صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

کورونا وبا کے سبب ہندوستانی مسلمان امسال حج سے محروم رہیں گے

 پندرہ ہزار عازمین حج نے درخواستیں واپس لے لی تھیں،ہماری تیاری مکمل، لیکن سعودی عرب میں دشواری پیش آسکتی تھی : سی ای او مقصوداحمد خان

238,191

ممبئی: ممبئی میں حج کمیٹی آف انڈیا کے چیف ایکزیکٹیوافسر مقصود احمد خان نے آج یہاں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سعودی عرب کی وزارت برائے حج اور مذہبی امور کے ذریعہ امسال حج 2020ءکے منسوخ کیے جانے اور اندرون ملک محدود پیمانے پر حج کیے جانے کا اعلان کیا ہے ،جس میں سعودی عرب میں مختلف ممالک کے مقیم شہری شرکت کرسکیں گے۔ اس طرح ہندوستان سے بھی تقریباً سوالاکھ عازمین حج امسال حج بیت اللہ نہیں جاسکیں گے،جبکہ ان کے مطابق 15ہزار درخواست گزار نے حج کمیٹی آف انڈیا کے جمع رقم کی واپسی کے اعلان کے بعد منسوخی کی درخواست دے دی ہے اور سعودی عرب کے حج منسوخی کے اعلان کے بعد باقی عازمین حج کی رقم انہیں خود بخود واپس کردی جائے گی۔ مہاراشٹر اسٹیٹ حج کمیٹی کے سابق چیئرمین جمال صدیقی نے مطالبہ کیا ہے کہ امسال جن عازمین حج نے درخواستیں دی ہیں ،انہیں قرعہ اندازی کے بعد آئندہ سال حج جانے کی اجازت دی جائے تاکہ انہیں دوبارہ درخواستیں دینے کے مرحلے سے نہ گزنا پڑے۔

مقصود احمد خان نے مزید کہا کہ حج کمیٹی آف انڈیا نے ساری تیاری کرلی تھیں ،لیکن اس عرصے میں اگر حج کا اعلان کردیا جاتا تو کافی دشواری پیش آسکتی تھی، شاید رہائش وغیرہ کے سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں ہوسکی تھی اور ٹرانسپورٹیشن وغیرہ کے تعلق سے بھی اقدام نہیں ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ 180 سے زیادہ ملکوں میں پھیلی کورونا وائرس کی وباء کے پیش نظر محدود تعداد میں اندرون ملک سے مختلف ممالک کے شہریوں کو حج کا موقع دیا جائے گا۔ کیونکہ روزبروز اس کے خطرات میں اضافہ کے پیش نظریہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ سعودی مقیم غیرملکی شہریوں کو محدودحج کی منظوری دی جائے اور حج محفوظ صحت مند ماحول میں ہواور کورنا کے بچاﺅ کے تقاصے پورے کیے جائیں اور عازمین حج کی سلامتی کویقینی بنایا جاسکے ، انسانی جان کے تحفظ سے متعلق شریعت کے مقاصد پورے کیے جاسکیں۔

واضح رہے کہ امسال سعودی عرب حکومت نے حج بیت اللہ کی منسوخی کا عارضی اعلان مارچ کے دوران ہی کردیا تھا ،لیکن دنیا بھر میں اور خود سعودی عرب میں کورونا وائرس جیسی وبائی بیماری کے اثرات کی وجہ سے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا کہ امسال کا حج منسوخ کردیا جائے یا تعداد میں کمی واقع کردی جائے اور اس کا باقاعدہ اعلان کیا جاچکا ہے ، حج کی تیاریوں کے سلسلہ میں تقریباً ایک مہینہ ہی رہ گیا ہے اور اب ممکن نہیں ہے کہ سعودی حکام اور دیگر ممالک اتنی بڑی تیاری مکمل کرلیں ۔ ہندوستان میں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔

اس سے دوہفتے قبل حج کمیٹی آف انڈیا کے چیف ایکزیکٹیوافسر مقصوداحمد خان نے عازمین حج سے التجا کی تھی کہ وہ اپنی جمع پیشگی رقم واپس لے سکتے ہیں،لیکن اس درمیان پندرہ ہزار نے منسوخی کی درخواست دے دی تھی ، حج کی منسوخی کے سلسلے میں حج پِلگرمس سوشل ورکرز گروپ کے روح رواں ایڈوکیٹ قاضی مہتاب حسینی کے مطابق گروپ تقریباً 55سال سے حجاج کرام کی خدمت کرتا ہے اور اس عرصے میں چند واقعات اور حادثات کے علاوہ حج کی منسوخی نہیں ہوئی ہے ،اگر ہم جائزہ لیں تو گزشتہ تین چار عشرے میں حج کو منسوخ کیے جانے کی کوئی تاریخ نہیں ملتی ہے ، لیکن امسال اگر حج منسوخ کیا گیا تو ایسا گزشتہ نصف صدی میں پہلی بار ہوگا۔

بتایا جاتا ہے کہ حج بیت اللہ کی منسوخی پہلی بار نہیں ہوگی ،سعودی عرب میں واقع شاہ عبد العزیز فائونڈیشن برائے ریسرچ اینڈ آرکائیوز کے مطابق تاریخ میں مختلف حالات ، واقعات اور وبائی بیماریوں کی وجوہات سے حج بیت اللہ تقریباً 40 مرتبہ منسوخ کیا جاچکا ہے یا کسی موقع پر حجاج کرام کی تعداد انتہائی کم بھی رہی ہے۔ ان میں وبائی بیماریوں اور بغاوت کے معاملات بھی پائے جاتے ہیں۔

حج کمیٹی آف انڈیا کے سابق سی ای او شبیہہ احمد نے کہا کہ حج کے دوران جمرات کے دوران بھگڈراور منٰی میں آتشزدگی کے واقعات پیش آئے ، جن میں 1997ءکا آتشزدگی کا واقعہ بھی ہے اور شبیہہ احمد حج کمیٹی کے سی ای او کے عہدہ پر فائز تھے اور انہیں فوری طورپر وزارت امور خارجہ نے ہندوستان بھیج دیا تھا تاکہ انتظامی امور کی نگرانی کریں ۔ اس دورمیں حج بیت اللہ کی تیاری کا مرکز عروس البلاد ممبئی ہی رہاہے۔

مہاراشٹر حج کمیٹی کے سابق چیئرمین جمال صدیقی نے باقاعدہ طورپرحج کی منسوخی کا اعلان کرنے اوردرخواست گزار عازمین حج کو ہی آئندہ سال حج بیت اللہ بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے، انہوں نے امسال کے عازمین حج کی جمع رقم کو فوری طورپر واپس کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے تاکہ اس رقم پر سود سے کمیٹی فائدہ نہ اٹھائے۔ وقت رہتے کمیٹی کو عمل کیا جانا چاہیئے۔

حج 2020کے سلسلہ میں جوخبرموصول ہوئی ہے، وہ تشویش ناک ہیں،عالمی سطح پرپھیلی وبائی بیماری کووڈ۔19 کے پیش نظر امسال مارچ میں ہی اسلام کے مقدس ترین مقام مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام اور مدینہ منورہ کی مسجد نبوی کو عام نمازیوں کے لئے بند کردیا گیا اور ویران پڑی ان مساجد اور دنیا کی سنسان مساجد کی تصاویر پوری دنیا میں آباد اربوں مسلمانوں کے لیے صدمے کا باعث بنیں۔ دراصل سعودی حکام نے حرمین شریف کوزائرین کے لیے بند کردیاتھا، لیکن پھر جزوی منظوری دے دی گئی ۔ واضح رہے کہ سعودی عرب میں اب تک متعدد کورونا وائرس کیسوں کی تصدیق ہوچکی ہے ، اور مستقبل میں اس کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔ ہر سال 20 لاکھ سے زیادہ افراد مکہ مکرمہ میں حج کا مقدس فرض ادا کرتے ہیں۔ جوکہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے ۔

قرون وسطیٰ کے حج کے بارے میں معلومات ناصر خسرو، ابن جبیر اور ابن بطوطہ سے ملتی ہے، جنہوں نے خود حج ادا کیا اورپھرسفرنامہ حج لکھ کراس سفر کومحفوظ بھی کیا، اسلامی تاریخ میں اس سے پہلے بھی بیماری ، تنازعات ، ڈاکہ زنی اور حملوں کی یا دیگر وجوہات کی بناء پر حج کو متعدد بار منسوخ کیا چکا ہے اور یہ خیال کہ حج پہلی مرتبہ منسوخ کیا جارہا ہے، صحیح نہیں ہے، بتایا جاتا ہے کہ حج کی سب سے پہلے اور سنگین منسوخی 10 ویں صدی عیسوی میں ہوئی ، جو مکہ میں ایک مبہم فرقے کے مقدس مقام پر قبضہ کرنے کے بعد ، اسلامی تقویم کی تیسری صدی کے مطابق تھا۔ قرمیان مشرقی عرب میں مقیم ایک انتہاپسند فرقہ تھا ، جس نے ابو طاہر الجنبی کے تحت اپنی ریاست قائم کی تھا۔ ان کا عقیدہ نظام اسماعیلی شیعہ اسلام پر مبنی تھا جس میں نسلی عنصر شامل تھے اور ان کا معاشرہ مساوات یعنی کمیونزم پر مبنی تھا ، یورپ کے دانشوران اسے ایک بڑے علاقے پر قابض واحد کمیونسٹ معاشرہ قرار دیتے ہیں۔ 930 ءمیں ابو طاہر نے حج کے دوران مکہ پر حملہ کردیا۔ تاریخی احوال کے مطا بق ، قرامطیوں نے اپنی کارروائی میں 30ہزار عازمین حج کو شہید کردیا تھااور ان کی لاشوں کو مقدس زمزم کے کنویں میں پھینک دیاتھا۔

اس کے بعد انہوں نے کعبہ سے حجر اسود کوبھی چرا لیااور اپنے ساتھ لے گئے تھے ،اس واقعہ کے بعد کئی برسوں تک حج معطل رہا ،عازمین حج پر یہ پہلا پرتشدد حملہ نہیں تھا۔ اس سے قبل 865 ء میں ، اسماعیل بن یوسف ، جسے الصفق کے نام سے جانا جاتا ہے ، جس نے خلافت عباسی کے خلاف بغاوت کی قیادت کی تھی ، مکہ کے قریب عرفات پہاڑ پر جمع ہوئے زائرین کا قتل عام کیاتھا ، اور حج کو منسوخ کرنے پر بھی مجبور کیا۔ ایک بار1000 عیسوی میں حج کو زیادہ پیش گوئی اور سفر کے ساتھ وابستہ اضافے کے اخراجات کی وجہ سے منسوخ کردیا گیا تھا ، صدیوں میں پیش آنے والے چھوٹے موٹے واقعات کے سبب محدود پیمانے پر حج کی ادائیگی کی گئی ،لیکن 1831 میں ، ہندوستان میں طاعون کی وباء پھیلنے کے نتیجے میں سینکڑوں زائرین حج کی موت واقع ہوئی تھی۔ اس کے بعد 1837 سے 1892 کے درمیان ،مختلف انفیکشن نے سیکڑوں حجاج کرام لقمہ اجل بنتے رہے ۔ حج کے دوران اکثر انفیکشن پھیلتے ہیں۔ جدید دور سے پہلے ، سعودی حکام بہت زیادہ پریشانی کا شکاررہتے تھے ، ہزاروں زائرین قریبی حلقوں میں اکٹھے ہوتے تھے اور بعض اوقات جان لیوا بیماریوں کا مناسب علاج بھی نہیں کرتے تھے۔ 1987ءکے حج کے بعد گردن توڑ بخار نے اس وقت عالمی وبا کی شکل اختیار کر لی تھی، جب حجاج اس بیماری کو اپنے اپنے ممالک میں واپس لے گئے۔ اب یہ ویزا کی لازمی شرط ہے کہ مخصوص بیماریوں کے خلاف ویکسین کرا لی جائے۔ 2010ءکی شرائط میں زرد بخار، پولیو اور انفلوئنزا کی ویکسین بھی لازمی قرار دی گئی ہیں۔2013ء میں سعودی حکومت نے شدید بیمار اور بوڑھے افراد کو اس سال حج ملتوی کرنے کی درخواست کی اور میرس (مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سنڈروم کورونا وائرس بیماری کی وجہ سے حجاج کی کل تعداد میں بھی کمی کر دی گئی تھی ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.