خلاف یہ تحریک رنگ لائے گی اور بھوک کو مٹانے میں اہم رول ادا کرے گی۔ اس موقع پر ہیومن رائٹس پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے صدر وارڈ نمبر29 نارکل ڈانگہ، راجہ بازار میں ایسی نوعیت کا کام پہلی بار دیکھا ہے۔ ڈاکٹر فیض الحق نے کہا کہ مہینے میں ایک بار کی جگہ 2بار کرنے کی ضرورت ہے اور اس تحریک کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر مشہور بزرگ صحافی عکاس کے ایڈیٹر کریم رضا مونگیری نے کہا کہ بنگال میں واحد شخصیت جن کا نام شمیم احمد ہے جو غریبوں کی خبر گیری کر رہے ہیں میں ان کے ساتھ ہمیشہ سے تھا ہوں اور ہمیشہ رہوں گا ۔ اس موقع پر جمنا پرشاد رائے ، سنیئر ایڈوکیٹ سپریم کورٹ امیش شاﺅ،محمد فہیم احمد ، اشرف عاقوبی، فراغ روہوی ، ڈاکٹر جمیل حیدر شاد، عثمان جاوید منزل، ارم انصاری ، عبدالواحد، غلام حسین، عبدالرحمن، جاوید اقبال، گرو چرن سرل، سوامی پارش ناتھ گیری جی مہاراج ، محمد قدرت اللہ ، عظمت تارہ، شبانہ خاتون اورابرار احمدودیگر موجود تھے۔