صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

جہالت کیا ہے ……؟

1,511

 

کسی نے اپنی  فیس بک ٹائم لائن پر لکھا کہ "آ پ جاہل اور بددماغ کسے کہتے ہیں جبکہ میں نے تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت کو جاہل اور بددماغ پایا ہے”

یہ بات درست بھی ہے اور یہ ایک بین الاقوامی المیہ بھی ہے کہ اب سیاست ہو کہ تجارت ہر میدان میں ڈونالڈ ٹرمپ اور وجےُ مالیا جیسے تعلیم یافتہ بددماغ اور بدعنوان افراد کی ایک بھیڑ لگی ہوئی ہے اور اگر ہم نام بنام لکھنے لگیں تو شاید اس تالاب کی ساری خوبصورت مچھلیاں بھی گندی نظر آنے لگیں !
اس کے باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے سماج میں تعلیمی بیداری کی ایک زبردست تحریک کا زور شور سے پروپگنڈہ ہے لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ تحریکوں کا بھی اپنا ایک رخ ہوتا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ ہماری تعلیمی بیداری کی تحریک کا اپنا رخ اور نظریہ کیا ہے ؟
کیا ہم اپنے بچوں کو ترقی یافتہ اور بڑا آدمی بنانا چاہتے ہیں یا اچھا انسان  – بالکل اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمیں دنیا کو خوبصورت بنانے کیلئے بلندی کی مسافت کو طے کرنا بھی لازمی ہے لیکن کیا کبھی ہم نے یہ نہی سوچا کہ ایک متمدن سماج اور انسان کی شخصیت میں نکھار آنے کیلئے انسانی اقدار کی تعلیم اور تربیت کا ہونا بھی لازمی ہے – اسکولوں اور کالجوں میں جہاں بچوں کو ڈاکٹر ، انجینیُر ، ٹیچر اور طرح طرح کی ڈگریاں ان کی ٹریننگ اور پروجیکٹ سے مشروط کرکے دی جاتی ہیں کالجوں اور یونیورسٹیوں کو چاہئیے کہ کوئی بھی ڈگری اور سند دینے سے پہلے  بچوں میں انسانی اقدار کے فروغ کیلئے کسی پسماندہ علاقے میں کچھ مہینوں کیلئے فلاح وبہبود کے کام کرنےکو بھی لازمی قرار دے – بدقسمتی سے ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں سرسید ، اقبال ، ابوالکلام آزاد ، مولانا محمد علی جوہر ، گاندھی ، نہرو ، وویکا نند ، رابندر ناتھ ٹیگور ، حسرت موہانی ، حالی شبلی اور محمد علی جناح وغیرہ کے بارے میں رسمی  کہانیاں تو پڑھا دی جاتی ہیں لیکن یہ لوگ بلندی کے اس مقام پر کس طرح پہنچے ان کی ماؤں کا کردار کیا تھا اور انہوں نے کیا قربانیاں کیسے دیں ۔ تعلیم یافتہ لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا – مگر آج بچوں کے ذہنوں میں عام طور پر بل گٹس اور امبانی ہونے کا جو بھوت سوار ہے تو اس کا مطلب کہ ماں کی گود سے لیکر مکتب کی دہلیز تک بچوں کے ذہن میں جو بڑا آدمی بننے کی ذہن سازی اور تربیت کی جارہی ہے اس تحریک نے نئی نسل کو موقع پرست اور مفاد پرست بناکرریس کے میدان میں مسابقت کا گھوڑا بنا دیا ہے – اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جہالت کسے کہتے ہیں – جب انسان کو دوسروں کے نفع نقصان اور بھلائی سے کوئی سروکار نہ ہو اور وہ صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچنا شروع کردے تو اس سے ایسی غیر اخلاقی اور انسانی معیار سے گری ہوئی حرکتیں سرزد ہونے لگتی ہیں جسے ہم جہالت کہتے ہیں – اسلام نے اسی جہالت کو دور کرنے کیلئے انسانوں کے سامنے تعلیم اور تربیت کے ساتھ ایک نظریہ بھی دیا تھا کہ – "کنتم خیر امت اخرجت لناس” تم وہ بہترین جماعت ہو جو لوگوں کی بھلائی کیلئے پیدا کی گئی ہے – انسانوں میں ایک بار پھر یہ نظریہ فوت ہوتا جارہا ہے اور اکثریت دولت ، جائیداد ، شہرت اور گلیمر کی دیوانی ہو چکی ہے – خاص طور سے سرمایہ دارانہ طرز سیاست نے نئی نسل کا جو مزاج تشکیل دیا ہے اس نے پورے معاشرے کی سوچ کو بدل دیا ہے – ایسے میں جو جتنا تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہے وہ اتنا ہی بڑا لٹیرا اور جاہل ہے – سوال تعلیم کا بھی نہیں ہے سوال نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں اس کے ذہن کو صحیح رخ دینے کا ہے اور اسی رخ کو ہم نظریہ بھی کہتے ہیں – جب کسی قوم ، کسی جماعت اور قافلے  کا نظریہ ہی درست نہ ہو ، اس کا کوئی مخلص قائد ہی نہ ہو ، اسے کسی پہاڑی کی بلندی یا مسجد و محراب کے ممبر سے یا ساری الجبل کی پکار لگانے والی آواز بھی نہ سنائی دے رہی ہو کہ وہ جا کہاں رہا ہے اور اسے جانا کہاں ہے اور اس کا نصب العین کیا ہے تو اس بھیڑ کے تعلیم یافتہ ہونے سے بھی کیا مطلب – یہ سب اندھے اور جاہل لوگ ہیں کسی بھی وقت کوئی بھی فیصلہ لے سکتے ہیں اور کچھ بھی کر سکتے ہیں – کسی حد تک وہی ہورہا ہے اور ہم سب جلسے جلوس کانفرنس اور سوشل میڈیا پر اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں –

عمر فراہی [email protected]

Leave A Reply

Your email address will not be published.