صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

۲۵ سال بعد باعزت بری کیا جانا انصاف کے کون سے معیار کا حصہ ہے ؟

’ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے‘

2,017
ان کے پچیس کی ذہنی پریشانیوں اور مالی بربادیوں کا حساب کون دے گا ؟ اس کا سوال سپریم کورٹ سے ضرور کیا جانا چاہئے تاکہ ہم دنیا میں کہہ سکیں کہ یہاں انصاف زندہ ہے پچیس سال بعد صرف باعزت بری کردینا انصاف نہیں ہے

(پچیس سال بعد ہندوستانی عدلیہ کی کرم فرمائیوں سے باعزت بری ہونے والے گیارہ افراد میں سے ایک ممتاز میر نے اپنا تلخ تجربہ تحریر کیا ہے ۔ انہیں ان کے ساتھیوں سمیت مئی ۱۹۹۴ میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ ان پر الزامات تھے کہ بابری مسجد کی شہادت کا بدلہ لینے کیلئے بلاسٹ کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے ۔ لیکن ان سے کوئی ایسی چیز برآمد نہیں کی گئی تھی جس سے پولس اور حکومت کے الزامات کو تقویت مل سکے اس لئے پچیس سال بعد انہیں بری کردیا گیا ! حالیہ گرفتاری دہلی ، امروہہ ، ممبرااور اورنگ آباد سے اٹھائے گئے نوجوانوں پر بھی الزامات تو بہت سنگین عائد کئے گئے لیکن ان سے برآمد کی گئی اشیائ کے نام سن کر ہنسی آتی ہے کہ کہیں ہملوگ کسی احمقستان میں تو نہیں رہ رہے !)

ممتاز میر

اب یہ فیصلہ آئے کہ ۲۵ سال پرانے نوجوانوں کو منصف محترم نے ٹاڈا کا کیس ہونے کے باوجود ، اقبالیہ بیانات ہونے کے علی الرغم ، مجسٹریٹ کے سامنے مخالف گواہی ریکارڈ کئے جانے کے ماسوا ’باعزت بری‘ کر دیا ہے ، قریب دس دن ہو چکے ہیں ۔ ہمارے یہاں بدمعاش یا حکمرنوں کا رکھیل میڈیا ملزموں کو ملزم نہیں پولس اور عدالت سے پہلے مجرم بنا دیتا ہے ۔ اس لئے یہ کہنا کہ یہ براء ت با عزت ہے ، حقائق کا مذاق اڑانا ہے ۔ تجربہ کار لوگ ہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا میڈیا عدالت کو کیا اپنے ٹرائل کے ذریعے اچھے اچھے معصوموں کو یہ باور کرا دیتا ہے کہ اصلی مجرم وہی ہیں ۔ حالت یہ ہے کہ کم کیا بہت زیادہ پڑھے لکھے وہ لوگ جو دن میں کم از کم دو اخبارات چاٹ ڈالتے ہوں کہیں دہشت گردانہ واقعہ ہوتے ہی اپنی قوم کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ۲۵ سال پہلے ہمارے ساتھ بھی یہ سب ہو چکا ہے ۔ آج جو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں ہمیں دعوتیں دے رہے ہیں کل انھوں نے ہی ہمیں گالیاں دی تھیں ۔ بھُساول کے بڑے بڑے لیڈروں نے تحریکوں کے اکابرین نے ہمیں دہشت گرد تسلیم کرتے ہوئے ہمارے لئے سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کیا تھا سوائے اس وقت کے جلگاؤں کے ایم ایل اے سریش جین کے ۔آپ سوچ سکتے ہیں کے جو لوگ پولس کسٹڈی کے باہر اس طرح کے ’اقبالیہ بیانات ‘ دے دیتے ہوں ان کا پولس کسٹڈی میں کیا حال ہوتا ہوگا۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پولس کی مار ، خوف کس دہشت کا نام ہے۔ہم تو اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ یہ کسی حال پولس کسٹڈی میں نہ جانے پائیں ورنہ اللہ ہی جانتا ہے کہ قوم کا کیا حال ہوگا۔
یہ بھی ایک افسانہ ہے کہ ہم با عزت بری کر دیئے گئے یا کم سے کم ہمیں کوئی سزا نہیں ہوئی ۔ ہم نے سزا بھگتی ہے اور پورے پچیس سال بھگتی ہے ۔اگر ہم نے کچھ کیا ہوتا اور اس کی سزا بھی ملتی تو وہ اتنی نہ ہوتی جتنی ہم نے بھگتی ہے ۔ پورے پچیس سال قریباً ہرتاریخ پر ہم عدالت میں حاضر ہوتے رہے ۔میں مدھیہ پردیش سے ،ہمارے ایک ساتھی دلی سے ،دو ساتھی ممبئی سے اور بقیہ بھُساول سے ناسک ٹاڈا کورٹ میں آتے ۔ ہمارے مالی ، جسمانی اور ذہنی اخراجات ہوتے رہے۔عدالتوں کے ججوں کے ساتھ اردلیوں اور سپاہیوں کی گھڑکیاں سنتے رہے۔یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے آدمی مجرم نہیں ہوتا۔خود جج جسے معلوم نہیں کیوں Learned کہا جاتا ہے ۔ جاہلوں کی طرح ہی ملزم سے برتاؤ کرتا ہے ۔ اس سب کے باوجود یہ سمجھنا کہ ہمیں سزا نہ ہوئی بڑی خوش فہمی ہے ۔ مگر ، جو ہوا وہ بھی نہ ہوتا تو ہم کیا کر لیتے ۔ دنیا کی کمزور ترین قوم کے افراد جو ہیں!

مضمون نگار کے بھائی پچیس سال بعد باعزت بری ہونے والے ڈاکٹر سید اشفاق میر

۲۵ سال پہلے ۲۵ دن پولس کا ٹارچر سہنے کے بعدہمیں پولس کسٹڈی سے چھٹکارا نصیب ہواکیونکہ چند دنوں میں پولس ٹارچر سہنے کے بعد ہم نے پولس کے تمام’مطالبات‘پورے کر دیئے تھے ۔ اس کے باوجود تین ماہ بعداس وقت کی ٹاڈا کورٹ کے نامزد جج نے ہمیں پہلی ہی درخواست پر ضمانت عنایت کردی تھی۔مگر میرے لئے یہ خوشی عارضی تھی کیونکہ مجھے اپنی نوکری دوبارہ حاصل کرنے کے لئے ایک سال تک جدوجہد کرنی پڑی تھی اور یہی کچھ میرے دیگر ساتھیوں کے ساتھ بھی ہوا تھا ۔اس کیس کو چلانے میں حکومت مہاراشٹر کو کوئی دلچسپی نہیں تھی اسلئے ہمیں جنوری ۱۹۹۹ میں بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ میں رٹ پٹیشن داخل کرنی پڑی۔اس پر عدالت کا فیصلہ یہ تھا کہ ہر ایک کو ۱ ؍لاکھ روپیہ دے کر کیس ہٹا لیا جائے یا پھر۴۸ گھنٹے کے اندر ٹاڈا کورٹ میں چارج شیٹ داخل کی جائے،جو کردی گئی۔کچھ عرصے بعد ٹاڈا ریویو کمیٹی نے ہم پر سے ٹاڈا ہٹانے کی سفارش کردی۔جس پر منصف محترم نے حکومت سے یہ وضاحت مانگی کہ یہ بتایا جائے کہ ان پرٹاڈا کیوں لگایا گیا اور اب کیوں ہٹایا جارہا ہے؟جس کی کوئی وضاحت حکومت کی طرف سے پیش نہ کی گئی ۔ ہم پھرجمعیت العلماء(ارشد مدنی) کے تعاون سے ۲۰۱۲ میں یہ درخواست لے کر سپریم کورٹ گئے کہ ہم پر سے ٹاڈا ہٹایا جائے ۔ مگر ۲۰۱۶ میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ہمیں کیس کی میرٹ پر کچھ نہیں کہنا ہے ۔اور یہ کہ Designated court قانون کی Provisions کے مطابق کیس چلا کر ایک سال میں کیس ختم کرے ۔ دیکھئے یہاں بھی سپریم کورٹ۴ سال میں یہ فیصلہ کر رہی ہے ۔ اسے مطلق یہ احسا س نہیں ہے کہ یہ کیس دہائیوں سے لٹکا پڑا ہے ۔ یہاں ہم جسٹس ایس سی کھٹی کے شکر گزار ہیں انھوں نے انتہائی سختی سے کام لے کر کیس کو سال ڈیڑھ سال میں ختم کیا۔بصورت دیگر یہ کیس ۲۵ سال اور نکال سکتا تھا ۔
ہم باعزت بری کردیئے گئے مگر ساتھ ہی یہ پخ بھی لگادی گئی کہ ہم چند دنوں میں ۶ ماہ کے لئے ضمانت جمع کرائیں کیونکہ حکومت کو اپیل میں جانے کے لئے ۶ ماہ کا وقت ہے اور ان چھ ماہ کے دوران ہم کہیں ’فرار ‘ نہ ہو جائیں۔کتنی حیرت انگیز بات ہے ؟ وہ لوگ جو ۲۵ سال ضمانت پر رہنے کے باوجود فرار نہ ہوئے اور جنھوں نے جلد سے جلد کیس چلوانے کے لئے ہر طرح کی کوششیں کیں ان سے اس بات کی گارنٹی طلب کی جا رہی ہے کہ اپیل سے ڈر کے فرار نہ ہو جائیں ۔ معلوم نہیں common sense کسے کہا جاتا ہے۔
اتفاق سے ہم نے Integrated لاء کورس کے ۲ سال کر رکھے ہیں۔جس میں ہم نے بھی Justice Delayed is Justice Denied پر ایک مضمون لکھا تھا ۔ یہ جملہ اب بڑا گھسا پٹا ہو چکا ہے۔جج حضرات بھی اکثر اس کی جگالی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ مگر اس کے حصول کے لئے عملاً کوئی کوشش نہیں کرتا۔اگر جسٹس کھٹی محترم سختی کے ساتھ اپنے احکامات نافذ کرکے کیس کو سال ڈیڑھ سال میں ختم کرسکتے ہیں تو دوسرے قابل احترام منصفین ایسا کیوں نہیں کر سکتے ۔ کیس میں تاخیر کرنے والی پارٹی کو جرمانہ کیوں نہیں کیا جاسکتا ؟ ان کے وارنٹ کیوں نہیں نکالے جا سکتے؟ مگر ہمارا mindset یہ ہے کہ انصاف ہو یا نہ ہوسسٹم فالو ہونا چاہئے ۔ اسی لئے ہماری عدالت عظمیٰ صرف یہ فیصلہ کرنے کے لئے ۴ سال لگا دیتی ہے کہ کیس کس طرح چلایا جانا چاہئے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی دوسرے جج کو یہ حکم بھی دیتی ہے کہ یہ کیس ایک سال کے اندر اندر ختم کردو۔اسلئے ہندو ہو یا مسلمان سب ہمارے عدالتی نظام کے شاکی رہتے ہیں ۔

مضمون نگار ممتاز میر گیارہ افراد میں شامل اور ۲۵ سال بعد باعزت بری ہونے والے میں شامل ہیں

بڑا عجیب لگتا ہے کہ ایک گینگ ریپ ہوتا ہے آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ۔ بچوں سے لے کر قریب المرگ بوڑھے تک میدان میں آجاتے ہیں ۔ ہر قسم کا میڈیاصدیوں سے سوئی کار کردگی دکھا نے لگتا ہے کینڈل ہی نہیں معلوم نہیں کون کون سے مارچ نکالے جاتے ہیں ۔یہی حال کبھی قتل اور کبھی دہشت گردانہ حملوں پر ہوتا ہے۔مگر کوئی مائی کا لال اس کی جڑوں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا۔ارے ،یہ ہمارے عدالتی نظام کی غیر کارکردگی تو ہے جو مجرموں کو تر نوالہ نظر آتا ہے اور معصوموں کا دشمن ۔یہ مجرموں کی ہمت افزائی کرتا ہے اور غریبوں کی ہمت شکنی۔کوئی ہے اس پر آواز اٹھانے والا؟ہم ریٹائرڈ جسٹس ٹی ایس ٹھاکر،جسٹس اے ایم احمدی ،جسٹس مارکنڈے کاٹجو،اور جسٹس بی جی کولسے پاٹل سے دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ سارے کام چھوڑ کر عدالتی نظام کی صفائی اور تیزی لانے کا کام کریں۔اس کے لئے احتجاج کریں ،تحریک چلائیں۔یہ آپ حضرات کا قوم پر بڑا احسان ہوگا۔اگر عدالتی نظام چست و درست ہو گیا تو عوام کے ۵۰فی صد مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔
وطن عزیز کے وزرائے اعظم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ وطن کو سپر پاور بنائیں گے اور وہ اس کے لئے صرف دو نکات پر توجہ دیتے ہیں ۔ ایک معیشت اور دوسرا دفاع ۔ کیا عدالتی نظام کی مٹی پلید کرکے اسے تیسری دنیا کی سطح پر رکھ کر ہم سپر پاور بن پائیں گے؟وطن عزیز کے سربراہان مملکت کی بڑی بڑی باتیں ایک طرف اور ہمارا عدالتی نظام دوسری طرف ،بین الاقوامی برادری ہمارا مذاق اڑاتی ہے۔میں نے اتفاقاً نیٹ پر’ دی گارجین‘ کا ایک اشو دیکھ لیا تھا جس میں ہمارے عدالتی نظام کی کھِلی اڑائی گئی تھی۔خود ہمارے لاء کمیشن ، پارلیمنٹری کمیٹی اور سپریم کورٹ کی سفارشات یہ ہے کہ ایک ملین افراد پر ۵۰ جج ہونا چاہئے ۔ یہ تعداد بھی بین الاقوامیNorms سے کم ہی ہے ۔ مگر ہمارے یہاں عملاًایک ملین افراد پر صرف ۱۳ جج ہیں۔اس طرح دیکھا جائے تو حکومت کا نکما پن ہے جو اپنے چیلے چانٹوں کو ۳۰؍۳۰ہزار کروڑ دے کر فرار کروا دیتی ہے ۔۲۵ دسمبر ۲۰۱۷ کے انڈین ایکسپریس کے ایک مضمون میں جناب سدھارتھ دوے لکھتے ہیں۱۸؍۲۰۱۷ کے بجٹ میں ۱۷۴۴ کروڑ یعنی صرف 0.4 % مختص کیا گیا تھا ۔ وکی پیڈیا ہمارے بجٹ کے تعلق سے کہتا ہے یہاں جیوڈیشری کے لئے صرف0.2% بجٹ مختص کیا جاتا ہے ۔
ہمارے عہدوں پر براجمان جج تو اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتے ۔ گو کہ چند ججوں نے چند ماہ پہلے اس روایت کو توڑ دیا ہے ۔ پھر وہ جج حضرات جو وظیفہء حسن کارکردگی لے رہے ہیں اور جن کی زندگی اس دشت کی سیاحی کو بھگتتے گزری ہے ان کا تو فرض ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسل کے لئے حالات بہتر کر جائیں ۔

مضمون نگار سے رابطہ کیلئے موبائل نمبر 7697376137 پر کال کریں 

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.