کشمیر کی دو تصویریں!
عارِف اگاسکر
مرکزی حکومت کے ذریعہ جموں کشمیرمیں ۳۸ ؍ ہزار اضافی فوج کی تعیناتی ، امرناتھ یاتریوں اور سیاحوں کو رِیاست سے فوراً چلے جانے کی ہدایت کے بعد دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ اے کوہٹا یا جانا ایسا عمل تھا جس نے رِیاست کے حالات کو یکسر تبدیل کردیا اور عوام گھروں میں محصور ہوگئے ۔ اس دوران رِیاست کے بڑے سیاسی لیڈران کو نظر بند کیا گیا ، انٹر نیٹ اور مو بائل خدمات پر قدغن لگایا گیا اور دفعہ ۱۴۴؍ نافذ کرنے کے بعد اچانک ۵؍ اگست کو جموں کشمیر کے خصوصی درجہ کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ جموں کشمیر سے نہ صرف مذکورہ دفعات ہٹائی گئیں بلکہ اس رِیاست کو اب دو حصوں یعنی لداخ اور جموں کشمیر میں تقسیم کرکے مرکزی خطہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔
دفعہ ۳۷۰؍ کے تحت جموں کشمیر اسمبلی کو خارجہ ، دفاع اور اطلاعات و نشریات کے علاوہ کسی بھی محکمے سے متعلق قوانین بنانے کا اختیار حاصل تھا ۔ یعنی ملک کے دیگر شہریوں کے برخلاف کشمیری عوام کے لیے ملکیت ، شہریت اور بنیادی حقوق سے متعلق قوانین مختلف تھے ۔ جس کی وجہ سے ملک کے دیگر رِیاستوں کے شہری جموں کشمیر میں زمینات اور املاک خرید نہیں سکتے تھے ۔ اب جبکہ جموں کشمیر میں اسمبلی کا وجود نہیں ہے اور رِیاست کا خصوصی درجہ بھی ختم کیا جاچکا ہے ملک کے دیگر رِیاستوں کے شہری وہاں پر زمینات و املاک بھی خرید سکیں گے اور وہاں پررہائش بھی اختیار کر سکیں گے ۔ لیکن کیا کشمیر کی عوام اس فیصلہ سے خوش ہے ؟ اس کا اندازہ جموں کشمیر کے حالات سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے ۔ آج تین ماہ سے زائد عرصہ بیت جانے کے بعد بھی نہ تو وہاں کے حالات سازگار ہورہے ہیں اور نہ ہی جموں کشمیر کے شہریوں میں حکومت کے تئیں اعتماد بحال ہوا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔
مذکورہ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے مراٹھی روز نامہ ’سکال‘ ۲۱؍ نومبر کے اپنے اداریہ میں لکھتا ہے ’راجیہ سبھا میں بدھ کے روزمرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ زمین کی جنت کے نام سے مشہور کشمیر کی صورتحال پُر امن اور ہم آہنگی والی ہے اوراب وہاں کسی بھی علاقہ میں حکم امتناعی نہیں ہے جس کی وجہ سے اب وہاں پر پہلے جیسے حالات ہیں ۔ جموں کشمیر کو خصوصی درجہ عطا کر نے والی آئین کی دفعہ ۳۷۰؍ کو رد کیے جانے کو اب ۱۰۰؍ دن کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ امیت شاہ جب وہاں کی صورتحال کے بارے میں رپورٹ پیش کر رہے تھے تب اسی دوران سپریم کورٹ میں مر کزی حکومت کے اس فیصلہ کو چیلنج کر نے والی اپیلوں پر منگل سے سماعت شروع ہو گئی تھی ۔ مذکورہ سماعت کے دوران اپیل کنندہ کے وکیل دُشینت دوے کے ذریعہ عدالت میں پیش کی گئی کشمیر کی تصویر امیت شاہ کے بیان کو مسترد کرتی ہے ۔ لہذٰا کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں شکوک وشبہات کا پیدا ہونا فطری بات ہے ۔
سرکارکی جانب سے یہ تصویر پیش کی جا رہی ہے کہ اب وہاں پر اسکول اور کالج شروع ہوگئے ہیں اور وہاں کی دُکانیں بھی کھل رہی ہیں ۔ تاہم ابھی تک وہاں کے صحافیوں پر کئی پابندیاں عائد ہیں ، انٹرنیٹ سروِس بند ہے اور سیل فون کے استعمال پر بھی کئی پابندیاں عائد ہیں ۔ کشمیر میں پاکستانی سرگرمیاں مسلسل جاری رہتی ہیں اور امیت شاہ یہ کہنا نہیں بھولے کہ ملک کی سلامتی دیگرمسائل سے زیادہ اہم ہے ! درحقیقت پاکستان جو حرکتیں کررہا ہے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ لیکن کشمیرکی صورتحال سے نمٹنے کے دوران جن خامیوں پر بحث کی جارہی ہے اس کی وضاحت کرنے میں حکومت کیوں ٹال مٹول کررہی ہے ؟
مرکزی حکومت کے ذریعہ ۵؍ اگست کوجموں کشمیر کے خصوصی درجہ کو رد کر نے کا فیصلہ لیتے ہی مذکورہ فیصلہ کو چیلنج کر نے کی متعدد اپیلیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھیں جن پر منگل سے سماعت شروع ہوگئی ۔ لیکن مرکز اور کشمیر انتظامیہ ان درخواستوں کو کس معنی میں دیکھ رہی ہے ، یہ کچھ ہی گھنٹوں میں عیاں ہوگیا ۔ جب اپیل کنندگان کے وکلاء کی جرح شروع ہوئی تب عدالت میں سرکار کی جانب سے قانون کی جانکاری رکھنے والا کوئی بھی افسر یا وکیل موجود نہیں تھا ۔ جس پر جج نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرکار اس تعلق سے سنجیدہ نہیں ہے ، جس کے بعد عدالتی کام کاج کے دورا ن سرکاری وکلاء کو عدالت میں حاضر ہونا پڑا ۔ سپریم کورٹ میں حذیفہ احمدی نے کہا کہ کشمیر میں غیراعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے ، شہریوں کو سرکار کے کسی بھی فیصلے کی مخالفت کرنے کا حق حاصل ہے جسے چھینا نہیں جا سکتا ۔ دُشینت دوے نامی ایک وکیل کے ذریعہ کشمیر کے شہریوں پرعائد کی گئی متعدد پابندیوں کی تفصیلات عدالت کے روبرو پیش کرنے پر امیت شاہ اور اپیل کنندگان کے ذریعہ کشمیر کی دکھائی جارہی متضاد تصاویر نے ایک مختلف صورتحال پیدا کی ہے ۔
امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر کی تقسیم کے بعد وہاں پر بندوق کی گولیوں سے ایک بھی شہری کی موت نہیں ہوئی ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا کہ وہاں کی معمولات زندگی رواں دواں ہے اور اس علاقہ میں امن و امان ہے ۔ سر کار کی جانب سے لوک سبھامیں دعویٰ کیا گیا کہ سنگباری کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ اس کے باوجود اس دوران سرکار نے یہ جانکاری بھی دی کہ اگست کے بعد وہاں کے ۷۰۰؍ شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے ۔ تاہم اگست اور ستمبر ان دو ماہ میں یعنی سرکار کے فیصلہ کے بعد پہلی مرتبہ جو کچھ تشدد برپا ہوا تھا اس میں بڑے پیمانے پرکمی ہو نے کا دعویٰ بھی سرکار کررہی ہے ۔
اسی کے ساتھ سرکار کا کہنا ہے کہ وہاں پرسیاحوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ کشمیر کی صورتحال اتنی بہتر ہے تو پھر وہاں کے شہریوں پرعائدکی گئی مختلف قسم کی پابند یوں کو ختم کیوں نہیں کیا جاتا ؟ یہی اصل سوال ہے ۔ ایسا کہا جا تا ہے کہ آئین کی دفعہ ۳۷۰؍کے تعلق سے فیصلہ لینے سے قبل جموں کشمیر میں ایمرجنسی جیسی حالت پیدا کی گئی تھی جو اب بھی قائم ہے ۔ جمہوری نظام میں جب کسی بھی رِیاست کے تعلق سے کسی بھی طرح کا کوئی اہم فیصلہ لیا جاتا ہے تو وہاں کے شہریوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے ۔ وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے اٹل بہاری واجپائی نے کشمیری عوام کو یقین دلایا تھا کہ ’کشمیر کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ ’انسانیت ، کشمیریت اور جمہوریت‘ کی بنیاد پر لیا جائے گا ۔ اب کشمیر کی جو بھی صورتحال ہو ، بظاہر حکومت واجپائی کے تینوں نکات سے منہ موڑ چکی ہے ۔ کشمیر کی یہ دو تصاویر یہی بتاتی ہیں ۔
[email protected] Mob:9029449982