ممبئی،ایم ایل اے سداسرونکر بندوق کے لائسنس اور ان کے بندوق سے کوئی اور فائرنگ کرتا ہے اور اس بنیاد پر سداسرونکر کو کلین چیٹ مل جاتی ہے۔ اگر اس طرح کی مضحکہ خیز بنیادوں پر کسی کو کلین چیٹ مل رہی ہو تویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شندے فڈنویس حکومت نے کیا قانون کو طاق پر رکھ دیا ہے۔ ایم ایل اے سداسرونکر کو کلین چیٹ دیئے جانے پر یہ ردعمل این سی پی کے ریاستی چیف ترجمان مہیش تپاسے نے ظاہر کیا ہے۔
واضح رہے کہ ایک جلوس کے دوران سداسرونکر کے ذریعے گولی چلانے کا واقعہ سامنے آیا تھا، جس کی پولیس نے تفتیش کرتے ہوئے اس بنیاد پر سرونکر کو کلین چیٹ دیدی ہے کہ سداسرونکر کے بندوق سے کسی اور نے گولی چلائی تھی۔ مہیش تپاسے نے پولیس کی اس کلین چیٹ پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔ مہیش تپاسے نے کہا کہ اگر پولیس کی تفیش درست ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود کی لائسنس شدہ بندوق کیا کسی دوسرے کو دی جاسکتی ہے؟
تپاسے نے کہا کہ انڈین آرمس ایکٹ 1959کی دفعہ3میں یہ بات صاف طو رپرکہی گئی ہے کہ صرف لائسنس کی تجدید یا اسلحے کی مرمت کے وقت ہی کسی دوسرے کے لائسنس شدہ اسلحہ کو کوئی دوسرا شخص اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ سداسرونکر کے معاملے میں ایسی کوئی صورت نہیں تھی کیونکہ فائرنگ کا واقعہ ایک جلوس کے دوران پیش آیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سداسرونکر کا اسلحہ جلوس کے دوران ہی کسی دوسرے شخص کے پاس تھا، جس کی تمام تر ذمہ داری لائسنس ہولڈر پر عائد ہوتی ہے۔
تپاسے نے کہا کہ ایک عوامی تقریب میں اپنا آتشیں اسلحہ کسی دوسرے کو نہیں دیا جاسکتا۔ پھربھی اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ سداسرونکر کے اسلحے سے کسی دوسرے نے فائرنگ کی تھی تو بھی سرونکر پر ہی اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ ہی خاطی قراردیئے جائیں گے۔ اس لیے سداسرونکر کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے۔ اس کے علاوہ جس دوسرے شخص نے سداسرونکر کی بندوق سے فائرنگ کی ہے، پولیس کو اسے بھی سامنے لاناچاہئے۔