صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

اللہ کے مہمان کاخلوص و محبت کے ساتھ استقبال کیجیے – ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ

43,125

فضا خوش گوار ہے۔ہواؤں میں ایسی خوش بو ہے جو روح کو معطر کررہی ہے۔گلی کوچوں میں فرشتوں کی گردش میں اضافہ ہوگیاہے۔اہل ایمان کے چہروں پر اطمینان اور مسرت کا عکس ہے؟ہر طرف خوشی و مسرت کا ماحول ہے یہ کس کے استقبال کی تیاریاں ہیں؟کیا کوئی عظیم مہمان آنے والا ہے؟ اچھا اچھا۔۔شعبان کے آخری ایام ہیں۔یہ اللہ کے مہمان ”رمضان“ کے استقبال کی تیاریاں ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺرمضان کی آمد سے پہلے ہی شعبان کے مہینے میں رمضان کے استقبال کی تیاریاں فرماتے تھے،آپ کی نفل عبادات میں اضافہ ہوجاتا تھا،اللہ کے حضور گریہ و زاری بڑھ جاتی تھی،آپ ؐبار بار صحابہ کرام ؓکے سامنے ماہ رمضان کی فضیلتیں بیان فرماتے تھے اور ان کو اس ماہ مبارک کے استقبال کی طرف متوجہ فرماتے تھے۔
ہم بھی ماہ مبارک کی آمد سے پہلے پہلے اس کے مقام،اس کی عظمت، اس کی فضیلت،اس کے مقصد اوراس کے پیغام کو اپنے ذہن میں تازہ کریں تاکہ اس کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں اوراس بات کا پختہ ارادہ کریں کہ ہم اس ماہ مبارک میں اپنے اندر تقوی کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزہ کا ماحصل ہے۔
رسول اکرم ؐ صحابہ کرامؓ کو اکٹھاکرتے اورخطبہ دیتے جس میں انھیں رمضان کی آمدکی خوش خبری سناتے تھے۔رمضان کی فضیلت اور اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کے سلسلے میں توجہ دلاتے۔ایسے ہی ایک خطبہ میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! عنقریب تم پر ایک عظیم الشان ماہ مبارک سایہ فگن ہونے والا ہے۔اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزارراتوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے،اس کے قیام کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قراردیا،توجس شخص نے اس ماہ میں ایک چھوٹا سا کارخیرانجام دیااس نے دیگرماہ کے فرائض کے برابرنیکی حاصل کرلی،یہ صبراورہمدردی کا مہنیہ ہے۔

یہ وہ ماہ مبارک ہے،جس میں اللہ اپنے بندوں کے رزق میں اضافہ فرماتاہے۔اس ماہ مبارک میں جس نے کسی روزے دار کو افطار کرایا۔ روزے دار کے روزے میں کمی کے بغیراس نے روزے دارکے برابرثواب حاصل کیا اورخود کو جہنم سے بچالیا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ ہم میں سے ہرشخص تو روزے دارکو افطارکرانے کی استطاعت نہیں رکھتاہے؟آپ ﷺنے فرمایا:جس نے روزے دار کو پانی کا گھونٹ پلایا،یا دودھ کا گھونٹ پلایا،یا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرایااس کا اجراسی کے برابر ہے اوراس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔ اس سے روزے دار کے اجرمیں کمی نہیں ہوگی۔جس نے اپنے ماتحتوں سے ہلکاکام لیا اس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔(مشکوۃ)
آپ بھی اپنے اہل خانہ اور احباب کو جمع کرکے نبی ﷺ کا یہ خطبہ سنائیے اور رمضان کے استقبال کی تیاریوں میں اضافہ کیجیے۔اس کی ایک تیاری تو ظاہری ہے۔اور دوسری تیاری روحانی ہے۔یعنی ایک گھر کی صفائی ہے اور دوسری دل کی طہارت ہے۔اس لیے کہ اللہ کی برکتیں اور رحمتیں اسی دل پر نازل ہوتی ہیں جو دل صاف ستھرا ہوتاہے،برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔جس طرح ہم کسی مہمان کے آنے پر اپنے گھر کی صفائی ستھرائی کرتے ہیں،اللہ کا یہ مہمان ہمارے دل میں قیام کرے گا اس لیے ہمیں اپنے دل کی صفائی ستھرائی کرنی چاہئے۔

دل کی گندگی کیا ہے؟ دل کی گندگی،ہمارے وہ گناہ ہیں جو ہم سے بھول چوک یا جان بوجھ کر ہوجاتے ہیں۔اس مبارک مہینے کے آنے پر ہمیں اپنے دل کو گناہوں سے پاک کرلینا چاہیے۔اس لیے کہ جس دل میں گندگی ہوتی ہے اس دل پر نہ اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں،نہ وہ دل اس مبارک مہینے کے قیام کے قابل ہوتا ہے،اور نہ ہی اس مہینے کی برکتوں سے فیض یاب ہوسکتا ہے۔آئیے ہم بھی اپنے دل کو اس قابل بنالیں کہ اللہ کا یہ مہمان ہمارے دل میں قیام کرسکے،اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہمارے دلوں پر نازل ہوسکیں،اور یہی تزکیہ ہے۔اللہ کے رسول ﷺ پر جب قرآن پاک نازل کیاگیا تو فرمایا گیا:
ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّیْنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیَاتِہٖ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ (الجمعہ۲)
وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انہیں میں سے مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، اور بے شک وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دلوں کے تزکیہ کے بعد ہی اللہ کی آیات سے فائدہ ہوسکتا ہے،اس لیے کہ اس آیت میں اللہ کے نبی ﷺ کے بارے میں یہ فرمایا گیا کہ یہ رسول انھیں قرآن کی آیات سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے پھر انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ہمارے گھر ایک عورت دودھ دینے آیا کرتی تھی،ایک دن وہ دودھ پھٹ گیا یعنی خراب ہوگیا۔دوسرے دن میری والدہ نے اس سے شکایت کی کہ تمہارا دودھ پھٹ گیا۔اس نے کہا میں تو تازہ دودھ لائی تھی،کیسے پھٹ گیا،تم نے اپنا برتن ٹھیک سے صاف نہیں کیا ہوگا اس لیے پھٹ گیا۔میں آج جب اس واقعہ پر غور کرتا ہوں کہ دودھ جیسی نفیس،عمدہ چیز جب یہ گوراہ نہیں کرتی کہ وہ جس برتن میں ہواس برتن میں ذرا سی بھی گندگی ہو تو اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں کیسے یہ گوارا کرسکتی ہیں کہ وہ کسی ناپاک،نجس،گناہوں سے آلودہ دل پرنازل ہوں۔دودھ کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً، نُّسْقِیکُم مِّمَّا فِی بُطُونِہِ مِن بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاءِغًا لِّلشَّارِبِینَ (النحل66)
اور بے شک تمہارے لیے چوپایوں میں سوچنے کی جگہ ہے، ہم ان کے جسم سے خون اور گوبر کے درمیان خالص دودھ پیدا کر دیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔


اس سے پہلے کہ رمضان ہمارے درمیان ہو اور ہم رمضان کے درمیان ہوں ہمیں اپنا دل صاف کرلینا چاہیے،ہمیں اللہ کے سامنے رورو کر،گڑا گڑا کر یہ دعا کرنا چاہئے کہ اے اللہ ہمیں معاف کردے،ہمارے گناہوں کو بخش دے،ہمارے دلوں کو پاک کردے،ہم تجھ سے اپنے کیے کی معافی چاہتے ہیں،اے اللہ ہمارے دل کو اس قابل بنادے کہ تیرا مہمان اس میں قیام کرسکے۔دل کی صفائی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ سے معافی کے ساتھ ساتھ اس کے بندوں سے بھی معاملات صاف کرلیں،اگر کسی کو ہم سے شکایت ہو تو اس سے معافی مانگ کر شکایت دور کرلیں۔اللہ سے یہ وعدہ کریں کہ اے اللہ ہم آئندہ تیری نافرمانی نہیں کریں گے،ہمیشہ تیرا کہنا مانیں گے۔تیرے حکموں پر چلیں گے۔اسی لیے روزہ ہم فرض کیا گیا ہے کہ ہم اپنے اندر تقوے کی صفت پیدا کریں۔اللہ کا ارشاد ہے۔
یٰا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ. (البقرۃ: ۳۸۱)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
تقویٰ یہی ہے کہ انسان اپنے آپ کو تمام سیئات سے،تمام گناہوں سے،تمام کوتاہیوں سے باز رکھے اور تمام نیکیاں بجالائے،ہر وہ نیک کام جو کرسکتا ہے وہ کرے۔


جب ہمارے گھر کوئی مہمان آتا ہے تو ہمارے معمولات بدل جاتے ہیں یا مہمان کی خاطر بدلنے پڑتے ہیں۔مہمان جس قدر عظیم اور قریبی ہوتا ہے اسی قدر ہم اس کے لیے خود کو فارغ کرتے ہیں۔ورنہ مہمان ناراض ہوجاتا ہے۔ظاہر ہے کوئی شخص ہمارے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر آئے،سفر کی تکلیفیں برداشت کرے اور ہم اس کی خاطر تواضع نہ کریں یا اس سے بات کرنے کے لیے وقت نہ نکالیں تو اس کا ناراض ہونا فطری ہے۔اسی طرح اللہ کے مہمان کی حیثیت سب مہمانوں سے زیادہ ہے۔ہم پر اللہ کے بے شمار احسانات ہیں،اگر اس کے مہمان کے لیے خود کو فارغ نہیں کریں گے تو یہ احسان فراموشی ہوگی۔اس لیے اپنے معمولات کی منصوبہ بندی ابھی سے کرلیجیے۔اب ہمیں رات کو مہمان کے ساتھ سحری کرنا ہے،نمازیں وقت سے ادا کرنا ہیں،رات کو تراویح پڑھنا ہے،مہمان کے پیغام (قرآن) کی تلاوت کرنا ہے،اسے سمجھنا ہے،دوسروں تک پہنچانا ہے۔اپنے مہمان کا تعارف اپنے احباب سے کرانا ہے یعنی دعوت افطار کا اہتمام کرنا ہے۔مہمان کے اعزاز میں غریبوں کی مد دکرنا ہے۔

یہ جملہ امور ایک ماہ تک انجام دینے ہیں۔اس لیے اپنی بھی کمر کس لیجیے اور اہل خانہ کی ذہنی تربیت بھی کیجیے تاکہ انھیں کوئی پریشانی نہ ہو۔مہمان سے بھرپور استفادے کا پروگرام بنائیے۔کوئی کوتاہی نہ رہ جائے۔اس کے باوجود رخصت کرتے وقت اپنی عاجزی و خاکساری کا مظاہرہ کیجیے۔مہمان سے دست بستہ معافی طلب کیجیے۔دوبارہ تشریف لانے کی درخواست کیجیے۔یہ اللہ کا فضل ہے کہ اس اللہ نے ہماری دعا سن لی ہے۔ہم دعائیں کرتے تھے ”اَلَّلہُمَّ بَلَغَنَا رَمْضَانُ“ اے اللہ ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچادے۔یعنی ہماری زندگی میں رمضان کا مبارک مہینہ آجائے۔اللہ کی مہربانی ہے کہ رمضان دستک دے رہاہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.