صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

گجرات ہائی کورٹ : پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

258,637

ڈاکٹر سلیم خان

ملک کے معروف جہد کار اور نامور وکیل پرشانت بھوشن نے پچھلے دنوں ایک ویب کانفرنس میں کہا تھا گوکہ سپریم کورٹ  کا رویہ مایوس کن ہے لیکن ملک کی زیریں عدالتوں سے وقتاً فوقتاً حوصلہ افزاء فیصلے آتے رہتے ہیں اس لیے ان سب مقامات پر کوشش جاری رہنی چاہیے ۔ اس بابت دہلی میں پٹیالا ہاوس کورٹ کے جج دھرمیندر رانا نے پولس سے کہا کہ اس کی تفتیش یکطرفہ ہے اور پھر آصف اقبال کو ضمانت بھی دے دی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے فیصلےدہلی کے علاوہ  بامبے اور اڑیسہ جیسی غیر بی جے پی ریاستوں میں ہی نہیں بلکہ الہ باد اور احمد آباد ہائی کورٹ سے بھی آرہے ہیں ۔ احمد آباد کی اہمیت اس لیے غیر معمولی ہے کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کی کرم بھومی ہے ۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سب سے پہلا اسمبلی انتخاب انہوں نے احمد آباد سے جیتا تھا ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ عدالت عظمیٰ نے ملک کے مہاجر مزدوروں کو بری طرح مایوس کیا ہے گجرات ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے نے نہ صرف عوام و خواص بشمول وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے ہوش اڑا دئیے ہیں ۔ اس لیے بے ساختہ یہ شعر یاد آتا ہے ؎  ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانوں سے /پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کوویڈ کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے کاغذی نگرانِ کار وزیرداخلہ امیت شاہ ایوانِ پارلیمان میں گاندھی نگر حلقۂ انتخاب کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اس حلقہ میں احمد آباد کا بھی کچھ علاقہ شامل ہے۔ اس کے باوجود کورونا کے معاملے میں احمد آباد ہائی کورٹ کی سخت تنقید دراصل ان دونوں رہنماوں کے قد میں مزید چار چاند لگاتی ہے کیونکہ یہ لوگ اسی طرح کی نیک نامی سے اقتدار کی بلندیوں پر فائز ہوئے ہیں ۔ گجرات ہائی کورٹ کے کورونا سے متعلق  شہرہ آفاق فیصلے کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ گجرات کے باضمیر جج اس سے قبل کئی مرتبہ بی جے پی کے خلاف حیرت انگیز جرأتمندی کا مظاہرہ کرچکے ہیں ۔ مثال کے طور پر ابھی دو ہفتہ قبل 12مئی کا فیصلہ دیکھیں کہ جس میں گجرات ہائی کورٹ نے بی جے پی کے معمر رکن اسمبلی اور ریاست کے وزیرتعلیم بھوپندر سنگھ چوڈاسما کو بڑا جھٹکا دیتے ہوئے احمد آباد ضلع کی دھولکا سیٹ پر حاصل ہونے والی انتخابی کامیابی کو منسوخ کردیا۔

بی جے پی کے سینئر لیڈروں میں شمار کیے جانے والےبا رسوخ چوڈاسما نے صوبائی انتخابات میں کانگریس کے اشون راٹھوڑ کو محض 327کے معمولی فرق سے شکست دی تھی۔ووٹ کی گنتی میں الیکشن کمیشن کے رٹرننگ افسر دھول جانی نے 429پوسٹل بیلٹ کو خارج کرکے ان کی گنتی نہیں کی تھی۔ اس پر راٹھوڑ نے عدالت سے رجوع کرکے کہا تھا کہ اگر پوسٹل بیلٹ کی بھی گنتی ہوئی ہوتی تو نتیجہ ان کے حق میں جاسکتا تھا۔  یہ اعتراض تو معقول ہے لیکن اگر حکومت وقت کے خلاف ہوتو جج حضرات شک کا فائدہ اہل اقتدار کو دینے میں عافیت سمجھتے ہیں مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بعد چوڈاسما کو دہلی کے اندر عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنا پڑا ۔ وہاں پر حسب ِتوقع انہیں راحت مل گئی اور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عارضی روک لگا دی گئی ۔

گجرات ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت سے کہا ہے کہ وہ دہلی اور دیگر ریاستوں کی طرح وہاں بھی نجی تجربہ گاہوں کو کورونا ٹیسٹ کرنے اجازت دے اور ان پرعائد پابندی کو ختم کرے۔ عدالت کا موقف درست ہے کیونکہ شتر مرغ کی مانند اپنا سر ریت میں چھپا لینا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ گجرات ہائی کورٹ کے جسٹس پاردی والا اور جسٹس آئی جے وورا کی ڈویژنل بنچ نے اس معاملےکا از خود نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ’’سول اسپتال کا کام اس میڈیکل ایمر جنسی کےدور میں مریضوں کو راحت پہنچانے کا ہے لیکن ہمیں یہ کہتے ہوئے بہت افسوس ہو رہا ہے کہ سول اسپتال اس وقت کسی جیل کی کال کوٹھری بلکہ اس سے بھی بدتر ہو گیا ہے۔ ‘‘بنچ نے مزید کہا کہ اس سے قبل بھی ہم اپنے تبصروںاور فیصلوں میں انتظامیہ کا دھیان سول اسپتال کی حالت کی طرف دلاچکے ہیں لیکن اس میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے اس لئے اب سخت احکامات جاری کرنے پڑ رہے ہیں۔

بنچ نے اسپتال انتظامیہ اور حکومت سے پوچھا کہ کیاریاست کے وزیر صحت کو اسپتال کی اس حالت کے بارے میں معلوم ہے؟ انہوں نے اسپتال کےذمہ داران سے کتنی مرتبہ میٹنگ کی ہے اور کیا وہ کسی کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں ؟اگر وزیر صحت اور ریاستی حکومت کو ان حالات کے بارے میں معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ اسپتال میں وینٹی لیٹرس کی سخت کمی ہے اور اس کی وجہ سے اموات بڑھ رہی ہیں تو اب تک وہ خاموش کیوں ہے؟ ہمیں بھی بتایا جائے کہ اس نے وینٹی لیٹرس کی تعداد بڑھانے کے لئے کیا قدم کیے ہیں ۔ہائی کورٹ کے مطابق صوبے میں نظامِ صحت ڈوبتے ہوئے ٹائٹینک کی طرح ہے ۔ سرکاری افسران نے کورٹ کے ان تبصروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ مبنی برحقائق نہیں ہے۔ اس سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوا ہے اور وہ سویل اسپتال آنے سے کترانے لگے ہیں ۔ یہ زبانی احتجاج چل ہی رہا تھا کہ ایک اور شرمناک خبر آگئی ۔

دوسرا معاملہ اسی بڑودا کا تھا جہاں کی  بیسٹ بیکری کو گجرات فساد کے دوران بہت شہرت ملی اور وہیں سے مودی جی نے پہلا پارلیمانی انتخاب بھی لڑا یہ اور بات ہے کہ وارانسی کو ترجیح دے کر اسے بھی آگے چل کر جسودھا بین کی طرح چھوڑ دیا۔ یہاں پر گوتری علاقہ میں گجرات میڈیکل ایجوکیشن ریسرچ سوسائٹی (جی ایم ای آر ایس) کے ذریعہ چل رہے کووڈ-19 اسپتال میں 26  مئی کو 12 گھنٹے سے زیادہ بجلی فراہمی ٹھپ رہی۔جس وقت یہ سانحہ پیش آیا تقریباً 12 کورونا اسے متاثر مریض آکسیجن سپورٹ پر تھے جب کہ 6 وینٹی لیٹر کی مدد سے سانس لے رہے تھے۔ بجلی بند ہوجانے کے سبب آئی سی یو میں لگے کئی اے سی بند ہوگئے۔ اس معاملے میں وسطی گجرات بجلی کمپنی لمیٹڈ کے افسران نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ اسپتال کے ٹرانسفرمر میں کچھ کمی آ گئی تھی جس کے سبب ایک دن لمبا پاور کَٹ رہا۔ اس بیان کی بےحسی سے مریضوں کے کنبہ میں  پھیلنے والی افرا تفری کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے  ۔

ایک زمانے میں جب نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو اسی گجرات ہائی کورٹ سے سنگین  مقدمات کو بامبے ہائی کورٹ منتقل کیا جاتا تھا ۔ اس وقت جو حال گجرات ہائی کورٹ کا تھا اب سپریم کورٹ کا ہوگیا ہےلیکن فی زمانہ سپریم کورٹ کو جوکردار ادا کرنا چاہیے وہ گجرات کی عدالت عالیہ کررہی ہے۔ اس طرح وزیر اعظم نے پورے ملک کو آدرش گجرات بنانے کا اپنا وعدہ پورا کردیا لیکن گجرات اب آدرش نہیں رہا وہاں کی عدالت سے مبنی بر انصاف فیصلے ہونے لگے ۔ امید ہے جب مودی جی پھر سے اپنی کرم بھومی گجرات لوٹ کر جائیں گے تو پھرسے سپریم کورٹ اپنی پرانی حالت میں لوٹ آئے گا۔ ویسے بھکت یہ سوال ضرور کریں گے کہ مودی جی بھلا دہلی سے کیوں واپس ہوں گے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب وقت بدلتا ہے توہر کوئی اپنے آبائی وطن کی جانب کوچ کرتاہے ۔ اس کی کروڑوں مثالیں مہاجر مزدوروں کی صورت میں ہندوستان کی سڑکوں ، ٹرینوں، بسوں اور ٹرکوں نظر آرہی ہیں ۔ مشیت کا یہ قانون سبھی پر نافذ ہوتا ہے۔ وہ امیر غریب، منتری سنتری اور راجہ رنک میں بھید بھاو نہیں کرتا ۔ اڈوانی جی بھی اپنے وطن چلے گئے ہوتے مگر اتفاق سے وہ سرحد کے پار ہے لیکن اگر موقع ہوتو وہ ان کی بھی خواہش ہوگی ’آاب لوٹ چلیں ، نین بچھائے ، ہاتھ پسارے ، تجھ کو پکارے دیس تیرا‘ ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.