
چوری کے الزام میں دبنگوں نے دلت نوجوان کو بری طرح پیٹنے کے بعد زندہ جلادیا
رہائی منچ نے بارہ بنکی میں زندہ جلائے گئے دلت نوجوان سے ملاقات کرنے کے بعد کہا ’ریاست میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے‘

لکھنو : رہائی منچ نے بارہ بنکی میں چوری کے شک میں دبنگوں کے ذریعہ دلت نوجوان کو پیٹ پیٹ کر مرنے کے قریب پہنچا دیینے کے بعد اسے زندہ جلانے کی کوشش کو قانون و انتظام کے معاملہ میں ریاستی حکومت کی ناکامی قرار دیا ۔ منچ نے کہا کے راجدھانی کے قریب میں ہوئے مذکورہ واقعہ یوگی کے اس بڑبولے بیان کی پول کھولتی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ مجرمین یا تو جیل میں ہیں ان کا رام نام ستیہ ہو چکا ہے ۔
رہائی منچ کے وفد نے لکھنو کے سِوِل اسپتال میں داخل متاثر سجیت گوتم اور اس کے خاندان سے ملاقات کی ۔ وفد میں شکیل قریشی اور شاہ رخ احمد شامل تھے ۔
سجیت گوتم کے خسر ترلوکی نے بتایا کہ وہ لکھنو میں ویلڈنگ کا کام کرتا ہے ۔ سانحہ والے دن کام زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے لکھنو سے نکلنے میں دیر ہوگئی ۔ اسے اپنے سسرال جانا تھا ۔ وہ راگھو پوروا گائوں پہنچا ہی تھا کہ کتے اس پر بھونکنے لگے ۔ لوگوں نے اسے چور سمجھا اور بنا کسی تفتیش کے اسے پیٹنا شروع کردیا ۔ سجیت چیختا رہا کہ وہ چور نہیں ہے لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی ۔ دبنگوں نے اسے لاٹھی ڈنڈوں سے بری طرح پیٹا ۔ اسے کرنٹ لگایا ، پانی کے ڈرم میں دیر تک ڈبو کر رکھا ، ادھمرا ہو جانے پر اس پر پٹرول ڈال کر آگ لگا دی ۔ وہ تڑپتا رہا لیکن درندہ نما حملہ آوروں کو اس پر رحم نہیں آیا ۔
اس حیوانیت کی خبر ملتے ہی سجیت کے خسر ترلوکی جائے وقوع پر پہنچے ۔ دبنگوں نے انہیں بھی گھیر لیا ۔ انہیں زمین پر گرا کر ان پر لات گھونسوں کی برسات کردی ۔ انہوں نے کہا کہ سجیت کے دو بچے ہیں ، ایک تین سال کا اور دوسرا سات مہینے کا شیر خوار ۔ اس کی بیوی میکے میں تھی ، وہ بچوں سے ملنے سسرال جارہا تھا ۔ وہ محنت مزدوری کرکے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہے ۔ اسے اس قدر مارا گیا کہ ٹھیک ہونے میں اسے برسوں لگ جائیں گے ۔ اس کی تو زندگی ہی برباد ہوگئی ، اب اسکے بیوی بچوں کا کیا ہوگا ۔
ان کا مطالبہ ہے کہ مجرمین پر کڑی کارروائی ہو اور جلد انصاف ملے نیز خاندان کو بھکمری سے بچانے کے لئے اسے معاوضہ ادا کیا جائے ۔