صرف نیوز ہی نہیں حقیقی ویوز بھی

کیا لوک سبھا انتخابات میں سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوگا ؟

1,316

تحریر : اُدئے تان پا ٹھک/ترجمہ۔عارِف اگاسکر

مہاراشٹر میں لو ک سبھا کی سیٹیں(۴۸)

بی جے پی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۲

شیو سینا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۸

راشٹر وادی کانگریس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۵ ۰ 

کانگریس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲ ۰

 سوابھیمانی شیتکری سنگھٹنا۔۔۔۔۱ ۰

         مہاراشٹر کےرائے د ہندگان پانچ سال بعد پھر ایک بارلوک سبھا کے لیے ووٹنگ کر رہے ہیں ۔ اس لیے گذشتہ انتخابات کے وقت کے حالات کو جاننا ضروری ہے ۲۰۱۴ءکےانتخاب کے دوران مہاراشٹر سمیت ملک میں نریندر مودی کی لہر تھی ۔ لیکن آج کے حالات سے اس وقت کے سیاسی حالات مختلف تھے ۔ کانگریس اور راشٹروادی کانگریس متحدہ محاذ سرکارکی دس سالہ کار کردگی اوراس سرکار کے دور اقتدار میں وزراء کی بدعنوانی کے معاملات نیز نریندر مودی اور بی جے پی کی جارحانہ انتخابی مہم کا بہت بڑا اثر ۲۰۱۴ء کے انتخاب پر تھا ۔ مذکورہ انتخاب میں پہلی مرتبہ ووٹنگ کرنے والے نئے رائے دہند گان نےاس میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ اس وقت لوک سبھا امتخاب میں بی جے پی اور شیو سینا متحدہ محاذ میں تھے بعدازاں اسمبلی انتخابات میں یہ اتحاد ختم ہو گیا اور اب دوبارہ حالیہ پارلیمانی انتخاب میں ایک بار پھر دونوں پارٹیوں میں اتحاد قائم ہوگیا ہے ۔

درمیان کے پانچ برسوں میں شیو سینا نے سرکار میں رہ کر حزب اختلاف کا عہدہ حاصل کیا تھا اور مسلسل بی جے پی پر تنقید کر رہی تھی ۔ اسمبلی کے انتخابات کے دوران لوک سبھا کا اثر قائم رہنے سے مہاراشٹرمیں بھی بی جے پی ہی حاوی رہی تھی ۔ اس باربھی وہی حالات قائم رہیں گے ۔ اس کے باوجود لوک سبھا انتخابات پرریاستی سرکار کی کار کر دگی اثر انداز ہو گی ۔ اس لیےدیوندر فڈ نویس کی کار کردگی کا جائزہ لینا پڑے گا کہ وہ لوک سبھا اور اس کے بعد عمل میں آنے والے اسمبلی انتخابات میں اپنی قیادت کا لوہا کیسے منواتے ہیں ۔ کیونکہ لوک سبھا کی ووٹنگ کر تے ہوئے مرکزی سر کار کی کارکر دگی پر غور کیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود مہاراشٹر میں ریاستی سر کار کی کار کردگی پر بھی بی جے پی کی کامیابی و ناکامی کا انحصار ہے ۔ پچھلی بار اچانک پارٹی کے سینئر لیڈران کی بجائے دیوندر فڈ نویس کا نام وزیر اعلیٰ عہدے کے لیے آگے آیا تھا ۔ جس سے ناراض ہو کر فڈنویس کے ہم عصر اور سینئر لیڈران شروع شروع میں ان کے لیے پریشانی کا سبب بنے ۔ لیکن فڈ نویس نے اپنی حکمت عملی سے انہیں بے اثر کر دیا ہے ۔ اس لیے لوک سبھا ہو یا اسمبلی دونوں کی ذمہ داری ان کے کاندھے پر ہوگی ۔

پچھلے پانچ بر سوں میں مہاراشٹر میں کچھ ایسے سیاسی واقعات رونما ہوئے ہیں جس نے تمام سیاسی حالات کو تبدیل کر دیا ہے ۔ مراٹھا ریزرویشن کے لیے شروع کی گئی تحریک ، اس کے بعدحاصل شدہ ریزرویشن اور دیگر طبقات کے ذریعہ ریزرویشن کے مطالبہ نے ریاست کا ماحول گرما دیا ہے ۔ اس لیے حزب مخالف نے دعویٰ کیا ہے کہ کسانوں کی متعدد تحریکوں کی وجہ سے خصو صاً دیہی علاقوں میں بھی اب پانچ سال قبل جیسے سیاسی حالات نہیں رہے ہیں ۔ لیکن مقامی سوراج سنستھا کے انتخابات میں اس میں سیندھ لگ گئی اور آج ریاست کی سب سے بڑی پارٹی بی جے پی بن گئی ۔ پچھلی بار شکست سے دوچار ہو نے والی کانگریس اور راشٹروادی کانگریس پارٹی میں گذشتہ کچھ ماہ سےتازگی آئی ہے ۔ اس کے باوجود ان دو نوں پارٹیوں میں مکمل اعتماد نظر نہیں آرہا ہے ۔ بی جے پی پر ہمیشہ سخت تنقید کرنے والی شیو سینا اتحاد ہونے کے بعد بی جے پی کی کیسی حمایت کررہی ہے اس پر غور کیا جائے تو یہ بھی تفریح سے کم نہیں ہے ۔

پچھلی بار بی جے پی کی لہر کو دیکھتے ہوئے کانگریس اور راشٹر وادی کانگریس کے کئی لیڈران نے ہوا کے رخ کے ساتھ جانا پسند کیا تھا ۔ بعد میں ہوا کا رخ کس سمت ہے اس کا علم ہو نے پر یہ مو قع پرست لیڈران یقیناً دوبارہ اپنا رخ اس جانب موڑ دیں گے ۔ اس بار شیوسینا اور بی جے پی میں اتحاد نہیں ہوگا یہ مان کر شیو سینا کے لیڈران نے انتخابات کے لیے اپنی تیاری زور و شور سے شروع کی تھی ۔ لیکن دونوں پارٹیوں کے اتحاد کی وجہ سے ان کی امیدوں پرپانی پھر گیا ہے ۔ نا امیدی کا یہ دکھ وہ کیسے ہضم کر تے ہیں اس پر بھی غور کرنا ہوگا ۔

کانگریس اور راشٹروادی کانگریس کے آپس میں اتحاد کے باوجود شرد پوار کی سیاست کا جائزہ لیں تو وہ ریاست میں کانگریس کو اپنی پارٹی پرحاوی نہیں ہو نے دیں گے ۔ راہل گاندھی کے کانگریس میں جان پھونکنے کے باوجود ابھی بھی ریاست میں کانگریس پارٹی کے پاس سب کیلئے قابل قبول قیادت نہیں ہے ، جس کی وجہ سے اشوک چوہان کوتن تنہا یہ ذمہ داری پوری کرنا ہوگی ۔ کوکن کی بارہ سیٹوں پر بی جے پی اور شیوسینا کو مکمل برتری حاصل ہے ۔ کیونکہ کانگریس اور راشٹر وادی کانگریس پارٹی کا ایک بھی رکن پارلیمان کوکن اور ممبئی میں نہیں ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بار بھی ممبئی میں منسے الیکشن نہیں لڑے گی جس کے سبب منسے کی ووٹنگ کسے حاصل ہو گی اس پر توجہ دینا ہوگی ۔

پچھلی بارمغربی مہاراشٹر میں کانگریس کی روایتی سیٹیں بی جے پی نے حاصل کی تھیں ۔ اپنی حکمت عملی سے بی جے پی نےسانگلی جیسی کانگریس کی روایتی سیٹ پر قبضہ کر کے اسی پارٹی کے سنجئے کاکا پاٹل کو کامیابی دلائی تھی اورسولاپور میں سوشیل کمار شندے کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ شِرور میں شیو سینا کے شیواجی راو آدھڑ راو پاٹل کے سامنے امول کولہے کہاں تک ٹک سکتے ہیں اس پر بھی غور کرنا ہوگا ۔ بارامتی میں شرد پوار کی بیٹی سپریہ ایک بار پھر انتخابی میدان میں اپنی قسمت آزمائی کریں گی لیکن ان کے خلاف اس بار بی جے پی شیوسینا متحدہ محاذ کا امیدوارزیادہ اثر انداز ہو گا ایسا نظر نہیں آتا ۔ ستاراسے اس بار بھی اودئے راجے بھو سلے ہی رکن پارلیمان ہوں گے ۔ کولہاپور سے راشٹروادی کانگریس پارٹی کے دھننجئے مہاڈک انتخابی میدان میں ہیں پھربھی ان کے خلاف شیوسینا کے سنجئے منڈلک کو انتخابی میدان میں اتارے جانے کا  فیصلہ کیا گیا ہے ۔ جس کی وجہ سےمہاڈک کوحلیف پارٹی کے ستیج پاٹل اور سنجئے منڈلک ان دونوں سے مقابلہ کر نا پڑے گا ۔ ہات کنگلےانتخابی حلقہ سے سوابھیمانی شیتکری سنگھٹنا کے راجو شیٹی سے اس بار شیو سینا کے دھیریہ شیل مانے مقابلہ کریں گے ۔

شمالی مہاراشٹر کی آٹھ سیٹیں شیو سینا بی جے پی کے قبضہ میں ہیں ۔ اس بار ناسک کی سیٹ پر ہیمنت گوڈسے کو دو بارہ چھگن بھجبل اور سمیر بھجبل سے مقابلہ کر نا ہو گا ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خاندیش میں جلگائوں ، راویر ، دھولیہ ، نندوربار کی سیٹوں پربی جے پی کےسنیئر لیڈر ایکناتھ کھڈسے کی ناراضگی کا خمیازہ بی جے پی کو برداشت کرنا ہوگا یا اس کا فائدہ گریش مہاجن حاصل کریں گے ۔ یہ بات بھی عیاں ہو گی کہ اس بارکھڈ سے کی اسنوشا رکشا کو ٹکٹ دیا جائے گا یا امیدوار کو تبدیل کیا جائے گا ۔ مراٹھواڑہ کی آٹھ سیٹوں میں سےہنگولی اور نانڈیڑکو چھوڑ کر بقیہ چھ سیٹیں بی جے پی شیوسینا کے قبضہ میں ہیں ۔ ان میں سے نانڈیڑ اور جالنہ ان دو سیٹوں پر کانگریس اور بی جے پی کے ریاستی صدور انتخابی میدان میں اپنی قسمت آزمائی کر رہے ہیں ۔ اس بار بی جے پی کےریاستی صدر رائو صاحب دانوے کوشیو سینا کے ارجن کھوت کر نے پریشانی میں ڈال دیا ہے ۔ بی جے پی شیوسینا میں اتحاد ہونے کے باوجود بھی کھوتکر اپنی امیدواری سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہیں ۔ ودربھ کی دس سیٹوں میں سے ایک بھنڈارا ۔ گوند یا کی سیٹ چھوڑی جائے تو دیگر نو سیٹوں پربی جے پی اور شیو سینا کے رکن پارلیمان منتخب ہوئےہیں ۔ خودکشی سے متاثر اس ضلع میں کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ دیکھنا پڑے گا ؟

مراٹھی روزنامہ پو ڈھاری ، ۱۲ مارچ ۲۰۱۹ء

Leave A Reply

Your email address will not be published.