کانگریس کا خفیہ ہاتھ
عارِف اگاسکر
ان دِنوں قومی سیاست میں ایک نوجوان لیڈر اپنی شناخت بنا نے کی کوشش کر رہا ہے جسے سیاسی گلیاروں میں راج ٹھاکرے کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ بہت کم لوگوں کو یہ جانکاری ہو گی کہ راج ٹھاکرے کا اصل نام سوراج شری کانت ٹھاکرے ہے ۔ وہ ایک بہترین کارٹونسٹ کے ساتھ ساتھ بہترین مقرر بھی ہیں ۔ راج ٹھاکرے کو آنجہانی شیوسینا سپریمو بال ٹھاکرے کا جانشین بھی کہا جا تا رہا ہے ۔ لیکن بال ٹھاکرے کے فرزند ادھو ٹھاکرے کے رہتے ہوئے وہ بال ٹھاکرے کے جانشین نہیں بن سکے ۔ جنوری۲۰۰۶ء میں انھوں نے شیوسینا سے استعفیٰ دیا اور۹؍ مارچ ۲۰۰۶ء کو ممبئی میں اپنی نئی پارٹی ’مہاراشٹر نو نِرمان سینا‘ کی بنیاد رکھی ۔ راج ٹھاکرے کی تقاریر میں آنجہانی بال ٹھاکرے کےانداز کی وجہ سے جلد ہی ان کی پارٹی نوجوانوں میں مقبول ہوگئی ۔
۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخاب کے دوران مہاراشٹر کے مختلف شہروں میں انھوں نے وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی مخالفت میں منعقد کیے گئے جلسوں میں اپنی تقاریر کے ذریعہ بی جے پی کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی اور عوام سے اپیل کی کہ بی جے پی کو ووٹ دینے کی بجائے کسی دوسری پارٹی کو ووٹ دیں ۔ عوام سے راج ٹھاکرے کی اس اپیل کا یہ مطلب نکالا جا نے لگا کہ انھیں این سی پی اور کانگریس کی حمایت حاصل ہے ۔ گذشتہ دنوں دہلی میں راج ٹھاکرے اورسونیا گاندھی کی ملاقات نے قومی سیاست میں ہلچل سی مچادی ہے اورسیاسی مبصرین اسے ایک نئے زاویہ سے دیکھ رہے ہیں ۔
ممبئی سے شائع ہو نے والے مراٹھی روزنامہ ’پُنیہ نگری‘ کے کالم نگار چندر شیکھر بروے راج ٹھاکرے اور سونیا گاندھی کی ملاقات کا جائزہ لیتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ جس طرح سوا سو سالہ پُرانی کانگریس پارٹی اپنے وجود کو قائم رکھنے کے بحران میں مبتلاء ہے بالکل اسی طرح مہاراشٹر نو نِرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے بھی پریشان ہیں ۔ گذشتہ پیر کو راج ٹھاکرے دہلی آئے تھے اس دوران وہ الیکشن کمیشن سے ملے بعدازاں سیدھے ۱۰؍ جن پتھ پہنچ گئے اور کانگریس لیڈر سونیا گاندھی سے ملاقات کی جس کے سبب سیاسی گلیاروں میں زبردست ہلچل مچ گئی ہے ۔ راج ٹھاکرے کے بیان بازی کو لے کر برقی میڈیا میں جنگ شروع ہوجاتی ہے اور سیاسی مباحثہ میں شدت آجاتی ہے ۔
اس سلسلے میں راج ٹھاکرے نےصحافیوں سے گفتگوکر تے ہوئےکہا کہ ا نھوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں ای وی ایم کی بجائے بیلٹ پیپر سے انتخابات کر وائے جائیں ۔ اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیراعظم نریندرمودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو شکست دینے کے لیے وہ تعاون دینے کے لیے بھی تیار ہیں ۔ اصل میں راہل گاندھی کی کانگریس اور راج ٹھاکرے کی مہاراشٹر نو نرمان سینا(منسے) ان دونوں پارٹیوں سے عام آدمی یا ووٹر بہت دور چلا گیا ہے ، اس کا اندازہ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ہوا ہے ۔ مذکورہ انتخاب میں کانگریس کو اتنی بھی سیٹیں نہیں ملیں کہ وہ اپنے بل بوتے پرلوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرتی ۔ جبکہ راج ٹھاکرے نے انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کیا تھا ۔
ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ راج ٹھاکرے اور سونیا گاندھی کی ملاقات سے کیا حاصل ہوگا ؟ ای وی ایم کے علاوہ دونوں لیڈران میں مزید کون کون سے معاملوں پر گفتگو ہوئی یہ تمام باتیں مخفی ہیں ۔ راج ٹھاکرے اور سو نیا گاندھی کی ملاقات کو لے کرعوام میں یہ چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ راج ٹھاکرے نے سونیا گاندھی کواپنی منشاء سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہاراشٹر اسمبلی کا انتخاب اگربیلٹ پیپر سےنہیں کیا جاتا تو کانگریس پارٹی کو چاہیئے کہ وہ انتخاب کا بائیکاٹ کرے ۔ ان کا خیال ہے کہ کانگریس نے انتخاب کا بائیکاٹ کرنے کا ارادہ کیا تو راشٹروادی کانگریس سمیت ملک بھر کی اپوزیشن پارٹیاں اس کی حمایت کریں گی ۔
درحقیقت لوک سبھا انتخابات کے نتائج آنے پر اپوزیشن پارٹیوں میں ناراضگی پھیل گئی تھی ۔ مغربی بنگال کے لیڈران نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہو ئے کہا تھا کہ یہ عوامی رائے نہ ہوکر ای وی ایم کا کمال ہے ۔ جس کے بعد دہلی میں اپوزیشن کے لیڈران کی ایک میٹنگ بھی منعقد کی گئی تھی ۔ مذکورہ میٹنگ میں یہ خیال پیش کیا گیا کہ تمام پارٹیوں کے اراکین پارلمینٹ ای وی ایم کی مخالفت کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ دیں اوربیلٹ پیپر سے دو بارہ انتخاب لینے کا مطالبہ کریں ۔ تاہم تمام لیڈران کے ذریعہ استعفیٰ دینے پر الیکشن کمیشن نے دوبارہ ای وی ایم کے ذریعہ ہی انتخاب کرایا تو کیا کِیا جائے ؟ قومی اور علاقائی پارٹیاں انتخابات کا بھی بائیکاٹ کریں گی ، لیکن ان علاقائی پارٹیوں کو چیلنج کرنے والی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں نے انتخابات میں حصہ لیا تو اپنی برہنگی عیاں ہوگی یا ہم حاشیہ پر چلے جائیں گے ۔
اس طرح کا خوف بھی لیڈران نے جتا یا ۔ جس کے سبب استعفیٰ دینے کے خیال کو ذہن سے نکالا گیا ۔ لیکن اس تعلق سے سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ مہاراشٹر کے انتخابات میں بھی اس کو دہرایا جا سکتا ہے ۔ اس وجہ سے سونیا گاندھی اور راج ٹھاکرے کی ملاقات سے حقیقت میں کچھ باہر آئے گا ؟ کسے کس کی مدد ملے گی ؟ اس طرح کے سوالات پیدا ہونا فطری ہے ۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ راج ٹھاکرے اور سو نیا گاندھی کی یہ پہلی کھلے عام ملاقات ہوئی ہے اور دونوں لیڈران اس سے قبل کبھی نہیں ملے ہوں گے یا آپس میں تبادلہ خیال نہیں ہوا ہوگا ۔ سابق مرکزی وزیر آنجہانی ولاس راو دیشمکھ جب وزیر اعلیٰ کےعہدے پر فائز تھے اس دوران ان کے دور اقتدار پر نظر دوڑائی جائے تو یہ تصویر صاف ہو گی ۔
سچ کہا جائے تو راج ٹھاکرے شروع سے (یعنی علیحدہ ہو نے کے بعد سے) کانگریس کو فیض پہنچاتے رہے ہیں ۔ مہاراشٹر میں نظم و نسق کی برقراری کے لیے سابق وزیر اعلیٰ آنجہانی ولاس راو دیشمکھ سے سابق وزیراعلیٰ پرتھوی راج چوہان تک سب کو ان کا تعاون ملتا رہا ہے ۔ ممبئی میں شیوسینا کی طاقت کو کم کرنے کے لیے کانگریس نے بہت کچھ کیا ہے اور کانگریس کو کچھ حد تک کامیابی بھی ملی ہے ۔ اب مدعا یہ ہے کہ راج ٹھاکرے کا تعاون کھلے عام لیا جائے یا پہلے کی طرح مخفی طریقہ سے لیا جائے ، کانگریس کو اس کا فیصلہ لینا ہے ۔ کانگریس اپنی پرانی روایت کے مطابق مخفی طریقہ سے ہی راج ٹھاکرے کا تعاون حاصل کرے گی ۔
کھلے طور پر مدد لینے پر ممبئی سمیت ملک بھر میں شمالی ہند کے رائے دہند گان کا کانگریس سے دور چلے جانے کا خوف ہے ۔ ایسے بحرانی دور میں کانگریس ایسی مصیبت مول نہیں لے گی ۔ تاہم اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں ، کانگریس ملک اور ریاست دونوں جگہوں سے اقتدار سے بے دخل ہوئی ہے ۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۴ء ان دس بر سوں کے عرصہ میں ملک میں کانگریس کی حکومت تھی ۔ لیکن انہی دس سال کے عرصہ میں کانگریس پارٹی ہزیمت سے دوچار ہوئی ہے ۔ اس دوران کانگریس کے بیشتر وفادار رضاکار دور چلے گئے اور کئی ناراض ہوگئے ہیں ۔ کانگریس کو ملی ہزیمت سے اب کانگریس کو اپنے وجود کو قائم رکھنے کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے اور یہی حالت راج ٹھاکرے کی بھی ہے ۔
دوسری جانب راج ٹھاکرے نے وزیراعظم نریندر مودی ، وزیر داخلہ امیت شاہ اور شیو سینا کے سر براہ ادھو ٹھاکرے کے خلاف اپنا محاذ کھولا ہے ۔ حالیہ لوک سبھا انتخاب میں انھوں نے بی جے پی ، شیو سینا متحدہ محاذ کے خلاف مہاراشٹر بھر میں بڑے بڑے جلسہ کیے ۔ ان جلسوں میں بڑی بھیڑ جمع ہوئی لیکن اس بھیڑ کو وہ ای وی ایم میں جمع نہیں کر سکے ۔ ویسے دیکھا جائے تو راج ٹھاکرے کے جلسوں میں شروعات سے بھیڑ جمع ہوتی آئی ہے ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کا انھیں فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے ۔
[email protected] Mob:9029449982